پنجاب کی نئی تعلیمی پالیسی: چربہ سازی کی دستاویز


بالآخر انگریزی زبان میں تحریر کی گئی پنجاب کی صوبائی تعلیمی پالیسی میں اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا عہد کیا گیا ہے، اُردو ذریعہ تعلیم بنے گی یا نہیں انگریزی میں لکھی گئی تعلیمی پالیسی سے ادراک کیا جاسکتا ہے۔ یہ پالیسی ایسے ہی جیسے پھٹی پرانی کتابوں کو نئے بستے میں رکھ کر طالبعلم کو دے دیا جائے تاکہ وہ ذہنی آسودگی حاصل کرسکے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ نواز نے دس سال حکمرانی کی لیکن کوئی واضح تعلیمی پالیسی نہیں دے پائے بلکہ یوں کیا کہ مسلم لیگ ق کے نافذ کردہ پڑھا لکھا پنجاب کا منصوبہ معطل کر کے پڑھو پنجاب اور بڑھو پنجاب کے عنوان کے تحت تعلیمی خاکہ پیش کر دیا تھا بالکل ایسے ہی تحریک انصاف کی حکومت نے نواز لیگ کے تعلیمی خاکے کی جگہ دی نیو ڈیل کے عنوان سے پانچ سالہ تعلیمی خاکہ پیش کیا ہے اور حکومت خوش فہمی کے گمان کا شکار ہوکر اسے پالیسی کا نام دے رہی ہے۔

پاکستان میں پہلی قومی تعلیمی کانفرنس کے بعد جب جنرل ایوب خان نے ملک پر قبضہ کیا تو وہ ملک کی تعلیمی پالیسی کو مرتب کرنے میں امریکہ، برطانیہ کی باضابطہ مداخلت کی ابتداء تھی، تعلیمی شعبے میں مداخلت کی پرچھائیں اب بھی واضح ہیں۔

تحریک انصاف کی تعلیمی پالیسی کو تیار کرنے سے پہلے پنجاب کے وزیر سکولز ایجوکیشن مُراد راس، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، سیکرٹری سکولز ایجوکیشن پنجاب برطانیہ پہنچے اور پنجاب کو تعلیمی امداد دینے والے برطانوی ادارے ڈیفیڈ کے ساتھ ملاقاتیں کی گئیں، ممکنہ طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب کی نئی تعلیمی پالیسی میں ڈیفیڈ کے اثرات ہیں۔

اس تعلیمی پالیسی میں بچوں کے آؤٹ آف سکولز ہونے کی شرح، طلباء کی تعداد کے مطابق اساتذہ کا تناسب، طلباء کی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت سے متعلق جس رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ رپورٹ ایک این جی او نے برطانوی فنڈنگ سے تیار کی تھی، یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال ہے کہ سرکاری پالیسی کی تیاری کے لیے حکومت کے پاس اپنے اعداد و شمار ہی میسر نہیں ہیں یعنی تعلیمی پسماندگی کے زمینی حقائق سے متعلق حکومت سرکاری سطح پر ناواقف ہے۔

پنجاب کی نئی تعلیمی پالیسی میں صرف سکولز ایجوکیشن پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے، پرائمری ایجوکیشن یعنی پہلی جماعت سے لے کر پانچویں جماعت تک ذریعہ تعلیم اب انگریزی نہیں ہوگا بلکہ اُردو زبان میں نصاب پڑھایا جائے گا اور انگریزی کو بطور مضمون متعارف کرایا جائے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نصابی کُتب کی تیاری کرنے والا ادارہ پنجاب کریکولم ایں ڈ ٹیکسٹ بُک بورڈ تین مہینے قبل نصاب کے لیے نجی پبلشرز سے مسودے طلب کر چکا ہے اور یہ مسودے انگریزی زبان میں مانگے گئے، کیا بورڈ موصول ہونے والے ان مسودوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر دوبارہ سے مسودوں کی تیاری کا اشتہار جاری کرے گا یا پھر انگریزی میں لکھے گئے مسودوں کا اُردو ترجمہ کیا جائے گا؟

تحریک انصاف نے پنجاب میں حکومت بننے کے چھ ماہ بعد بھی تعلیمی پالیسی مرتب کرنے کے لیے ٹھوس کام نہیں کیا بلکہ چربہ سازی کا سہارا لے کر 20 صفحات پر مشتمل جو تعلیمی خاکہ پیش کیا ہے اس میں سے 6 صفحات تعارف پر مشتمل ہیں جبکہ تین صفحات ایسے مواد پر مشتمل ہیں جس کا تعلق مسلم لیگ نواز کی تعلیمی پالیسی کی چربہ سازی ہے۔ یعنی پری سروس ٹیچرز ٹریننگ، ایرلی چائلڈ ہُڈ ایجوکیشن، قائد اعظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ کے منصوبے گزشتہ حکومت نے شروع کیے، اس میں کچھ ایسا نیا نہیں جسے آئندہ پانچ سالہ تعلیمی پالیسی کا حصہ بنایا جائے۔

پرائمری سطح کے بعد تعلیمی اصلاحات میں بھی صرف الفاظ کا گورگھ دھندہ ہے، چھٹی سے آٹھویں جماعت تک طریقہ تدریس کو بدلنے کا عزم کیا گیا ہے لیکن طریقہ امتحان کیسے بدلا جائے گا اس کی کوئی پالیسی گائیڈ لائنز نہیں ہیں۔ چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کا نصاب ہی تبدیل نہیں ہوگا تو پھر تعلیمی نظام کیسے بدلے گا۔ ہمارے نصاب کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مشقوں کے مقابلے پر سوالات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ طالبعلم رٹا لگا کر ان سوالوں کے جوابات کو یاد کرے کیونکہ امتحانات میں طالبعلم سے ذہنی یاداشت کو جانچنے کے لیے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔

پنجاب کے تعلیمی نصاب کی بنیاد پر طریقہ امتحان کا پورا ڈھانچہ ہی رٹا سسٹم پر کھڑا ہے بلکہ رٹا سسٹم رائج کرنے کے لیے گزشتہ حکومت نے پرچے کا ساٹھ فیصد حصہ معروضی سوالوں پر رکھ دیا اور انشائیہ سوالات جس میں تھوڑی بہت آزادی سے لکھنے کی گنجائش ہوتی ہے وہ بالکل ختم کر دیا گیا، تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی پہلی تعلیمی پالیسی میں اس بنیادی جڑ کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے ثبوت دیا ہے کہ تعلیمی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی نہیں ہوگی۔

پنجاب میں مسلم لیگ نواز دور میں سرکاری سکولوں کی تعداد 64 ہزار سے کم ہو کر 52 ہزار تک آگئی، سکولوں کو سکول سپورٹ پروگرام کے تحت این جی اوز کے حوالے کر دیا گیا، جب سکولوں کی تعداد کم ہوئی تو خادم پنجاب سکولز پروگرام میں یہ تخمینہ لگایا گیا کہ 20 ہزار نئے کلاس رومز کی ضرورت ہے جس کے لیے فنڈز بھی رکھے گئے لیکن پانچ سالوں میں صرف 5000 کلاس رومز بنائے جاسکے۔ مسنگ فیسلیٹیز سرکاری سکولوں کا اہم ترین مسئلہ ہے پی ٹی آئی نے تعلیمی پالیسی میں اس مسئلے کو کوالٹی ایجوکیشن کے ساتھ جوڑنے کی زحمت تک نہیں کی۔

گورننس جیسے اہم ترین معاملے کو بھی پالیسی کا جس طرح سے حصہ بنایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پالیسی لکھنے والا زمینی حقائق اور مروجہ قوانین سے ہی نا آشنا ہے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیز پہلے سے ہی با اختیار ہیں، سکول کونسلز بھی موجود ہیں، سکولز سربراہان کی ٹریننگ کا بھی اہتمام پہلے سے ہی ہوتا ہے لیکن گورننس میں ان امور کو شامل کر کے واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ دستاویز صرف عمدہ انگریزی زبان میں تحریر کا نمونہ ہے۔ سرکاری سکولوں کا بڑا مسئلہ اساتذہ کی کمی اور فنڈز کی دستیابی ہے اور یہ دونوں محکمہ کی تحویل میں ہیں، اور بیوروکریسی کی موجودگی میں یہ اختیار سکولوں کے سربراہان کو دیا ہی نہیں جاسکتا۔

پنجاب میں اس وقت پرائیویٹ سکولز کی مہنگی تعلیم والدین کے لیے بڑا چیلنج ہے، مقابلے پر جو سرکاری سکولز موجود ہیں وہاں کوالٹی ایجوکیشن کا مسئلہ ہے، اس تعلیمی دستاویز میں اسے نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ عوامی تسلی کے لیے اتنا لکھ دیا گیا ہے کہ پنجاب پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹیٹیویشنز ریگولیٹری اتھارٹی کا بل نافذ ہوگا جس سے پرائیویٹ اداروں کو کں ٹرول کیا جائے گا۔ 2014 ء میں اسی طرح کا ایکٹ پنجاب حکومت نے نافذ کیا تھا جو آج تک دفتروں کی فائلوں میں سنبھال کر رکھا گیا ہے۔

نیو ڈیل کے عنوان سے لکھی گئی یہ تعلیمی پالیسی انتہائی کھوکھلی ہے جس کا تعلیمی نظام کو ری سٹرکچر کرنے سے دور دور تک واسطہ نہیں ہے۔ پنجاب میں سکولز کی سطح پر چار محکمہ جات کام کر رہے ہیں، محکمہ سکولز ایجوکیشن، محکمہ سپیشل ایجوکیشن، محکمہ لٹریسی اینڈ نان فارمل بیسک ایجوکیشن اور ٹیوٹا شامل ہے۔ تعلیمی پالیسی میں محکمہ سکولز ایجوکیشن کے علاوہ باقی تینوں محکمے نظر انداز کیے گئے ہیں، پی ٹی آئی ہنر مندی پر مبنی تعلیم کا واویلا کرتی رہی ہے اور تعلیمی پالیسی میں اس کا ذکر تک نہیں ہے۔ سپیشل ایجوکیشن، غیر رسمی طریقہ تعلیم اور ہنر مندی کی تعلیم دینے والے اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب، طریقہ تدریس اس تعلیمی پالیسی سے خارج ہے۔

صرف یہی نہیں ہے بلکہ پنجاب میں مدارس کی تعلیم کو بھی قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ مدارس ہمیشہ سے ہی سرپرستی سے محروم رہے ہیں اور ان کا گزر بسر چندہ پر ہوتا رہا ہے۔ مدارس میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے مساوی ڈگریوں کی جو تعلیم دی جارہی ہے ان میں کب اور کیسے اصلاحات ہوں گی، حکومت کی ترجیح میں شامل ہی نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے یکساں نظام تعلیم کا نعرہ اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا تھا لیکن اقتدار ملتے ہی وہ اپنے اس منشور سے انکاری ہوگئی ہے۔

انگریز راج میں چارلس ٹریویلین، الیگزینڈر ڈف سے لے کر ٹی بی میکالے اور چارلس ووڈ مراسلوں کی سفارشات کی بنیاد پر 1854 ء کے بعد جو محکمہ تعلیم بنائے گئے تھے ان میں ہی یہ تعلیمی تقسیم رکھی گئی تھی جسے ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر جیسے مسشترقین بھی تحریکیں چلانے کے باوجود تبدیل نہیں کرسکے، حتی کہ 2019 ء میں بھی اسی تعلیمی تقسیم کو برقرار رکھا جارہا ہے جو ہمارے سماج کو تقسیم کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).