جنگ چاہیے جناب۔ جنگ


جنگ کے اس ماحول میں امن و سلامتی کی باتیں کس قدر لایعنی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر سرحد کے دونوں جانب ایسے احمق موجود ہیں جو یہ بے وقت کی راگنی گاتے نظر آتے ہیں۔ خدا خدا کر کے جنگ کا ماحول بنا ہے۔ کتنی تمنّا تھی جنگ کو اپنی ان آنکھوں سے دیکھنے کی۔ ہم سے پہلی نسل کس قدر خوش نصیب تھی کہ اسے دو جنگیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا، صرف ان جنگوں کے واقعات سن کر ہی لہو گرمایا کیے۔

کتنے رشک سے اپنے بزرگوں کو دیکھا کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ جنگ دیکھنے کی حسرت دل میں لیے ہی عمر بیت جائے گی۔ بڑھاپے میں اپنے بچوں اور پوتوں پوتیوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ لے دے کر ایک کارگل کی جنگ ہی ہمارے حصے میں آئی تھی۔ یہ بھی بھلا کیا خاک جنگ ہوئی کہ نہ تو شہری آبادی پر گولہ باری ہوئی، نہ بلیک آؤٹ کے سائرن بجے، نہ طیاروں کی زناٹے دار آوازیں فضا میں گونجیں اور نہ بھاگ کر خندقوں میں چھپنے کی نوبت آئی۔ اتنی ہومیو پیتھک قسم کی جنگ بھی کوئی جنگ ہوئی بھلا۔ ایسے میں اگر امید کی ایک کرن پھوٹی بھی تو لگے ان مردودوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔

سچ پوچھیے تو یہ امن و آشتی کے نعرے لگانے والے جنگ کے فوائد سے چنداں واقف نہیں۔ قوموں کی تعمیر و ترقّی کے لیے جنگ نہایت ضروری ہے۔ جنگ نہ صرف یہ کہ ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیتی ہے، بلکہ بہت سے ملکی مسائل کا قدرتی حل ہے۔ اب بڑھتی آبادی کے مسئلے ہی کو لے لیجیے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کا اس سے زیادہ مؤثر اور زوداثر حل بھلا اور کیا پو سکتا۔ ہے۔ قدیم زمانوں سے آبادی اور وسائل کا توازن برقرار رکھنے کے لیے انسان جنگوں کا تیربہدف ٹوٹکا استعمال کرتا چلا آیا ہے۔ اور نتیجتاً کبھی بڑھتی آبادی کے مسئلے سے دوچارنہیں ہوا۔ مگر جیسے ہی انسان نے آبادی پر کنٹرول کے اس فطری طریقے سے سے روگردانی کی اور امن سے رہنے کے خواب سجائے، آبادی کا جن لگا قابو سے باہر ہونے۔

جنگ کا ایک دوسرا بڑا فائدہ سیاحت کا فروغ ہے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد دیگر ممالک کے سیاح، جوق در جوق جنگ کے اثرات کا جائزہ لینے آپ کے ملک میں امڈے چلے آتے ہیں۔ سیاحوں کی آمد کے ساتھ آپ کے ملک میں زرِمبادلہ آتا ہے جس کا نتیجہ ملکی معیشت کی بہتری کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگ بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ سرمایہ کار جنگ لڑنے والے ممالک میں اپنے سرمائے کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جو ملک اپنی حفاظت کے لیے جنگ تک لڑنے سے گریز نہیں کرتا، ایسے ملک میں ان کا سرمایہ کس قدر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

یہ تو صرف جنگ کے چند موٹے موٹے فوائد ہیں۔ زیادہ باریک بینی سے جائزہ لیں تو سبھی جنگ کی افادیت کے قائل ہو جائیں۔ یہ سب تو ایک طرف، مگر صرف یہی سوچیں کہ آپ نے بہت تگڑا اور شہ زور پہلوان رکھا ہو۔ اسے دودھ، مکھن اور باداموں پر پالیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر اس کی خوراک پوری کریں۔ اسے دن رات کثرت کروائیں۔ مگر کبھی اسے اکھاڑے میں نہ اتاریں۔ کبھی اس کا زور مدِّ مقابل کے سامنے نہ آزما ئیں، تو اس سب بکھیڑا کس کام کا۔ اور ویسے بھی جھپٹنا، پلٹنا اور پلٹ کر پھر جھپٹنا، لہو گرم رکھنے کا ایک یہی تو بہانہ ہے۔ باقی سب کہانی ہے اور فسانہ ہے۔ اپنے شاعرِ مشرق کا یہی فرمان ہے۔

اور یہ ایٹمی جنگ کی تباہ کاری کا ڈراوا کسی اور کو دیجیے گا۔ اب جو ملک اتنے کثیر سرمائے اور محنت کے بعد ایٹمی قوت بنے ہیں، انہوں نے یہ سب تگ ودو اس واسطے کی تھی کہ ایک مرتبہ ایٹم بم کا تجربہ کریں اور پھر اسے الماری میں رکھ کر بھول جائیں؟ آخر جب تک ایک ٹیکنالوجی پوری طرح استعمال میں نہیں لائی جائے گی تو اس کے کارآمد ہونے کا یقین کیسے ہو پائے گا۔ اگر ایٹم بم بنا کر سنبھالنے ہی تھے تو ہم غریب عوام کے ٹیکس کا پیسہ کسی نیک مقصد میں استعمال کیا جاتا۔ اس کا ایسا بے مصرف استعمال آخر کیوں؟

بیسویں صدی برِّصغیر کے لیے کس قدر زرخیز ثابت ہوئی تھی۔ اس صدی کے دامن میں کیا کیا نہیں تھا۔ پاک و ہند کی تقسیم، انیس سو اڑتالیس اور پینسٹھ کی جنگیں، سقوطِ ڈھاکہ۔ اور اکیسویں صدی کے برِّصغیر کے پاس کیا ہے؟ لے دے کر دہشت گردی کی چھوٹی موٹی داستانیں۔ اب کب تک انہی پرانی جنگوں کی داستانوں سے لہو گرم رکھا جائے۔

ایسے میں یہ لوگ جو جنگ کو روکنے اور امن کی فضا قائم رکھنے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، اور دوستی، محبت اور انسانی بھائی چارے کے ڈؑھول پیٹتے ہیں، یقین مانیے کہ اپنے ملک کے خیرخواہ ہرگز نہیں۔ یا تو انہیں جنگ کی اہمیت کا ادراک نہیں یا پھر یہ جان بوجھ کر اس خطّے کو جنگ کے ثمرات سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جیسے ہی دونوں ممالک میں سے کوئی دشمن ملک پر ایٹم بم پھینکنے کا کارِخیر سرانجام دے، ان لوگوں کو ایٹمی وارہیڈ لے جانے والے میزائیلوں کے ساتھ باندھ کر میزائیل چھوڑے تا کہ کم از کم ان عاقبت نا اندیشوں سے تو جان چھوٹے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).