آس ابھی باقی ہے- بھارتی پنجاب سے ایک تازہ کہانی بہت پرانی


دیوار گھڑی پر صبح کے سات بج رہے ہیں۔

تاہم ابھی دل اٹھنے کو نہیں چاہ رہا۔ جسم چور چور ہو رہا ہے گویا اس میں جان ہی نہ ہو۔

’ہرپَریت‘ کچن میں چائے بنانے کے لیے شاید جا چکی ہے۔ ڈیڈی صحن میں ٹہل رہے ہیں۔

”پرنس بیٹا! اٹھو سکول جانے کا ٹائم ہو گیا ہے۔ “ ہرپریت کی آواز سنائی دیتی ہے۔

سکول سے مجھے اپنا سکول یاد آگیا ہے۔ ’سن سٹار پبلک سکول‘ ۔ سکول نہیں قیدخانہ۔ نام تو ’سن سٹار‘ ہے لیکن مجھے یہ ایک اندھیری گپھا معلوم ہوتا۔ دوسرے مہینے ہی میں اس قیدخانے سے اُکتا گیا تھا۔ لیکن کیا کرتا؟

”کرنا کیا ہے؟ چھوڑ دے۔ پھر لگ جانا ڈی۔ سی۔ لوگ دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ سردار جی گزارہ کرنا سیکھو۔ “

ڈیڈی نے میرے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی۔ کہیں (set) ہونے کی آس ہی جیسے ختم ہونے لگی ہے۔

”یار! گئے وہ زمانے۔ نوکری مل جانے کی توقع نہ رکھ۔ کچھ نہیں رکھا یہاں۔ بس دھکے کھاؤ اور کوستے رہو قسمت کو۔ “ میری طرح کبھی بلوِندر بھی تنگ تھا۔ لیکن اس نے اس پریشانی سے بچنے کا راستہ نکال لیا تھا اور سات لاکھ ایجنٹ کو دے کر ’پُھررر‘ ہو گیا تھا۔

میں نے بلوندر والی بات ڈیڈی کو بڑے اشتیاق سے سنائی تھی۔

”نہیں۔ اب تم کیا چاہتے ہو؟ میں سات لاکھ تمہاری تلی پر رکھ دوں۔ مجھ سے اس کی آس نہ رکھنا۔ دوآنی ہے نہیں میرے پاس۔ اپنی بیوی سے لے لو۔ بہت ہوں گے اس کے پاس۔ کافی تنخواہ ہے اس کی۔ “

ڈیڈی نے میرے اندر سے ہوا نکال دی تھی۔

پھر اس کے بعد مجھے کچھ اور نہ سوجھ پایا۔ تنخواہ کے ذکر پر ان کے چہرہ تن گیا تھا۔ میں ان کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے ان کے چہرے پر، ہرپریت کا اس دن کا کہا ہوا ہر لفظ ابھر آیا ہو۔

”اٹھنے بیٹھنے کی تمیز نہیں تھی، بڑے سردار کہلاتے تھے۔ سارے گھر والے پیازوں کے ساتھ روٹی کھا لیتا تھا۔ میرے اکاونٹ سے جیسے چڑھے مہینے نوٹ برستے ہوں۔ “

ہرپریت کتنا کچھ بولتی چلی گئی۔

”۔ چھوٹی سی بات ایک بڑا مسئلہ بن گئی تھی۔ گھر میں اے۔ سی لگوانے کا کہا تھا۔ “

ہرپریت گاؤں والی باتیں چھیڑ بیٹھی۔

”۔ بجلی کے بل کے ڈر سے پنکھا نہیں چلانا۔ بازار سے سبزی خریدنے کے بجائے، کھیتوں سے آئی ہوئی مونگی تین تین دن تک کھاتے رہنا۔ “ اور پتا نہیں کیا کیا کچھ۔

جب وہ بول رہی تھی تو ڈیڈی پیچھے کھڑے تھے، سب سن لیا تھا انہوں نے۔ ہرپریت نے جی بھر کر سب کا مذاق اڑایا تھا۔

تو شاید ہرپریت کی وہی باتیں ڈیڈی ابھی تک نہیں بھول پائے۔ ہر وقت گھر کی فضا میں عجیب سا تناؤ رہنے لگا ہے۔

یہ تناؤ بھی کتنی عجیب بیماری ہے۔ گھن کی طرح انسان کو کھا جاتی ہے۔ من ہر وقت بے چین رہتا ہے۔

ڈاکٹر کے مطابق: ”یہ ’سٹریس‘ کا نتیجہ ہے۔ پہلے پریشان رہنا چھوڑو۔ “

مگر یہ پریشانیاں کہاں جی لگنے دیتی ہیں۔ جب انسان کی زندگی میں ہی سکھ نہ ہو، تو کوئی پریشان ہوئے بنا کیسے رہ سکتا ہے؟

تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد کئی برس دھکے کھائے۔ جب نوکری نہ ملی تو آخر تھک ہار کر ایک پرائیوٹ سکول میں پڑھانا شروع کیا۔

یہ پرائیوٹ سکول والے نخرے تو ہزار کرتے ہیں لیکن پیسے دیتے وقت۔ جا رب جھوٹ ہو جائے۔ والی بات۔ میری تو اپنی جیب میں کبھی کچھ نہیں بچا۔ کیسے کرتا میں اس گھر کے لیے کچھ۔

کئی مشکلوں کے بعد میرے لیے ایک برسر روزگار لڑکی ڈھونڈی گئی۔ بہت خوش تھا میں۔ سوچتا تھا کہ ہچکولے کھاتی زندگی کی گاڑی پرسکون ہو جائے گی۔ پر نہیں۔

ہرپریت مجھ سے دس گنا زیادہ ملتی تنخواہ کا طعنہ دیتی رہتی۔

”کما کر لاتی ہوں میں۔ غلام نہیں ہوں کسی کی۔ “ ہرپریت چھوٹی چھوٹی بات پر چڑنے لگتی۔

سمران ڈھالیوال

اور میں بے قصور گھر میں جاری اس سرد جنگ میں پسنے لگا۔

”علاحدہ کیوں نہیں ہو جاتے تم؟ کیا ضرورت ہے باتیں سننے کی؟ دیا کیا ہے ہمیں۔ جب میں اس گھر میں بیاہی آئی تھی، اس گھر میں ڈھنگ کے دو چار برتن بھی نہیں تھے۔ باتیں تو ذرا ان کی کوئی سنے۔ “

ہرپریت ہر بار الگ ہونے کی بات کرنے لگتی۔

میں اس روز روز کے جھگڑے سے تنگ آ گیا تھا۔ لیکن الگ ہونے کا تو میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ میں نے چپ دھار لی۔

”ہمم بڑا آیا۔ لگ گیا زنانی کے نیچے۔ “ ڈیڈی نے میرا مذاق بنا لیا۔

”پرنس بیٹا! سنا نہیں، اٹھ جاؤ! میں نے بھی کہیں جانا مرنا ہے۔ پورا دن ان کے ہی سیاپے ختم نہیں ہوتے۔ “

ہرپریت کا پارہ ہائی ہوا جا رہا ہے۔ اگر دھیان پرنس کی طرف سے ہٹ کر میری طرف ہو گیا تو۔

کاش آج پھر اتوار ہوتا۔ اتوار کی چھٹی کے بعد سکول جانے کا بالکل من نہیں کرتا۔ سویرے سویرے اس کالے کوے جگدیش اَٹوال کے منہ لگنا پڑتا ہے۔

سالے پر۔

ہفتے کے دن بتا رہا تھا کہ سوموار سے بچوں کی ایکسٹرا کلاسیں لگا کریں گی۔ کوئی پوچھے کہ تنخواہ ہمیں تم ایکسٹرا دیتے ہو؟

”ہم اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔ “ مَنجِندر میڈم نے تیوریاں چڑھا کر کہا تھا۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ کسی نے بھی مخالفت نہیں کرنی۔ یہ سب تو زندگی کا بوجھ ڈھو رہے ہیں۔ کوئی ایک بھی میرے ساتھ نہیں کھڑا ہو گا۔ یہ سب تو پاگل سمجھتے ہیں مجھے۔ پیٹھ پیچھے ہنستے ہیں مجھ پر۔ پچھلے سیشن میں کمپیوٹر فیس ایکسٹرا لینی شروع کی گئی تو میں نے اس کی مخالفت کی تھی۔

”کل چار کمپیوٹر ہیں سکول میں۔ وہ بھی چلتے یا نہیں۔ ماؤس تک بچوں کو پکڑنا نہیں آتا۔ یہ تو لوٹ ہے! “

میری بات نے میرا مذاق بنا کہ رکھ دیا تھا۔ سب مجھے ’پاش‘ کہہ کر چھیڑنے لگے۔ بہت تاؤ آیا تھا مجھے۔

لیکن میں پاش نہیں تھا کہ انہیں سمجھا پاتا۔

”سب سے خطرناک ہے مردہ شانتی سے بھر جانا۔ نہ ہونا تڑپ اور سب برداشت کر جانا۔ “

سب مردہ شانتی سے بھرے تھے۔ میں نے بھی انہی کی ماند آنکھیں موند لیں۔

”یہاں انقلاب نہیں آ سکتا۔ “ مخالفت کا نعرہ لگانے والی منجندر میڈم نے ہی سب سے پہلے ہاتھ کھڑے کر دیے تھے۔

سب ڈرتے تھے۔ نوکری اور نخرہ ایک ساتھ؟ بالکل نہیں۔

مزے تو ان سرکاری ملازموں کے ہیں۔ بھاری تنخواہیں لیتے ہیں۔ پھر بھی ہر تیسرے دن دھرنے دیتے ہیں۔ ان کے تو سکیل ہی انہیں راس نہیں آتے۔ پیٹ ہی نہیں بھرتا ان کا۔ سب بھوکے ننگے اکٹھے ہیں۔

”کیا کوئی کھانے پینے کا بھوکا ہوتا ہے۔ بھائی بہن کی عزت کرنا سیکھو۔ جب سسرالیوں سے کوئی آتا ہے تو فورا تھیلا اٹھایا نہیں اور بازار کی طرف دوڑے نہیں۔ بہن تو لگتی نہیں کچھ۔ بس بسکٹ پر ہی۔ “

جیجا جی کے لیے چائے کے ساتھ صرف بسکٹ رکھے گئے تھے۔ میں بازار جانے ہی لگا تھا کہ ہرپریت نے روک لیا۔ کہنے لگی ”کیا ضرورت ہے پیسے خرچ کرنے کی، انہوں نے تو پرسوں پھر آنا ہے۔ “

اس نے کچن کی طرف جاتے ہوئے شاید یہ محاورہ گنگنایا تھا۔

”سوہرے گھر جوائی۔ “

”کیا کہا تم نے؟ “

میرا تنا ہوا چہرہ دیکھ کر اس نے لائن بدل لی تھی۔ نہیں تو بات بڑھ جاتی۔

”چھوڑیں سر! کیا ضرورت ہے بات بڑھانے کی۔ آج کل تو سرکار بھی ذات پات کی تحقیر والے لفظ بولنے پر سزا دینے لگی ہے۔ “ منجندر میڈم نے مجھے سمجھانا چاہا۔

میں نے اسٹاف روم میں اس کالے کوے جگدیش اَٹوال کو اس کی ذات کا نام لے کر گالی دی تھی۔ پتا نہیں کس نے بات لیک کر دی۔

اَٹوال چاہتا تھا کہ میں سب کے سامنے اُس سے معافی مانگوں۔ لیکن میں کئی دن تک اڑا رہا۔ پر آخر کار معافی مانگنی ہی پڑی۔ اس دن اَٹوال اندر سے بہت خوش تھا۔ مجھے نیچا دکھا دیا تھا اس نے۔ مجھے بہت تاؤ آیا۔ جی چاہتا تھا کہ ’جَئیں جَئیں‘ کر دوں سالے کی۔ جیسے ہمارے گاؤں کا اُتم کیا کرتا تھا۔

نشے کی لہر میں آ کر وہ بڑھک مارتا: ”دیکھ لو جیہنے دیکھنا! مُچھ کھڑی ہے جٹ دی۔ میں سردار اُتم سنگھ، ڈنگاں دا کاکا۔ جَئیں جَئیں نہ کر دیاں تاں۔ “

چوپال میں بیٹھے لوگ اس کی بات پر ہنستے۔ لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ اَٹوال کے سامنے کھڑا ہو کر کہوں : ”آ دیکھ لے! میں سردار گُروِندر سنگھ، سندھواں دا کاکا۔ جَئیں جَئیں نہ کر دیاں تاں گل کریں۔ “

مجھ میں للکارا مارنے کی ہمت پر کہاں سے آتی۔ جب سے گاؤں والی زمین بیچ کر شہر آئے ہیں، میں نے تب سے خود کو سندھو سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ جٹ کی شان زمین کے ساتھ ہی ہے۔ جب زمین ہی نہیں رہی تو پھر کس بات کے جٹ اور سندھو۔

”تم سب روؤ گے ایک دن! یاد رکھنا میری بات۔ “ ڈیڈی زمین بیچنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

لیکن شہر کی پلی بڑھی ہرپریت گاؤں میں نہیں رہنا چاہتی تھی۔ اسی نے ہی زمین بیچنے کی بات شروع کی تھی۔

”ہم نوکری پیشہ ہیں۔ شہروں میں سو طرح کی سہولتیں ہیں۔ ایجوکیشن، ہیلتھ۔ اگر زمین کے ساتھ ہی جڑ کر بیٹھے رہے تو۔ “

میں نے طوطے کی طرح یہی بات ڈیڈی کے سامنے دھرائی۔ وہ سن کر بھڑک اٹھے۔

”لعنت ہے تمہاری پڑھائی پر۔ جو پراٹھے تم کھاتے ہو وہ آسمان سے تو نہیں گرتے۔ زمین کے مالک ہو کر تھیلیوں والا آٹا کھائیں گے۔ پھٹے منہ تمھارے ترقی کے۔ “

اس طرح کا خیال کبھی میرے ذہن میں بھی آیا تھا۔ جب بلوِندَر نے مجھے اٹلی جانے کے بارے میں بتایا تھا۔ میں نے اسے لمبا چوڑا اُپدیش دینا چاہا۔

”دیکھ بلوندر! کیا کرو گے اٹلی جا کر؟ ہوٹلوں میں برتن مانجھتے پھرو گے۔ یہاں جیسی سرداری کہیں نہیں ملنی۔ تمہارے پاس تو چار ایکڑ ہیں بھی۔ “

بلوندر نے میری بات کو ہنسی میں اڑا دیا۔

لیکن جب وہ بنا پروں کے اڑ کر اٹلی پہنچا تو مجھے اس کی ہر بات واجب لگنے لگی۔ کچھ نہیں رکھا یہاں۔ اپنا لائف سٹائل اونچا کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ مجھے خواب میں بھی اٹلی آنے لگا تھا۔

ہماری ضد کے آگے ڈیڈی کی ایک نہ چل سکی۔ زمین بک گئی۔ شہر میں مکان بن گیا۔ شہر آ کر ڈیڈی اور زیادہ چڑچڑے ہو گئے۔ وہ گاؤں کی باتیں ہی کرتے۔ ہر وقت ان کے اندر یہی بات چلتی رہتی۔ شہر کو کوستے۔ لمحے گن گن کے وقت گزارتے۔ وقت سے یاد آیا۔

سوا سات بج رہے ہیں۔ پرنس کی گاڑی پونے آٹھ بجے آتی ہے۔ مجھے بھی اب اٹھنا چاہیے۔ بہت سوچا کہ صبح سویرے اٹھنے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔ ہرپریت بھی ایک دن یہی بات کہہ رہی تھی۔

”پرنس! دیکھو پاپا کو۔ دیکھو کیسے پیٹ بڑھا رکھا ہے۔ پیٹ ایسا لگتا ہے جیسے۔ “

ہرپریت نے مجھے کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ پرنس بہت ہنسا تھا۔ لیکن مجھے سمجھ نہ آئی کہ میں روؤں یا ہنسوں۔

”اتنا بھی دلدر کیا کہنا۔ وقت پر اٹھ کر بندہ کہیں سیر ہی کر آئے۔ ساتھ والے سُرندر بھاءجی روز جاتے ہیں۔ “

سرندر سے مجھے اس کی خوبصورت بیوی پرمندر کی یاد آگئی ہے۔ میں اسے دل میں پرمندر نہیں بلکہ ’پری‘ کہتا ہوں۔ وہ پریوں کی طرح ہی خوبصورت ہے۔ ہر وقت مسکراتے رہنے والی۔ جی چاہتا ہے۔

ایک دن میں چھت پہ کھڑا دھوپ تاپ رہا تھا۔ ادھر پری صحن میں بیٹھی ساگ کاٹ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر میرے دماغ میں ایک گیت چلنے لگا:

”سوں رب دی سروں دے پُھل ورگی، سروں دا ساگ توڑدی پھرے۔ “

ہماری نظریں ملنے پر وہ مسکرائی۔ اس کے دانت موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔

پتا نہیں اس وقت ہرپریت کہاں سے آن نازل ہوئی۔ بس بن گیا رائی کا پہاڑ۔ شک بھی تو ایک عجیب بیماری ہے۔ انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔

ایسا شک ایک دن میرے دماغ میں بھی بیٹھا تھا۔ اس دن ہرپریت کو چھٹی تھی۔ گھر پر کوئی نہیں تھا۔ جب میں سکول سے واپس لوٹا تو ایک اجنبی سا آدمی ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ ہرپریت اور وہ کسی بات پر اونچا اونچا ہنس رہے تھے۔

”یہ چَرَنجیت ہے۔ پھگواڑے والی انکل کا بیٹا۔ کل ہی جلندھر سے ٹرانسفر ہو کر ہمارے آفس میں آئے ہیں۔ “ ہرپریت نے ہماری جان پہچان کراتے ہوئے کہا۔

”سالا۔ “ میں نے دل ہی میں اسے اور اس پھگواڑے والی انکل کو ایک موٹی سی گالی دی، جو میرے سسر صاحب کا بڑا گہرا دوست ہے۔ چرن جیت کو اس دن پہلی بار ملا تھا۔ ہاتھ ملا کر میں اندر چلا گیا۔ وہ ہر تیسرے دن آیا رہتا۔

ایک دن وہ اور ہرپریت بیٹھے تھے۔ میں دروازے کے قریب کھڑا ہو کر ان کے باتیں سننے لگا۔ اچانک ہرپریت کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ چرن جیت چلا گیا۔ تو اس نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔

”اتنی گھٹیا سوچ۔ اگر اتنا ہی شک تھا تو وہیں آ کر بیٹھ جاتے۔ “ وہ کتنا کچھ بولتی چلی گئی۔ اپنے پاپا کو بلانے کی دھمکیاں دینے لگی۔ میں نے بڑی منتیں کیں۔ بڑی مشکل سے سب شانت ہوا۔ لیکن پتا نہیں میرے دماغ میں کچھ بیٹھ گیا تھا۔ پتا نہیں کیوں میرے ساتھ یہ ہونے لگا ہے۔ عجیب عجیب خواب آتے ہیں مجھے۔ میں خود کو ایک بس سٹاپ پر کھڑا دیکھتا ہوں۔ سب مجھے مارنے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔

”مارو اسے! یہ جیب کترا ہے۔ “ میرے کانوں میں آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔

”نہیں! میں جیب کترا نہیں۔ میری تو اپنی جیب کٹی ہوئی ہے۔ یہ زمانہ ہی ایسا چل رہا ہے۔ کسی کی جیب میں کچھ نہیں ہے۔ وہ دیکھو پورا بازار ہماری طرف دوڑا آتا ہے۔ بھاگو۔ “ اور میں پتا نہیں کیا کچھ بولتا جاتا ہوں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میرا ذہنی توازن بگڑا جا رہا ہے۔ میرے ٹوٹ چکے سپنے، میری آنکھوں کے سامنے ابھرنے لگتے ہیں۔ اپنا آپ حقیر لگنے لگتا ہے۔

”کوئی نہیں! میرا بیٹا ہے نا۔ یہ بدلے گا گھر کی حالات۔ بڑا افسر بنے گا۔ سب غم دھو ڈالے گا۔ “

یہ کون بولا ہے؟ میں۔ یا پھر ڈیڈی؟

یہ بات تو کبھی ڈیڈی نے بھی کہی تھی۔ لیکن میں ان کی امیدوں پر پورا نہیں اتر پایا۔ اپنی ذمے داریوں کا بوجھ میں پرنس پر ڈال رہا ہوں۔ وہ بیچارہ یہ بوجھ اٹھا بھی پائے گا یا نہیں۔

(پنجابی سے ترجمہ – لکھاری: سِمرن ڈھالیوال)

سمرن ڈھالیوال چڑھدے پنجاب کے ابھرتے ہوئے پنجابی کہانی کار ہیں۔ 8 اگست 1986 کو بھارتی پنجاب کے شہر ترن تارن کے سرحدی قصبے پتی میں پیدا ہوئے۔ 2016 میں انہیں پنجابی کہانیوں کی کتاب “اس پل” پر کینیڈا کے معتبر ادبی ایوارڈ ڈھاھن پرائز کا فائنلسٹ قرار دیا گیا۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).