عالمی برادری کی جانب کھولی گئی کھڑکی


جمعرات کی صبح والا کالم چھپا تو یکے بعد دیگرے کئی فون آگئے۔ مجھ سے رابطہ کرنے والے حیران تھے کہ میں ’’اچانک‘‘ پاکستان اور بھارت کے مابین تباہ کن جنگ کو رکوانے کے لئے نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ کی جانب سے مداخلت کی امید کیوں جگارہا ہوں۔

ان کی حیرانی اور ذرا سی خفگی ہرگز جائز نہ تھی کیونکہ پلوامہ واقعہ کے بعد سے تواتر کے ساتھ اس کالم میں عالمی برادری کی بے اعتنائی کا ذکر ہورہا تھا۔ بسااوقات میں نے اس شک کا اظہار بھی کیا کہ شاید عالمی طاقتیں چاہتی ہیں کہ جنوبی ایشیاء کے دوازلی دشمن پنجابی محاورے والا ’’کٹی یا کٹا‘‘ نکال ہی لیں۔

دیکھ لیا جائے کہ ان دونوں نے اپنے تئیں کس مقام کو Nuclear Threshold بنارکھا ہے۔ وہ لمحہ جہاں کوئی ایک فریق اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کرنے پر مجبور ہوا محسوس کرے۔

بدھ کے روز مگر چند لوگوں سے اتفاقیہ ملاقاتیں ہوئیں۔ان میں سے ایک صاحب امریکہ کی ایک بہت بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے پاکستان میں نمائندہ ہیں۔ وہ کمپنی پاکستان میں کم از کم 200ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے ہمارے ہاں اپنے دھندے کا آغاز کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے۔

اس ضمن میں پاکستانی حکام سے موصوف کی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مذکورہ کمپنی کے ہیڈ آفس والے پلوامہ واقعہ کے بعد سے بڑھتی پاک-بھارت کشیدگی کے بارے میں پریشان ہوگئے تھے۔امریکی وزارتِ خارجہ کے حکام سے انہوں نے روابط استوار کئے۔ انہیں بتایا گیا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے منصوبے پر کام جاری رکھا جائے۔

امریکی ملٹی نیشنل کے اس نمائندے کے علاوہ میری ایک اور صاحب سے بھی تفصیلی بات چیت ہوئی جواسلام آباد میں مقیم سفارت کاروں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اطلاع دی کہ ان سے ملنے والے تمام سفارت کاروں نے اپنے ممالک کو یہ رپورٹ بھیجی ہے کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب بھارتی فضائیہ کی دراندازی محض شوبازی تھی۔

مودی اس کے ذریعے اپنے ملک میں پھیلے جنگی جنون کی تشفی کرنا چاہ رہا تھا۔پاکستان مگر اسے ’’نظرانداز‘‘ کرسکتا ہے کیونکہ دراندازی تو یقینا ہوئی لیکن اسے بروقت ’’چیک‘‘ کرلیا گیا۔ بھارتی فضائیہ کسی ہدف کو نشانہ نہ بناسکی۔ان دو اصحاب سے تفصیلی گفتگو کے بعد اندازہ ہوا کہ نام نہاد عالمی برادری پاک-بھارت کشیدگی کے بارے میں اس حد تک بے اعتنا نہیں جو میں تصور کئے بیٹھا تھا۔

بدھ کی صبح پاکستان نے دن کی روشنی میں پیر اور منگل کی درمیانی رات ہوئی دخل اندازی کا مؤثر جواب دے دیا ہے۔ ایک بھارتی پائلٹ بھی گرفتار ہوگیا۔ بھارتی مگ طیارے کی تباہی اورپائلٹ کی گرفتاری کے بعد اب بھارت میں جنگ مخالف آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے ایک مشترکہ اجلاس کے بعد تحریری طورپر مودی سرکارپر الزام لگایا ہے کہ وہ بھارتی فوج کو آج سے دو ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے۔شاید اس تحریری بیان کی وجہ سے بھارتی وزیر خارجہ یہ بیان دینے کو مجبور ہوئی کہ بھارت کشیدگی کو مزید بڑھانا نہیں چاہتا۔

دلی میں مقیم ایک پاکستانی سفارت کار کو اس کے بعد طلب کیا گیا۔ ہمیں کچھ ’’دستاویزی ثبوت‘‘ فراہم کرنے کا دعویٰ ہوا ہے جن کے ذریعے پاکستان سے جیش محمد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ہوا۔نظر بظاہر مبینہ ’’دستاویزی شواہد‘‘ کی فراہمی پاکستان کے وزیر اعظم کے اس بیان کو سنجیدگی سے لینا ہے جس کے ذریعے انہوں نے بھارت سے ان شواہد کا مطالبہ کیا تھا جو اس کی نظر میں پلوامہ واقعہ میں کسی پاکستانی تنظیم کو ملوث ہوا دکھاتے ہیں۔

’’شواہد‘‘ فراہم کرنے کے بعد ’’مناسب کارروائی‘‘ کا انتظار ضروری ہوجاتا ہے۔روایتی سفارت کاری کے اصول ’’انتظار‘‘ کو ضروری ٹھہراتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں کسی نہ کی سطح پر ہوئی عالمی مداخلت نے بھارت کو ’’انتظار‘‘ پر مجبور کیا ہے۔ہمیں یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ پیر اور منگل کی درمیانی رات ہوئی دخل اندازی کے بارے میں بھارتی وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری نے ایک مختصر بیان پڑھا تھا۔

اس بیان میں “Non-Military Strike”کا ذکر ہوا۔ میری ناقص عقل میں اگرچہ Strikeمگر Strikeہی ہوتی ہے۔ اسے Non Militaryبتاتے ہوئے تاہم دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش ہوئی کہ بھارت جنگ سے گریز کررہا ہے۔پاکستان کے لئے یہ دعویٰ ہضم کرنا مگر مشکل تھا۔

خاص طورپر ’’ذرائع‘‘ کے ذریعے پھیلائی اس کہانی کے بعد جس میں اصرار ہوا کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب ہوئی دخل اندازی کی بدولت’’دہشت گردوں‘‘ کا ایک کیمپ تباہ ہوا۔ 300ہلاکتوں کی بڑھک بھی لگادی گئی۔بدھ کی صبح پاکستان نے اس کہانی کو جھٹلانے کے لئے اپنی صلاحیت اور ارادے کا بھرپور اظہار کیا۔

بھارت کے پاس ’’300 ہلاکتیں‘‘ ثابت کرنے کے لئے کوئی شے موجود نہیں۔ ہماری سرحد کے اندر مگر بھارتی طیارے کا ملبہ موجود ہے۔ اس کا پائلٹ بھی ہماری تحویل میں ہے۔بدھ کے روز ہوئی کارروائی کو پاکستان نے اس حوالے سے Non Military بتایاکیونکہ اظہار فقط یہ کرنا مقصود تھا کہ ہماری فضائیہ بھارت کے کسی بھی مقام کو اپنی خواہش کے مطابق کسی وقت بھی نشانہ بناسکتی ہے۔ اشتعال انگیز دخل اندازی سے لہذا بھارت کو گریز کرنا ہوگا۔

پاکستان اور بھارت بدھ کے روز سے مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ وہ کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے۔دونوں ممالک نے ابتدائی رائونڈ میں جس کا آغاز یقینا بھارت کی دخل اندازی سے ہوا اپنی جنگی تیاری اور صلاحیت کا مؤثر مظاہرہ کردیا۔ اصولی طورپر اب ہم Stalemateکی صورت حال میں ہیں۔

اس صورت حال کو Window of Opportunityبھی تصور کیا جاسکتا ہے جو دونوں ممالک کو باہمی مذاکرات کی جانب لے جاسکتی ہے۔مجھے گماں ہے کہ عالمی برادری اس Windowکے کھلنے کے بعد دونوں ممالک کو مذاکرات کی جانب دھکیلنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اگر وہ اب بھی بے اعتنا نظر آئی تو مجھے ’’کٹی یا کٹا نکل ہی آئے ‘‘والی سوچ کی طرف لوٹنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).