جنگیں حکمت ِعملی اور جذبوں سے لڑی جاتی ہیں


جنگیں حکمت عملی اور جذبو ں سے لڑی جاتی ہے ہیں۔ اور حکمت عملی جذبات میں بہہ جانے کا نام نہیں ہے۔ لہذا یہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کو حکمت عملی کے باب میں رکھ کر سمجھئے سب سوالو ں کے جواب تاریخ کی کتاب میں خودبخود شامل ہو گئے ہیں۔

اب بات ہے حالات کی، تو جذبہ عوامی سطح پہ جنون بن رہا ہے۔ کیونکہ جوانو ں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اور یہ حسن بکھرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ جس کو کبھی بھی اس لمحے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ حسن و جوانی کی قیمت بہت بڑی ہو تی ہے۔ حکمت ِ عملی کی نگاہ اس نقطہ معراج پہ بھی ہوتی ہے۔

حکمت عملی یہ تھی کہ ایٹم کا بھید پالینے کے بعد بھی اس راز کو فاش نہیں کیا گیا اور معراج یہ تھی کہ صدیوں بعد کو ئی اپنی دریافت کا نا صرف اعلان کرتا ہے بلکہ ایک وقت آتا ہے طاقت کا فرعون اپنا پرچم عالمی سطح پہ لہرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

لیکن یہ بھی عجب کہانی ہے کہ کوئی نا معلوم، معلوم کی مات بن جاتا ہے۔ جس کا کھوج لگانے کو انسان پھر سے دور امن میں سرگرداں ہو جاتا ہے۔ اور جب راز پاتا ہے تو پچھتاوا ہی پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ لہذا حکمت عملی پہ نگاہ رکھئیے یہ دانشواری اوربہادری کی اصل پہچان ہے۔ ورنہ ردعمل تو جنگل میں بھی رونما ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ قانونِ حکمت عملی سے نا واقف ہیں۔ انہوں نے شعور کی کوئی سیڑھی نہیں چڑھی کیونکہ ان تک ابھی ارتقاء کی یہ منزل آئی ہی نہیں۔ ہمیں دنیا بھر کے امن کے لئے حکمت عملی سے کام لینا ہے۔

ورنہ یہ وہ جنگ ہو گی، جو عالمی جنگ میں بد ل سکتی ہے۔ جنگیں لڑتا آسان ہے۔ لیکن اس کے بعد تاریخ لکھنا اور پھر سے جینا دشوار ہے۔

”گاما پہلوان اور اس کی طاقت کا کس کو علم نہیں مگر اس طاقت کا بھید اس کی ذات کی گہرائی و گیرائی کی بات کرتے ہیں۔ گا ما پہلوان اندرون لاہور کی ایک گلی سے گزر رہا تھا۔ وہاں اس کی ایک شخص سے لڑائی ہو گئی۔ اس نے گاما پہلوان کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ وہ خاموشی سے نا صرف وہ گالیاں سنتا رہا بلکہ مسکراتا بھی رہا۔ گاما کی مسکراہٹ سے وہ شخص جھنجھلا گیا اور ترازو کا باٹ اٹھا کر اس کے سر پہ مارادیا۔ گاما پہلوان خون سے تر ہو گیا اس نے اپنا رومال گردن سے اتار کر اپنے سر کا زخم اس سے باندھ لیا۔ اور واپس لوٹ گیا۔

سب کے لئے یہ بات حیرت میں مبتلا کر دینے والی تھی وہ رستم زماں اور یہ ایک عام سا شخص، مگر گا ما پہلوان نے اس کو کچھ نہیں کہا۔ اور زخمی لوٹ آیا۔ شام کو گاما پہلوان سے اس کے شاگروں نے پوچھا کہ انہو ں نے نا تو گالیو ں کا جواب دیا اور نا ہی زخم کا؟

گاما پہلوان سوال پہ بھی مسکرایا اور کہنے لگا ”گالی ہمیشہ کمزور شخص دیتا ہے، جب وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا تو میں نے خود سے کہا“ تم رستم زماں ہو کیا تم ایک کمزروشخص سے لڑو گے؟ ”

جب اس نے لوہے کا باٹ مارا تو مجھے بہت غصہ آیا میرا دل کیا کہ اسے اٹھا کر بیس گزر دور پھینک دوں لیکن میں نے سوچا ”گاما اگر تم اپنے غصے پہ قابو نہیں پا سکتے تو تمہیں رستم زماں کہلانے کا حق نہیں“ چنانچہ میں واپس لوٹ آیا۔

یہ وہ جنگ ہے جس میں مخالف کبھی نہیں جیت سکتا۔ یہ وہ جنگ ہے جو اپنے میدان اور وقت پہ ہی اچھی لگتی ہے۔ ہر جگہ ہر کسی کے ساتھ جنگ بھی نہیں ہو سکتی۔ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہو جاتا ہے۔ مگر نا تو ابھی میدان محبت ہے، نا میدان جنگ۔ امن کی فاختہ سرحدوں پہ سکون کا نغمہ گنگنا چاہ رہی ہے۔

اس کوحکمت علمی ہی کہتے ہیں۔ جو جذبات میں بہہ جانے کا نام نہیں۔ کیونکہ جنگیں حکمت عملی اورجذبوں سے لڑ ی جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).