سعودی عرب حقوق نسواں کا حامی ہوتا جا رہا ہے


سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے، جو خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب عرب خواتین کو شادی، جائداد، ملازمت سمیت بہت سے حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا۔

2016 ع کی ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے گلوبل جینڈر گیپ سروی کی رپورٹ مطابق، سعودی میں جنسی عدم مساوات خطرناک حد تک دیکھنے میں آئی۔ 144 ممالک کی سروی میں سے سعودی 142 نمبر پر آیا۔ پر پچھلے کچھ سالوں میں حالات تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ خاص کر کے پچھلا سال خواتین کے لیے بڑا ہی خوشنصیب ثابت ہوئا ہے۔ سال 2013 کو ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺣﯿﻔﮧ ﻓﻠﻢ ﺳﺎﺯ بنی، جس نے اپنی ایک مختصر فلم ”واجدہ“ کو ﺍﺑﻮﻇﮩﺒﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺎ، جس کو دنیا بھر نے سراہا۔

یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ آہستہ آہستہ سعودیہ لبرل ہوتا جا رہا ہے، اور خواتین کو ان کے حقوق دینے کے حوالے سے اقدام اٹھا رہا ہے۔ باتیں تو یہ بھی میڈیا کے ہلکوں میں بہت وقت سے گردش کر رہی ہیں، کہ سعودی بادشاہ سلمان کا فرزند اور ولی عہد شہزداہ محمد بن سلمان بہت ہی کھلے ذہن کا مالک ہے، اور وہ خواتین کو حقوق دلانے کے لیے موثر اقدامات اٹھا رہا ہے۔ سعودی خواتین کو ووٹ کا حق حاصل نہ تھا، پر 2015 کے عام انتخابات میں خواتین کو پہلی بار حق حاصل ہوا اور انہوں نے ووٹ ڈالا۔

2017 ع کو دارالحکومت ریاض ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﺎﻧﺴﺮﭦ منعقد ہوئا۔ سن 2018 ع کے ماہ اپریل کو ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺭﯾﺲ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻧﮯ ﺣﺼﮧ ﻟﮯ ﮐﺮ، ﻗﺪﺍﻣﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ اسی سال جون میں 18 ﺳﺎﻟﮧ ﻣﺎﮈﻝ تلیدہ تمر ﻣﺎﮈﻟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺳﻌﻮﺩﯼ ﺧﺎﺗﻮﻥ بنی، ﺟﻮ ﭘﯿﺮﺱ ﻓﯿﺸﻦ ﻭﯾﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﭧ ﻭﺍﮎ ﮐﺮﺗﯽ ﻧﻈﺮ آئی۔ ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻣﺎﮈﻝ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﯿﺮﺋﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻗﻮﺍﻣﯽ ﺟﺮﯾﺪﮮ ﮨﺎﺭﭘﺮﺯ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻋﺮﺑﯿﮧ ﮐﮯ ﮐﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﻠﻮﮦ ﮔﺮ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔

سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہ تھی، پر پچھلے سال یہ شاہی فرمان جاری ہوئا کہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ 1990 ع سے غیر اعلانیہ پابندی پچھلے سال جون کے چوبیس تاریخ کو باقاعدہ ہٹا دی گئی، اور خواتین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ خواتین گاڑیاں لے کر راستوں، شاہراہوں پہ نکل آئیں، سیلفیاں نکال کر سوشل میڈیا پہ شیئر کی، اور سعودی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ جولائی میں ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍﺑﺎﺯﯼ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﮯ، ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺳﻌﻮﺩﯼ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﭘﺎﺋﯿﻠﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﻃﯿﺎﺭﮮ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﺩﯼ ﺟﺎنے لگی۔

ماھ ستمبر 2018 کو ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﻣﯿﮟ اہم ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺩﺍﺭﮮ ’ﺳﻌﻮﺩﯾﮧ ﭨﯽ ﻭﯼ‘ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﻮﺯ ﭼﯿﻨﻞ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﮐﺴﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﺤﺮﻡ ﻣﺮﺩ ﮐﮯ ﺳﺎﺗھ، ﺑﻄﻮﺭ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﯿﻮﺯ ﮐﺎﺳﭩﺮ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﯿﺎ۔ ﯾﮧ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﻭﺍﺋﻢ ﺍﻟﺪﺧﯿﻞ ﻧﺎﻣﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺻﺤﺎﻓﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﭨﯽ ﻭﯼ ﭘﺮ ﺑﻄﻮﺭ ﺷﺮﯾﮏ ﺍﯾﻨﮑﺮ ﺧﺒﺮﯾﮟ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﮟ۔ ﻣﺘﻌﻠﻘﮧ ﻧﯿﻮﺯ ﭼﯿﻨﻞ ﻧﮯ ﻭﺍﺋﻢ ﺩﺍﻟﺨﯿﻞ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺩﯾﮕﺮ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻄﻮﺭ ﺍﯾﻨﮑﺮ، ﻧﯿﻮﺯ ﺍﯾﻨﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺭﭘﻮﺭﭨﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔

رواں سال فروری 23 کو، حکومت کی جانب سے اعلامیہ جاری ہوئا کہ، سعودی میں پہلی بار ایک خاتون کو غیر ملکی سفیر تعینات کیا جا رہا ہے۔ شہزادی ریما بنت بندر وہ پہلی سعودی خواتین ہے، جو کہ آمریکا میں سعودی سفیر مقرر کی گئی ہے۔ اس خواتین کو یہ ذمیداری ایک ایسے وقت میں سونپی گئی ہے، جب آمریکی صحافی جمال خاشقنجی کے ترکی میں قتل کے باعث سعودی اور آمریکا کے تعلقات تنازعات کے شکار ہیں۔ دیر سے ہی سہی، لیکن اب سعودی کے حکمرانوں کو یہ احساس ہوتا جا رہا ہے، کہ خواتین کو ان کے جائز حقوق دینا کتنا اہم ہے، اور خواتین ہر شعبے میں اپنی خدمات بخوبی انجام دی سکتی ہیں۔ خواتین کو ان کے جائز حقوق دینا ہر حکومت کا اولین فرض ہے۔ ہم سعودی کے ان اقدامات کو سراہتے ہیں، اور توقعات رکھتے ہیں کہ وہ خواتین کو ہمیشہ برابری کے حقوق دیتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).