انسان جنگ کرتا کیوں ہے؟


آپ دنیا کی تاریخ کی کوئی کتاب پڑھ لیں آ پ کا ایک ہی تاثر ہوگا کہ ا نسان کو ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کا موقع مشکل سے ہی ملتا ہے۔ تاریخ کی یہ کتابیں عام طور پر 3000 سال پرانی مصر اور سمیرین (دجلہ و فرات) تہذیبوں سے شروع ہو کر آ ج تک کی لامتناہی جنگوں کی فہرست سے مزین ہیں۔ 1740 سے 1897 کے درمیان یورپ میں 230 انقلابات اورجنگیں ہویئں۔ جن میں شامل ممالک نے جنگی اخراجات سے اپنے آپ کو تقریباًدیوالیہ کر لیا۔

انیسویں اور بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں ٹیکنالوجی کی طاقت کا استعمال شروع ہوا، جس کا مطلب تھا کہ جنگ کا جلد اختتام۔ اس سے جنگوں کی تعداد میں کچھ کمی ہوئی۔ لیکن حقیقتاً ان سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ 1740 سے 1897 کے درمیان تین کروڑ ہلاکتوں کے مقابلہ میں صرف پہلی جنگ عظیم میں پچاس لاکھ سے سوا کروڑ اور دوسری میں پانچ کروڑ اموات ہوئیں۔

سوال یہ ہے کہ انسان جنگ کرتا کیوں ہے؟

لیڈز بیکٹ یونیورسٹی انگلینڈکے لیکچرر سٹیو ٹیلر اپنی کتاب ”عقل کی طرف واپسی“ (Back to sanity) میں دو اہم نقات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ دولت میں اضافہ تو بظاہر ایک وجہ ہے ہی، لیکن زیادہ بڑی خواہش انسانوں کے ایک گروپ عام طور پر حکومت، اکثر عوام، قبیلہ یا نسل کی اپنی طاقت بڑھانے کی خواہش ہے۔ ”انسانی تاریخ کی کسی بھی جنگ کو دیکھ لیں آپ کو دوسروں کے علاقہ یا دولت پر قبضہ کا لالچ نظر آے گا۔

عدم برداشت، دوسرے کو نیچا دکھلانا اور تضحیک کرنا جنگ کی وجہ بھی بنتے ہیں۔ سیاسی مفکر اور فلسفہ دان تھامس ہوبز کے مطابق ”انسان بنیادی طور پر گھمنڈی ہے اور وہ فطری طور پر اپنے مفادات کے لئے لڑتا اور مقابلہ کرتا ہے۔ “

مو جودہ دور کی جنگیں کیا واقع ہی یہ مقاصد حاصل کر سکتی ہیں؟ نوبل انعام یافتہ معیشت دان پال کروگمین لکھتا ہے، ”اگر آپ جدید، امیر قوم ہیں پھر بھی ایک جیتی ہوئی جنگ نقصان دیتی ہے۔ یہ حقیقت ایک عرصہ سے واضح ہے کہ جنگ جیتنے والے کو بھی اتنہای سخت نقصان پہنچاجاتی ہے۔ آج کی نفیس معیشتیں سونے کا انڈا دینے والی مرغیاں ہیں۔ جنگ کامطلب ان کو ذبح کر کے زیادہ انڈے حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ “

جدید جنگیں اتنی مہنگی ہیں کہ عراق کی جنگ کے حقیقی اخراجات ایک ٹریلین سے بھی زیادہ تھے جو کہ عراق کی پوری دولت سے کئی گنا زیادہ تھے۔

۔ جنگیں کی تیاری دولت ہضم، منڈیاں تباہ اور معاشی ترقی کو سست یا کم کردیتی ہے۔ فوجی اخراجات ملک کی معاشی ترقی، بنیادی ضروریات کی فراہمی اور سرمایہ کاری کو روک دیتے ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان ابھی ابھرتی ہوئی معیشت ہیں۔ دونوں ممالک میں غربت کی شرح تیس فی صد سے زائد ہے۔ عوام بھوک، بیماری، مفلسی کے ستائے ہوے، بنیادی انسانی ضروریات کے متلاشی ہیں۔ نسلی و لسانی جھگڑے، علاقائی تعصب، مذہبی تشدد اور دہشت گردی دونوں کو لہولہان کر چکی ہیں۔ فاطمہ بھٹو کے مطابق ”پاکستان کی موجودہ تاریخ خونی ہے اس کے شہریوں نے بہت تشدد دیکھا ہے۔ ہمارے ملک کی فوجی آمریت کے مظالم، دہشت گردی اور (سیاسی و معاشی) بے یقینی کی وجہ سے نئی نسل برداشت کا مادہ کھو چکی ہے، جنگجوانہ سوچ پیدا ہو چکی ہے۔

” حکومت کے پاس عوام کی بھلائی کامنصوبے نہیں ہیں بیروزگاری انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ عوام ہر معاملہ میں انتہا پسند ہو چکے ہیں۔ ملک فلاحی ریاست نہیں بن سکا۔ جو پیسہ عوام کے فلاحی منصوبوں پر لگنا چاہیے تھا جنگوں کی تیاری کے نذر ہو جا تا ہے۔ جب بھی اس ملک کے ارباب بست و کشادچاہتے ہیں اس جذبہ کو بڑھاوا دے کر عوام کا دھیان دوسری طرف لگا دیتے ہیں۔ سیکالوجسٹ ولیم جیمز کے مطابق، “ جنگ کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ لوگوں کو زیادہ جاندار، تیار، متحرک اوربیدار کر دیتی ہے زندگی کی مشکلات برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کر دیتی ہے۔ بزدل اورکمزور لوگ ملک و قوم کے لئے کٹنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ”انسانی نفسیات کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوے عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔

اسی وجہ سے جب بھی ضرورت پڑتی ہے جنگ کا ماحول تیار کر لیا جاتا ہے اور عوام کے جذبات کو بھڑکا کرایک دوسرے کے خلاف کر دیا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کا میڈیا اس کام میں معاونت کرتا ہے اور جنگ جنگ کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ جنون عوام کو کس طرف لے کر جاے گا؟ کبھی کوئی جنونی حکومت پر بھی آسکتا ہے۔ آمر عام طور پر جنونی ہوتے ہیں۔ عوامی لیڈر بھی ہوسکتے ہیں۔

ہٹلر عوامی لیڈر تھا اور الیکشن جیت کر آیا تھا۔ جرمنی کو ایسی جنگ میں جھونک دیا جس نے اس کے ساتھ پورے یورپ کو تباہ کر دیا۔ پاکستان اور انڈیا، دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ لوگوں کو ادراک ہی نہیں کہ یہ کتنی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ لاکھ دو لاکھ! ستر ہزار تو ہم دہشت گردی کی جنگ میں قربان کر چکے، اتنے اور ہوجائیں گے تو کیا۔ دشمن کو تو مزہ چکھا دیں گے۔ ہماری سکیورٹی سٹیٹ کے حکمرانوں نے عوام کو یہ بتلایا ہی نہیں کہ جوہری ہتھیاروں کا مطلب مکمل تباہی ہے۔

جنگی حکمت عملی کاMutually Assured Destruction (MAD) نظریہ یہ بتاتا ہے کہ اگر جوہری طاقت کا حامل کوئی ملک ان ہتھیاروں سے حملہ کرتا ہے تو دوسرا اسی وقت اس سے بھی زائد طاقت سے جواب دے گا۔ جوہری میزائل ابھی فضا میں ہوگا، اس کے زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی دوسرا فریق اپنے میزائل فائر کر دے گا۔ (امریکی کمانڈ میں صدر کے حکم کے پانچ منٹ میں زمین اور پندرہ منٹ کے اندر اندر آبدوزوں سے میزائل چلاے جا سکتے ہیں ) ۔ اس طرح ممکنہ طور پر فوری اور ناقابل واپسی تباہی کا آغاز ہو جاے گا۔ جو کہ دونوں لڑنے والوں کو یقینا مکمل طور پر ملیا میٹ کر دے گا۔ سو اگر ایک بٹن دبا دیا گیا تو اس کی تباہی سے سب ختم ہو جاے گا۔

پس دونوں ملکوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جنگ کے جنون کو عقل سے ٹھنڈا کرنا ہوگا۔ مفادات، مقابلہ، عدم برداشت، دوسرے کو نیچا دکھلا نا انسان کی فطرت ہے لیکن تھامس ہوبز کے ہی بقول ”سیاسی معاشرہ میں اس کو تعلیم سے لگام دی جا سکتی ہے۔ “ فاطمہ بھٹو کے الفاظ کے مطابق، ”پاکستان میں میری ہم عمر نسل نے بولنے کے حق کی جنگ لڑی ہے اور اب ہم اپنی آوازیں صادق خواہش“ امن ”کے لئے وقف کردیں گے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).