پہاڑوں میں بیٹھا امن کا دیوتا


”دکھی انسانیت جو پہلے ہی حسرتوں کی لاش پہ ماتم کناں ہے۔ ۔ ۔ ۔

مصائب و آلام کے پہاڑوں تلے دبی کراہ رہی ہے۔ ۔

اسے بم و بارود کا تحفہ دے کر اس پر مزید احسان نہ کیا جائے

دونوں ممالک کے ذی اختیار لوگوں کو چاہیے کہ اپنی ”میں“ کو اپنے پاٶں کے نیچے کچل کر مذاکر ات کی میز پر آئیں۔ ۔ ۔

اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں جنھوں نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا۔

تباہی ہماری ہو یا ان کی لاشیں اِدھر گریں یا اُدھر نقصان ہر دو صورتوں میں تڑپتی سسکتی انسانیت کا ہے۔ ۔ ۔ ۔

خدارا ہوش کے ناخن لیں اور جذباتیت کے خول سے باہر آئیں۔ ۔ ۔ ۔

اور بم و بارود کے اس کھیل سے دھرتی کی کوکھ کو بانجھ نہ بنائیں ”

سجاد اختر

ایک ایسے وقت میں کہ جب پورے خطے میں جنگ کے بادل چھائے ہیں اور سوشل میڈیا سمیت تمام ذرائع ابلاغ پر جنونیت بھرے پیغامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے بہت کم آوازیں ایسی ہیں جو امن امن اور امن کی صدا لگا رہی ہیں۔ ان گنی چنی آوازوں میں ایک آواز سجاد اختر کی ہے۔

میرا بچپن خیبر پختونخواہ کی وادی سرن کے پہاڑوں میں گھرے ہوئے ایک گاؤں منڈا گچھہ میں گزرا۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان سے سویت فوج کا انخلا ہو رہا تھا اور پاکستان میں فرقہ وارانہ تقسیم گہری اور متشدد ہو رہی تھی۔ یہ بھی کافر وہ بھی کافر کی گونج ہمارے گاؤں کے پہاڑوں سے بھی ٹکرا رہی تھی۔ مذہبی شدت پسندی ریاستی پالیسی تھی کیوں کہ اس پالیسی کے دوہرے فائدے تھے۔ ایک طرف افغان جنگ کی آگ میں جھونکنے کے لیے انسانی ایندھن تیار ہو رہا تھا تو دوسری طرف جنرل ضیاءالحق کے آمرانہ دور حکومت کو اندرونی طور پر طوالت کا جواز مل رہا تھا۔

گاؤں کی زندگی کہ جہاں ابلاغ کا واحد ذریعہ ریڈیو پاکستان تھا یا مسجد میں منعقد ہونے والے جلسوں میں آنے والے جہادی علماء جو افغانستان سے کشمیر تک مسلمانوں پہ ہونے والے ظلم کی کہانیاں باقاعدہ لے اور سر تال کا خیال رکھ کر سناتے تھے اور اپنے جوش خطابت سے سادہ لوح لوگوں کا خون گرماتے تھے۔ جہاں ان جلسوں میں کفار کی تباہی کی دعائیں ہوتی تھیں وہیں دائرہ اسلام کی حدود کا تعین بھی ہوتا تھا اور مختلف فرقوں پر کفر کے فتوے لگتے تھے۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جمعہ کے خطبے میں خطیب صاحب اکثر لاؤڈ سپیکر بند کرنے کا حکم صادر فرما دیتے کیوں کہ جس قسم کی گفتگو وہ اہل تشیع کے عقائد و اعمال کے بارے میں کرتے تھے وہ نہیں چاہتے تھے نیک بیبیاں گھروں میں بیٹھے وہ گفتگو سن لیں۔ سادہ لوح عوام اور شرح تعلیم انتہائی کم ہونے کے سبب ہمارا گاؤں ملائیت کے مکمل شکنجے میں تھا۔

مجھے وہ شام اچھے سے یاد کہ اپنے کچے گھر کی چھت پر حسب معمول میں اپنے بھائی کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ میں روزانہ گھنٹوں ان کے پاس بیٹھتا تھا۔ بھائی کے پاس بیٹھنا ان سے پہروں باتیں کرنا میرے بچپن کی سب سے فرحت انگیز یادوں میں سے ایک ہے۔ میرے بھائی محی الدین نواب کا ایک ناول ”دیوتا“ بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ میرے لیے میرے بھائی ہی دیوتا تھے۔ کیوں کہ وہ سب سے مختلف تھے۔ وہ سچ کے امین ایک حساس دل انسان ایک ایسے ماحول میں بھی کہ جہاں ملائیت کا شکنجہ اتنا سخت تھا اور پورا سماج عدم برداشت، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی لپیٹ میں تھا وہ سب سے الگ سوچتے تھے۔

تو اس شام ان کے پہلو میں بیٹھے انہوں نے مجھ سے پوچھا پتا ہے دنیا کا سب سے اچھا مذہب کون سا ہے۔ میں خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔ وہ کچھ توقف سے بولے دنیا کا سب افضل مذہب انسانیت ہے۔ وہ کہنے لگے یہ ساری زمین ہمارا وطن ہے۔ اور دنیا میں سب سے قابل نفرت جذبہ خود ’نفرت‘ ہے۔ یہ میرے بھائی سجاد اختر ہیں جنہوں نے اپنے افکار سے میرے اندر سچ کی تلاش کی طلب کا جذبہ پیدا کیا۔ وہ ایک باغی ہیں جنہوں نے ہر اس خیال سے بغاوت کی جو نفرت اور منافرت پھیلانے والا تھا۔ وہ عقلیت و مادیت کے فلسفے سے تو آگاہ نہیں تھے مگر وہ عقلیت پرست اور مادیت پسند تھے۔ وہ کسی غیر منطقی خیال کو بنا عقل کی کسوٹی پر پرکھے بنا مادی تشریح کے قبول نہیں کرتے تھے۔

ایک انتہا پسند سماج میں جہاں اپنے فرقے کے علاوہ ہر انسان چلتا پھرتا جہنم کا ایندھن دکھائی دیتا ہو بغیر کسی بیرونی اثر کے، بنا اعلٰی تعلیم کے، ایسی انسان دوستی، ایسی امن پسندی، ایسی روایت سے بغاوت اور ایسی خیال کی عالمگیریت کسی عام انسان میں تو نہیں ہو سکتی۔ یہ کسی دیوتا کی ہی صفت ہے۔

آج بھی جب جامعات کے پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ جنگ کے جنون میں مبتلا ہیں میرے بھائی کا حساس دل اس کرب کو محسوس کر رہا ہے جو ایسی جنگوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آج بھی وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ عام سی بات لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ بم اپنوں پہ گریں یا غیروں پہ دھرتی کی کوکھ بانجھ ہوتی ہے۔ اور آج بھی میں سوچتا ہوں کہ وہ انسان نہیں کوئی دیوتا ہیں۔ امن، انسان دوستی اور سچائی کے دیوتا۔ ایسے ماحول میں بھی سب سے الگ دیکھنے اور سب سے الگ سوچنے والے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).