ایک جنگ کے بعد کا خواب


میں کہیں بچوں کو سکول چھوڑنے میں لیٹ تو نہیں ہوگیا تھا کیونکہ میری آنکھیں کھلی تھی لیکن آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا جیسے کمرے کی لائٹ ابھی تک آف ہو اور پردے نے کھڑکی کو مکمل ڈھانپ رکھا ہو۔ غنودگی تھی یا کچھ اور سمجھنا تھوڑا مشکل تھا لیکن آہستہ آہستہ کانوں نے کچھ آوازیں سنیں۔ سماعت نے جب دھیان دینا شروع کیا تو کچھ دھندلا منظر نظر آیا۔ کچھ لوگ ایک بھاری بھرکم پتھر کو ہٹانے کے لیے مدد پکار رہے تھے۔ شاید یہ وزنی پتھر ایک اور پتھر کے سہارے میرے اوپر تھا۔

آنکھیں جوں، جوں کھلتی جا رہی تھیں منظر تھوڑا واضح ہو رہا تھا۔ میں ایک کنکریٹ کے بڑے پتھر کے نیچے مٹی میں اٹی سانسوں سے آکسیجن کشید کر رہا تھا۔ ٹانگیں سن لیکن جسم کا باقی حصہ درد سے اتنا چور تھا کہ سمجھ نہیں پا رہا تھا، زیادہ تکلیف جسم کے کس حصے میں ہے۔ میرا سر اس قدر درد سے لبریز جیسے زمین کے ساتھ سلائی کر دیا گیا اور اسے اٹھانے کی کوششیں میں حرام مغز کی کھال کھینچتی محسوس ہو۔ یہ سب کیا تھا، ابھی بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔

آنکھیں کبھی مکمل بند ہو جاتی جیسے آخری منظر محفوظ کر لیا ہو لیکن پھر ایک دھندلاہٹ سے کھل جاتی جیسے کچھ اور دیکھنا باقی ہو۔ پتھر ہٹا دیا گیا اور ملبے کے ڈھیر سے مجھ پر دن کی روشنی عیاں ہوگئی۔ آنکھوں کو چندھیا دینے والی تیز سفید روشنی۔ مجھے اسٹریچر پر لٹایا گیا اور ملبے کے ڈھیر پر سے گزار کر ایک ایمبولینس میں ڈال دیا گیا۔ دائیں طرف میرے ماتھے اور بازور سے رستے خون کی مرہم پٹی کرتے رضاکار اور بائیں جانب ایمبولینس کی وہ کھڑکی جس سے میں اپنے محلے کی باقیات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا چکا تھا کہ کسی بڑے حادثے میں شاید میں بچ چکا ہوں۔

کھڑکی سے باہر ٹوٹے، گرے مکانات۔ لوگوں کا شور مچاتا بکھرا ہجوم اور سڑک سے بھاری پتھر ہٹانے والے رضاکار موجود تھے۔ قریبی دکانوں میں آگ بجھ چکی تھی اور وہ سیاہ دھوئیں میں گھری تھیں۔ مجھے سرکاری پرائمری سکول کے دروازے پر ایمبولینس سے اتارا گیا اور گاڑی باقی کے ملبے میں پھنسے افراد کو بچانے لوٹ گئی۔ سرکاری سکول کے ایک کیمپ میں میری مرہم پٹی کی گئی اور بازو کی ٹوٹی ہڈی کو جوڑنے کی ایک ناکام کوشش۔ اس دوران مجھے یاد آیا، رات گئے آسمان میں طیاروں کی گھن گرج سے لوگ پریشان ہوگئے تھے لیکن پھر نجانے کس لمحے ایک زور دار دھماکے کی آواز نے اس پریشانی کو آگھیرا اور سب دھواں، دھواں ہو گیا۔

مجھے یاد آیا۔ اماں، ابا اور چھوٹے بہن، بھائی ان سب کا کیا بنا؟ میں نے ہوش و حواس کو برقرار رکھتے ہوئے کیمپ میں انہیں ڈھونڈنا چاہا لیکن میرے پاؤں اور میری ٹانگیں بستر سے اٹھنے کی چاہ میں میرا ساتھ دینے سے قاصر تھیں۔ درد سے میری آنکھیں اچھل پڑی اور آنسوؤں کا ایک سمندر ابل آیا۔ ایک رضاکار نے میری حالت دیکھ کر بتایا ٹانگوں کی دونوں ہڈیاں فریکچر ہیں۔ چلنے کی کوشش نہ کروں۔ کیسے چلنے کی کوشش نہ کروں۔

مجھے اپنے پیاروں کا پتا ڈھونڈنا تھا لیکن بے بسی ایسی تھی کہ میں سوائے رونے کے اور کوئی ہمت نہیں جتا پا رہا تھا۔ میری جاب، دوستوں کے ساتھ شام کی چائے، ہنستے چہرے، کسی کے پیغام کا تفیصیلی جواب، کل کی ملاقات کا وعدہ، کوئی انتظار، چند ادھورے کام، کچھ ذمہ داریاں، فیس بک کے آخری اسٹیٹس یہ سب اور ان جیسی لاتعداد باتیں دماغ میں تیزی سے پس پردہ گھوم رہی تھیں لیکن آنکھیں صرف دھندلا پانی دکھا رہی تھیں۔ روتی ہچکیوں کی آوازوں میں قریب پڑے لوگوں کے کراہنے کی آوازیں بھی شامل ہو رہی تھی اور میرا دماغ ہتھوڑے کی ضرب سا درد کر رہا تھا۔

اچانک! ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔ کمرے کے دروازے پر چھوٹا بھائی آواز دے رہا تھا ”سکول چھوڑ آؤ“۔ میرا کمرہ ٹھیک سے موجود تھا۔ بازو ٹھیک کام کر رہا تھا۔ ٹانگیں سلامت تھیں۔ کمرے میں دن کی ہلکی ہلکی روشنی تھی۔ یہ صبح وہ نہیں تھی جو دیکھی گئی تھی بلکہ یہ صبح حقیقتًا وہ صبح تھی جو روز دیکھی جاتی تھی۔ ماتھے پے پسینہ اور سانسوں کی رفتار بتا رہی تھی کہ کچھ خواب کبھی ایسی کیفیت میں ڈھال دیتے ہیں کہ انسان کو حقیقت میں آنے پر بھی سکتا طاری رہتا ہے۔

میں نے موبائل دیکھا تو رات انٹرنیٹ بند کیے بناء ہی سو گیا تھا۔ فیس بک پر جنگی حالات پر لطیفے اور وٹس ایپ پر لگے اسٹیٹس میرے سامنے تھے۔ ’لڑکیاں پریشان ہیں، جنگ پر کون سے کپڑے پہنیں۔ ‘ ’سب لوگ پریشان ہیں لیکن پاکستانی خوش ہیں، جیسے چھوٹی عید آرہی ہے۔ ‘ ’مال غنیمت میں مجھے ساری ہیروئنیں چاہیے۔ ‘ ’بھائیو! سچ بتاؤ۔ جنگ شروع ہوگئی ہے۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا۔ ‘ ’فوجیں آمنے سامنے ریئل PUGH گیم کھیلنے کے لیے۔ ‘ ’جنگ کی فلمیں بنانے سے کوئی نہیں جیتتا، اصل جنگ میں تو مزا اب آئے گا۔ ‘ ایک گہری سانس پر میں نے موبائل سکرین لاک کر کے دوبارہ میز پر رکھ دیا اور کمرے سے باہر نکل چکمتے دن کو سلامی دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).