سی ایس ایس کا امتحانی نظام: چند گزارشات


 پاکستانی نوجوان گریجویشن کرنے کے بعد جب روزگار کی تلاش میں نکلتے ھیں تو ھزاروں گریجویٹس افسر شاھی کے ٹھاٹ باٹ سے مرعوب ھو کے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتے ھیں۔ سی ایس ایس پاکستان کا سب سے بڑا مقابلے کا امتحان ھے جس کا انعقاد ھر سال فیڈرل پبلک سروس کمیشن کرتا ھے۔ ایک أمیدوار اگر پہلی دفعہ میں ھی کامیاب ھو جاۓ تو بھی تیاری سے لے کر امتحان تک اور پھر باقی مراحل سے گزرنے کے بعد باقاعدہ سول سروس اکیڈمی تک پہنچنے میں اوسطاَ تین سال لگ جاتے ھیں۔

اگر کامیابی دوسری یا تیسری کوشش میں ملتی ھے تو اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ کتنا وقت لگتا ھے۔ توجیع یہ دی جاتی ھے کہ یہ اعلی ترین سروس ھے اور اتنی بڑی کامیابی کے سامنے اتنا وقت کوٸ معنی نہیں رکھتا۔ سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا وجہ ھے اس امتحان کا ستر سال پرانا فارمیٹ ھی برقرار ھے۔ امتحانی طریقِ کار میں جدیدیت کیوں نہیں لاٸی جا رھی۔ امتحان میں چھ مضمون لازمی اور چھ سو نمبر کے مضامین اختیاری ھیں جس میں امیدوار کے پاس ایک لمبی فہرست ھے جس میں سے وہ اپنی مرضی کے مضمون اختیار کر سکتا ھے۔

کچھ مضمون جیسے Science سبجیکٹس زیادہ نمبر دے سکتے ھیں اور کچھ مضامین اس کے مقابلے میں کم نمبر دیتے ھیں۔ یہ طریقہ کیا مقابلے کی بنیادی شرط سے متصادم نہیں ھے؟ کیا یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ھے کہ ھر امیدوار کو یکساں معیار سے ھی پرکھا جائے؟

اس کے علاوہ سروس میں انڈکشن کے سلسلے میں جو بدعنوانیاں سامنے آتی ھیں وہ بھی کمیشن کی کارکردگی اور شفافیت پر ایک سوالیہ نشان ھیں۔ ھم اس قدر احساسِ کمتری کا شکار ھیں کہ صرف افسری کو ھی عزت والی نوکری سمجھتے ھیں اور اسے ھی پہلی ترجیع رکھتے ھیں۔ جو قسمت سے کامیاب ھو جاتا ھے وہ سکندر اور جو باقی ھزاروں کا خواب پورا نہیں ھوتا، وہ مایوس ھو جاتے ھیں کیونکہ ان سالوں میں سب کچھ چھوڑ رکھا ھوتا ھے۔

حکومت کو اس امتحان میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے تا کہ امیدواروں کے وقت کا ضیاع بھی نہ ھو اور قابل لوگ سروس میں شامل ھوں نا کہ اثر و رسوخ یا پیسے والے۔

مصباح چودھری لاء سٹوڈنٹ ہیں اور فزکس گریجویٹ ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).