عوام کے بنیادی حقوق اور اداروں میں ٹکراؤ کا سوال


ریاست کے تین اہم ستون ہیں، جس میں پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ شامل ہیں، ملک میں بہتر حکمرانی کے لئے تینوں ستونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہونا لازم ہے، آئین میں ہر ادارے کے لئے حدود کا تعین بھی کردیا گیا ہے، جس کے تحت تمام ادارے اپنے حدود میں رہتے ہوئے بہتر حکمرانی کو فروغ دے سکیں، اکثر دیکھا گیا ہے کہ سماج کا زیادہ تر زور حکومت پر ہوتا ہے کہ وہ بہتر حکمرانی کرے، باقی دو ستونوں پر سے سوال نہیں کیا جاتا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ اکثریتی جماعت حکومت بناتی ہے، اور سمجھا جاتا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ ایک ہی چیز ہے، حالانکہ آئین پاکستان نے بہتر حکمرانی کے لئے پارلیمنٹ کو بہت بڑا کردار سونپا ہے، حکومت ہر صورت میں پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے، اور پارلیمنٹ اور حکومت کا کردار بالکل الگ ہے، اسی طرح عدلیہ کا کردار بھی بالکل مختلف ہے، پر وہ ریاست اور بہتر حکمرانی پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، سرکار اور پارلیمنٹ کے بہتر یا بدتر کردار پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاسکتا ہے، لیکن عدلیہ کے کردار پر بہت کم بحث مباحثہ ہوا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ ہر پانچ سال بعد عوام کے پاس جوابدہ ہوتے ہیں پر عدلیہ غیر منتخب ہوتی ہے (صرف امریکہ میں نچلی لیول کے ججز منتخب ہوتے ہیں ) اس لیے اس نظام پر بہتری کے لئے قانون کے اندر رہتے ہوئے تنقید ضروری ہے، آئین میں عدلیہ کو بدنام کرنے پر پابندی عائد ہے، لیکن عدلیہ پر تنقید کی مکمل اجازت ہے، عدلیہ کے فیصلوں اور کارگزاری پر نظر نہ رکھنا اپنے اپنے بنیادی فرائض میں کوتاہی کے مترادف ہے، برطانیہ میں پارلیمنٹ کے جانب سے بنایا گیا قانون عدلیہ کے لئے صحیفہ کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ وہاں پر کہاوت ہے کہ اگر پارلیمنٹ عورت کو مرد قرار دے دے، تب بھی عدلیہ کچھ نہیں کرسکتی، پر امریکہ، پاکستان اور دوسرے ممالک میں پارلیمنٹ اگر کسی بنیادی حقوق کے قانون میں ترمیم کرتی ہے تو عدلیہ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے، اگر کوئی شق قانون کے بنیادی حقوق کے ٹکراؤ میں نہیں آتی تو پھر عدلیہ قومی یا صوبائی اسمبلی کے بنائے قانون کو نہیں چھیڑ سکتی ہے، عدلیہ میں بہتر حکمرانی کیوں ضروری ہے اس کے لئے آئین میں ان کی دی گئی ذمہ داری کا جائزہ لینا ہوگا۔

آئین پاکستان کے تحت عدلیہ کی ذمہ داریاں :

آئین کے تحت صوبوں میں ہائی کورٹ کی سربراہی میں سیشن، مجسٹریٹ کی کورٹس کے ذریعے ایک نظام وضع کیا گیا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت یہ نظام صرف اور صرف ہائی کورٹ کے ماتحت ہے، ہائی کورٹ کو آئین کے تحت نہ صرف اپنی زیرِ انتظام کورٹس کے خلاف اپیلیں سننے کا اختیار حاصل ہے، پر آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف حکم جاری کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے، ہائی کورٹ کا یہ اختیار آئین پاکستان میں تفویض کیا گیا ہے، آئین کے آرٹیکل 199 کا شروعات ان الفاظ Subject to Constitution سے ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کابینہ، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کو تفویض شدہ اختیارات میں مداخلت نہ ہو، بلکہ صرف حکومتی اہلکاروں کے جانب سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر مناسب حکم جاری کرسکیں، اس کے علاوہ صوبہ میں ڈسٹرکٹ اور سیشن، سول اور مجسٹریٹ کے عدالتیں لاکھوں کے تعداد مقدمات چلاتی ہیں جس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عوام اپنے مسائل جرگوں کے ذریعے نہیں بلکہ قانونی طریقے سے حل کروائیں، دراصل یہ بہت بڑا کام ہے، کیونکہ عوام کے تین بنیادی حقوق ہیں، جان (life) مال (property) اور عزت (honor) کا تحفظ تب ہی ممکن ہے جب عدالتیں کرمنل اور سول کیسز میں جلد از جلد انصاف پر مبنی فیصلے دیں، اور معاشرے میں جان (life) مال (property) اور عزت (honor) کو یقینی بنائیں، یہ حقوق آئین کے آرٹیکل 14.9 اور 23 میں دیے گئے ہیں، جن پر عملدرآمد یقینی بنانا نہ صرف حکومت بلکہ عدلیہ کی بھی ذمہ داری ہے، ملک میں اس وقت تقریباً 19 لاکھ کیسز میں سے نوے فیصد کیسز جان (life) مال (property) اور عزت (honor) سے تعلق رکھتے ہیں، جب تک ان کیسز کا جلد اور انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں ہوگا تب تک عوام کے جان مال اور عزت کیسے محفوظ ہوگی؟

اسی لئے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنی ذمہ داریوں کا حلف اٹھاتے وقت اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ عدلیہ میں پڑے کیسز کے آگے بند باندھنا چاہوں گا، اسی لئے چیف جسٹس آف پاکستان کی پوری توجہ اس طرف مرکوز ہے، کیونکہ فوجداری مقدمات افراد کے خلاف ہوتے ہیں، مثال کے طور پر قتل، اقدام قتل، زخمی کرنے یا دہشت گردی کے ذریعے عوام کو نقصان پہنچانے جیسے دوسرے مقدمات درج ہیں، اسی طرح دوسرے مقدمات مثال کے طور پر چوری، ڈاکہ، املاک اور زمینوں پر قبضہ، عزت اور آبروریزی، ہراساں کرنے جیسے مقدمات وغیرہ وغیرہ، اب اگر اس جیسے 19 لاکھ سے زائد مقدمات عدالتوں میں زیر التوا کا شکار ہیں تو ظاہر ہے عدلیہ کے اندر بہتر کارگزاری کی ضرورت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ میں فوجداری مقدمات کے لئے شہادتیں پیش کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں انصاف کی فراہمی میں اگر 20، 20 یا چالیس سال لگ جاتے ہیں تو لازمی طور پر عدلیہ میں بہتر حکمرانی کو فروغ دینا ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لوئر جوڈیشری میں تعیناتیاں میرٹ پر ہورہی ہیں، لیکن مقدمات کو منظم اور جھوٹے مقدمات کی حوصلہ شکنی کرکے مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ ججز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ریاست سے مدد لی جا سکتی ہے، یہ تو تھا صوبوں کے اندر ہائی کورٹ اور لوئر جوڈیشری کے ذمہ داریوں کا نچوڑ، جس کے تحت ہائی کورٹ اور لوئر جوڈیشری کو تفویض کی گئی ذمہ داریوں اوپر کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ ان کی کوئی اور ذمہ داری نہیں، کیونکہ سپریم کورٹ 2014 میں اپنے ایک تفصیلی فیصلہ میں واضح کرچکی ہے کہ ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس کا اختیار نہیں، اور نہ ہی انہیں ایسا کام کرنا چاہیے، کیونکہ یہ عمل آئین کی خلاف ورزی میں آتا ہے. اسی لیے صوبے میں ہائی کورٹ کا بہت بڑا کام ہے، ہائی کورٹ کو بار کے ساتھ ملکر اپنا اور لوئر جوڈیشری کو بہتر حکمرانی کے لئے موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایسا کام نہ کرنے یا سستی سے عام کے جان مال اور عزت کا تحفظ ممکن نہیں ہوگا، اس سے عدالتی نظام میں بہتر حکمرانی سے جوڑا جاتا ہے، ہائی کورٹ یا لوئر جوڈیشری کو تنخواہیں اور مراعات صوبائی بجٹ سے دی جاتی ہیں لیکن عدلیہ unelected ہوتی یے، اسی لئے میڈیا، سول سوسائٹی، حکومت، بار اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے جانب سے چیک اینڈ بیلنس حق حکمرانی کے لئے تمام ضروری ہے۔

یہاں پر یہ روایت ہے کہ عدلیہ پر تنقید نہ کی جائے، دراصل یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، عدلیہ ایک ادارہ ہے جس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، انہیں اپنی آئینی حیثیت کا احساس دلانا عوام کا بنیادی حق ہے، اگر ہم وہ کردار ادا نہیں کرسکتے تو ہم اپنے فرائض سرانجام دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں، نہ صرف عوام کے جان، مال، عزت نفس جیسے بنیادی حقوق، اظہار رائے، میڈیا کی آزادی، تعلیم کے حقوق، چادر اور چار دیواری کا تقدس (آرٹیکل 14 ) ، آزاد نقل و حمل کا حق، صاف پانی کا حق، صحتمند ماحول کا حق، خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق، روزگار، پرامن سیاسی جدوجہد کے حقوق بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے ہیں، اس لئے نہ صرف عدلیہ میں بہتر حکمرانی کی صوبوں اور وفاق کو اشد ضرورت ہے تاکہ وفاق، صوبائی حکومتیں، چاہے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو اپنے اپنے کام احسن طریقے سے سرانجام دینے چاہئیں، کیونکہ وہ عوام کو جوابدہ ہیں۔

ملک میں بنیادی طور پر فوجداری اور دیوانی مقدمات سننا یا صوبوں میں عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنا ہائی کورٹ یا لوئر جوڈیشری کی ذمہ داری ہے، البتہ ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سننے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے، باقی فوجداری یا سول مقدمات میں جہاں آئین کی تشریح کا معاملہ ہو تو آئین کی تشریح کا اختیار صرف اور صرف سپریم کورٹ کو حاصل ہے، آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت بنیادی طور پر اگر صوبے اور وفاق کے درمیان اگر کسی معاملے پر Dispute ہو تو دونوں ڈائریکٹ سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں، یہ اختیار صرف سپریم کورٹ کو حاصل ہے، ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل نہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تنازعہ حل کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ آئین کے آرٹیکل ( 3 ) 184 کے تحت اگر کوئی مفاد عامہ کے حقوق نافذ کرنے کا معاملہ ہے تو وہ ہائی کورٹ کے ذریعے آرٹیکل 199 کے تحت نافذ کروانے کا اختیار رکھتی ہے، پر جیسا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہے اس لیے اس کا دائرہ کار محدود ہے، کیونکہ یہ اختیار بھی آئین کے تابع ہے، کیونکہ جس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ یہ اختیار استعمال کرتی ہے اس میں Subject to Constitution کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، لیکن کچھ چیف جسٹس صاحبان نے اس اختیار کو تمام وسیع کردیا تھا، جس کو بنیاد بناکر اداروں میں ٹکراؤ اور اپنے حدود سے تجاوز کرنے کے محاورے استعمال ہونے لگے تھے، کیونکہ پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اور ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت سے تنازعات جنم لیتے ہیں اور ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ وفاق اور ہائی کورٹ مکمل طور پر صوبوں کے زیر اختیار ہیں، اسی لئے انتظامی طور پر ہائی کورٹس مکمل طور پر آزاد ہیں، جنرل ضیاء الحق نے 1979 میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جسٹس کمیشن قائم کیا تھا، جس کا مقصد قانون سازی کے لئے حکومت کو سفارشات پیش کرنا تھا، اور 2009 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے نیشنل جوڈیشل پالیسی بناتے ہوئے صوبوں کو سفارشات طرز کی ہدایات جاری کرنے کا عمل شروع کیا تھا، جوکہ آئین سے تصادم کے مترادف ہے، کیونکہ ہائی کورٹ اپنے کام اور اختیارات میں مکمل آزاد ادارہ ہے، اور صوبائی حکومتیں بھی قانون سازی میں با اختیار ہیں، وفاقی آئینی لسٹ میں ایسی گنجائش ہی موجود نہیں کہ صوبوں کو قانون سازی یا ہائی کورٹس کو انتظامی امور میں سفارشات پر مبنی ہدایات دی جا سکیں۔

سپریم کورٹ نے ماضی میں آرٹیکل ( 3 ) 184 کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے ہائی کورٹس کے آئینی کردار کو محدود کردیا تھا، کیونکہ آئین میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چیک کرنے کا اولین اختیار سپریم کورٹ کو نہیں بلکہ ہائی کورٹ کو حاصل ہے، اسی لئے جوڈیشل پالیسی صوبائی سطح پر ہائی کورٹ کو ترتیب دینے چاہیے اور عوام کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے ہائی کورٹس کی خودمختاری اور آزادی انتہائی اہم ہے، صوبوں میں جوڈیشل گڈ گورننس ہائی کورٹس کے ذریعے ہی ممکن ہے، اور عوام کو بنیاد حقوق بھی حاصل ہوں گے، اسی طرح صوبائی حکومتیں بھی ہائی کورٹس کی طرح آزاد اور خودمختار ہوں، اور سپریم کورٹ کسی بھی فورم یا آرٹیکل ( 3 ) 184 کو استعمال کرتے ہوئے انہیں تابع نہ بنائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے فیصلوں پر رائے کا اظہار یا رہنمائی کی جاسکتی ہے، پر انتظامی طور پر جو گزشتہ 10، 12 سالوں سے جس طرح ہائی کورٹس کے اختیارات کو محدود کیا گیا ہے اسے اب ختم ہوجانا چاہیے، دراصل ہائی کورٹس کو بھی چاہیے کہ وہ کسی بھی شہری کے حقوق مسخ ہونے پر اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے احکامات جاری کرکے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا یقین دلائیں، اصل میں شہریوں کو بنیادی حقوق اور تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، پر ان حقوق کی خلاف ورزی پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہائی کورٹ کی ذمہ داری ہے، عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے پانچ یا دس فیصد تک ہی ہائی کورٹ تک پہنچ پاتے ہیں، کیونکہ اکثریت کو یا تو رسائی حاصل نہیں یا وہ عدالتوں کی لمبی شنوائیوں اور اخراجات سے ڈرتے ہیں، سندھ میں صوبائی حکومت یا ہائی کورٹ دونوں کو اپنی خود مختاری اور عوام کے بنیادی حقوق پر پھل کرنی چاہیے، کیوں کہ دونوں کا کام اور ذمہ داری عوام کے لئے ہی ہے۔

(یہ کالم معروف قانون دان بیرسٹر ضمیر گھمرو کے سندھی کالم جو سندھی روزنامہ کاوش میں تاریخ 26 فروری کو پبلش ہوا کا اردو ترجمہ ہے )

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch