ڈاکٹر نعیم کلاسرا: تنہائی کے سوسال


ڈاکٹر جاوید کنجال کا فروری میں فون آنے کا مقصد اب تو سمجھ ہی گیا ہوں۔ وہ سال بھر فون کریں یا نہ کریں لیکن فروری میں فون کرنا ازحد ضرور سمجھتے ہیں۔ اور پھرمحبت بھرے انداز میں یاددلاتے ہیں کہ خضر بھائی، ڈاکٹر صاحب کی برسی بھی آنیوالی ہے۔ اور اس بار بھی ان کے ایصال ثواب کے لئے فری میڈیکل کیمپ کریں گے۔ جس میں پہلے کی طرح مریضوں کے ٹیسٹ، چیک اپ اور خاص طورپر ادویات مفت ہوں گی۔ میں بولناچاہ رہاتھا لیکن انہوں نے کہا کہ خضر بھائی فری میڈیکل کیمپ میں مریضوں کی زیادہ شرکت کے لئے مسجدوں میں اعلان زیادہ سے زیادہ کرواناہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند لوگ اس سے سہولت سے استفادہ کرسکیں۔

ہو یوں رہاہے کہ ہر سال فری میڈیکل کیمپ میں مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر کنجال کی خواہش ہوتی ہے کہ جتنا ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ لوگ اس سہولت سے استفادہ کرسکیں۔ میں نے ان کی اجازت سے عرض کیا ڈاکٹر صاحب میں بھی اسی سلسلے میں آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن پہلے کی طرح اس سال بھی آپ نے کیمپ کے بارے میں آگاہ کرنے میں پہل کرلی ہے۔ نعیم بھائی کی برسی پر فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد ماڈل ویلیج جیصل کلاسرا میں کرتے ہیں لیکن اس بارڈاکٹر صاحب سے طے ہوا کہ برسی سے قبل جو اتوار 17 فروری کو آ رہا ہے اس دن فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کریں گے۔

اس بات کے پیچھے مقصد یہ تھاکہ برسی کے دن خیرات اور دعا کی جا سکے اور مل بیٹھ کر نعیم بھائی کو یاد کیا جا سکے۔ ڈاکٹر نعیم کلاسرا ( نعیم بھائی) جوکہ 21 فروری 2013 کو ہم سے بچھڑے گئے تھے، وہ اسلام آباد میں ہم سے ملنے آئے ہوئے تھے اور پھر 21 فروری کو ان کو صبح سویرے دل کی تکلیف ہوئی تو میرے ساتھ ہسپتال گئے اور پولی کلینک کے ایمرجنسی میں ان کو فوری طور پر دل کی تکلیف سے نکالنے کے لئے ڈاکٹروں نے کوشش کی اور ان کو ریلیف بھی ملا۔ اور ان کی طبیعت اتنی بہتر ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے کہاکہ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب جاسکتے ہیں لیکن ایسا شاید تقدیر کو منظور نہیں تھا اور پھرنعیم بھائی کی سانسیں ایسی ٹوٹیں کہ وہ ہمیشہ کے لئے چلے گئے۔

یہ لمحہ ہم سب کے لئے ایسا تھا جس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ ہماری زندگی تھے، ہماری زندگی کی خوشیاں انہی کی گرد گھومتی تھیں۔ راقم الحروف کو انہوں نے چھوٹا بھائی ہونے کی بدولت خاص پیار کا کوٹہ دیا ہوا تھا اور دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ ہم سب بہن بھائی یہی سمجھتے تھے کہ وہ مجھ سے زیادہ پیارکرتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس محبتوں کا ڈھیر ہی اتنا تھاکہ سب پر نچھاور کرتے ہے اور سب کو احساس رہتا تھا کہ وہ اس کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔

اماں اور بابا کے دنیا سے جانے کے بعد نعیم بھائی نے اپنی زندگی کو ایک خاص سمت میں اس طرح موڑ دیاکہ وہ ہماری خوشیوں اور خاص طورپر تعلیم کے لئے سب کچھ قربان کرتے گئے۔ ہماری زندگیوں میں ہمہ وقت خوشیاں لانے کے متمنی رہتے تھے۔ انہوں نے ہمیں اتنا اپنے قریب کرلیاکہ ہم بابا اور اماں کا پیار ان سے حاصل کرنے لگے اور پھر ایک اور انمول رشتہ انہوں نے یوں بھی دیاکہ ہم کو دوست بنا لیا۔ ہم ان سے ہر بات کر سکتے تھے، وہ پورا موقع دیتے کہ ہم زندگی کو بھرپور انداز میں انجوائے کر سکیں۔

نعیم بھائی کی زندگی کا بڑا مقصد یہی تھاکہ ہم پڑھیں اور اچھی تعلیم حاصل کریں مطلب اچھے انسان بنیں۔ وہ کتاب سے دور نہیں رہ سکتے تھے۔ وہ ہمیں پڑھانے کے علاوہ اپنے شعبہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے، یوں انہوں نے پرائیوٹ پریکٹس کی اپنے اوپر پابندی لگائی ہوئی تھی، وہ اپنے شعبہ سے جہاں بے پناہ پیار کرتے تھے، وہاں پر ان مریضوں کے لئے وہ ہمہ وقت موجود ہوتے تھے جوکہ اتنی سکت نہیں رکھتے کہ اپنا علاج کرواسکیں۔

گاؤں آتے تھے تو وہ ان افراد کے لئے ہر وقت موجود ہوتے تھے جوکہ عام حالات میں توجہ حاصل نہیں کرپاتے ہٰیں اور پھر ان کو بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور پہنچنے کی پرچی مل جاتی اور اس میں سارا پیکج ہوتا تھا مطلب ان کا کام صرف پہنچنا ہے باقی وہ خود کرتے تھے۔ ان کی ایک اور بڑی خوبی تھی وہ دکھ بھری کہانیاں سن سکتے تھے اور دکھوں کے مدوا کے لئے جتنا کرسکتے تھے، وہ کر گزرتے تھے۔ وہ محنت پر یقین رکھتے تھے، وہ ناکامیوں سے گھبراتے نہیں تھے اور یہی سبق ان کی طرف سے ہمارے لیے تھا۔

ان کے پاس بہاولپور جب بھی ہوتے تھے، جہاں زندگی کی اور بہت باتیں ہوتی تھیں وہاں زیادہ وقت کتابوں کے اردگرد گزرتا تھا۔ نعیم بھائی کا میڈیکل کالج بہاولپور میں داخلہ ہواتو وہ ہم بہن، بھائیوں کے لئے ایک بڑی مثال بن گئے۔ ان کی زندگی کا اثاثہ ہم بہن، بھائی تھے، بابا اوراماں کے بعد انہوں نے بہاولپور کو ہمارے دوسرے گھر کی شکل دیدی تھی۔ ان کو ملکر جب بہاولپور سے نکلتے تھے تو زندگی نکھر کر ساتھ ہوتی تھی، نعیم بھائی میڈیکل کالج بہاولپور کے گریجوایٹ تھے اور پھر وہیں بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں شعبہ آنکھوں میں ہاوس جاب کے بعد بحیثت میڈیکل آفسیر کی حیثت میں منسلک ہوگئے تھے اور اعلی تعلیم کے حصول کے لئے آخری لمحہ تک کوشاں رہے، ڈاکٹر جاوید کنجال ان کے ساتھ ہی میڈیکل کالج میں تھے۔

ڈاکٹر جاوید کنجال قائد اعظم میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد لیہ چلے آئے تھے اور یہاں انسایت کی خدمت شروع کردی تھی۔ لیکن یہ محبتوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی یہاں ضروری ہے کہ ان کی محبتوں اور پیار کارشتہ صرف بہن، بھائیوں، بھانجوں، بھتیجوں تک محدود نہیں تھا بلکہ انسایت کے لئے تھا۔ دوستوں کے بغیر زندگی کو ادھوراسمجھتے تھے۔ اوردوستوں کے لئے معاملے میں ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ دوستوں میں چھوٹے بڑے کا فرق نہیں سمجھتے تھے بلکہ سب کے لئے وہ احترام اورمحبت رکھتے تھے۔

نعیم بھائی جیسے اوپر بتایاہے کہ آنکھوں کے ڈاکٹر تھے۔ یوں ہمارے بھتیجے احمد حسین نعیم بھائی کی زندگی میں خوش قسمتی سے قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور سے گریجوایشن کے بعد بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کے آنکھوں کے شعبہ میں ان کے ساتھ آگئے تھے۔ اور نعیم بھائی کے چلے جانے کے بعد ان کی سنہری یادوں کو بحیثت ڈاکٹر خوبصورت کررہے ہیں۔ ڈاکٹر احمد حسین نے پچھلی بار بھی فری میڈیکل کیمپ میں حصہ لیا تھا لیکن اس بار پچھلی بار زیادہ تیاری سے آئے۔

ادھر ڈاکٹر منصور نے ڈاکٹر نعیم کلاسرا فاونڈیشن کی ٹیم کے ارکان قاسم اور تصور سمیت دیگر نے فری میڈیکل کیمپ سمیت دیگر انتظامات میں اپنی خدمات پیش کی ہوئیں تھیں، اسی طرح بھانجے راشد اقبال، طیب نے کھانے پینے اور وزیر مہمانداری کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا۔ پھر دلچسپ صورتحال یوں تھی کہ فری میڈیکل کیمپ میں شامل افراد بھی ایک دوسرے کی مدد کے لئے انتظامی امور کا حصہ بنے ہوئے تھے جوکہ ہمارے لیے خوشی کا سبب یوں تھی کہ نعیم بھائی اس طرح کے موقع پر ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہوئے خوش ہوتے تھے۔

نعیم بھائی نے گیبریل گارشیا مارکیز کے نوبل انعام یافتہ ناول (one hundered years of solitude) کا اردو ترجمہ ”تنہائی کے سوسال“ کیا تھا۔ اس وقت جب نعیم بھائی اس گبیریل گارشیا مارکیز کے ناول تنہائی کے سوسال کا ترجمہ کررہے تھے تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن یہ بھی آئے گا کہ ان کے اور ہمارے درمیان ”تنہائی کے سوسال“ کا سفر شروع ہوجائے گا۔ آپ سب احباب سے اپنے انسان دوست بھائی کے درجات کی بلندی کے لئے دعاؤں کی درخواست ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).