پانچ بندوں کے کھانے کا بل کس نے دیا؟


ایک کام کے سلسلے میں اسلام آباد آنا ہوا۔ ادھر وسی بابا سے ملاقات ہو گئی۔ یہ ادھر مارگلہ کی ترائی میں رہنے والی ایک مشہور شخصیت ہیں جو اپنی پیش گوئیوں اور مستقبل بینی کے سبب خاص طور پر تحریک انصاف کے حامیوں میں شہرت دوام پا چکے ہیں۔ گو وہ اب اپنی پیش گوئیوں کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کم بخت لوگ نہیں بھولنے دیتے۔ خیر ہمیں دیکھتے ہی بضد ہوئے کہ ہم ان کی راہنمائی کریں۔ ہم نے اپنی گاڑی گھر میں پارک کی اور وسی بابا کی گاڑی کو اپنے بابرکت وجود سے منور کرنے کا قصد کیا۔

وسی بابا نے کچھ مزاحمت تو کی اور کہنے لگے کہ مرشد آپ کی گاڑی میں چلتے ہیں تاکہ ہماری بھی دنیا سنور جائے اور ہم آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چل سکیں۔ بابا جی کی یہ بات سن کر ہم بہت خوش ہوئے۔ مرشد کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لائے اور انہیں سیدھا راستہ دکھائے۔ ہم نے یہ اصول وسی بابا پر واضح کرنے کے بعد بتایا کہ گاڑی وہ چلائیں گے اور راستہ ہم بتائیں گے کہ تن و توش میں وہ بڑے سہی، مگر بابا کہلانے کے باوجود ان کی روحانیت میں ابھی ایک آنچ کی کسر باقی ہے۔

وسی بابا نے اپنی گاڑی نکال لی اور پوچھنے لگے کہ کہاں جانا ہے۔ ہم نے فرمایا کہ جہاں بھی اچھا کھانا دستیاب ہو، ادھر چلے چلو۔ کچھ دیر بعد ہم نے دیکھا کہ گاڑی بری امام کی سمت جا رہی ہے۔ ہوشیار ہو کر پوچھا کہ بابا جی کہاں کا قصد ہے؟ فرمانے لگے کہ ”ادھر بری امام کے لنگر سے تبرک لیں گے، پیٹ کا دوزخ بھی بجھے گا اور روحانیت میں بھی بہت اضافہ ہو گا۔ “ الفاظ کچھ سنے سنے سے لگے، یادداشت پر زور ڈالا تو یاد آیا کہ وسی بابا کو جب ہم نے داتا دربار کا لنگر کھانے کی سعادت بخشی تھی تو کچھ ایسی ہی بات کہی تھی جو انہوں نے پلے باندھ لی۔

خیر انہیں سمجھایا کہ بابا جی راہبانیت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ صرف روح کی فکر مت کرو، جسم کا بھی سوچا کریں۔ اس کا بھی ہم پر حق ہوتا ہے۔ سمجھا بجھا کر وسی بابا کو واپس شہر کی طرف موڑا۔ وہ پوچھنے لگے کہ کہاں چلنا ہے۔ ہم نے غور کیا اور کہا کہ دو جگہیں ہی مناسب ہیں، یا تو فرنود کے سنگت کا رخ کرِیں یا ظفر اللہ خان کاکڑ اور لینہ حاشر کے کافی پلینٹ کا۔ دوستوں نے کاروبار شروع کیا ہے تو احباب کا فرض ہے کہ کسی دوسری طعام گاہ جانے کی بجائے ادھر جائیں اور اپنے پیسے وہاں خرچ کریں۔ وسی بابا کے دل پر ہماری یہ بات سن کر ایسا اثر ہوا کہ شدت جذبات سے مغلوب ہو کر ایک ہاتھ سیدھا اپنے دل پر رکھ لیا اور دوسرا پہلو میں لگی دوسری جیب پر۔

وسی بابا کہنے لگے کہ یہ سب میرے نہایت ہی قریبی دوست ہیں اور مرشد آپ کے تو مرید ہیں۔ ہم ان کے ہوٹل سے کھانا کھا کر پیسے دیتے اچھے نہیں لگیں گے۔ وسی بابا کو سمجھایا کہ ان کے گھر جا کر کھانا کھانے کے بعد پیسے دینے کی کوشش میں تو آپ اتنے زیادہ برے لگیں گے کہ یہ سب بخوشی آپ کو ویسے ہی گھوٹیں گے جیسے حلیم کو گھوٹنے کا حق ہے، لیکن ادھر انہوں نے کمرشل ہوٹل کھول رکھا ہے، لنگر نہیں۔ آپ اسے بری امام کی درگاہ سے کنفیوز مت کریں۔ ادھر اس نیت سے جائیں کہ دوست کے کام میں کچھ برکت پڑے اور اسے فائدہ ہو۔ بابا جی کی سمجھ میں بات آ گئی اور انہوں نے دونوں جیبوں سے اپنے ہاتھ ہٹا لیے۔

لیکن اب وسی بابا کچھ گھبرا کر کہنے لگے کہ کافی پلینٹ کہنے کو تو بحریہ میں ہے لیکن تقریباً اسلام آباد اور لاہور کے درمیان میں پڑتا ہے، آپ کا ارادہ لاہور واپسی کا لگتا ہے، ادھر دو پل ٹھہر کر آپ فرمائیں گے کہ اب یہاں تک آ گئے ہو تو لاہور چلے چلو۔ پچھلی مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی کیا تھا۔

بابا جی کو لاکھ تسلی دلاسا دیا مگر ان کے دل کو قرار نہ آیا۔ جدائی کا سوچ سوچ کر ہی ان کا دل دہل رہا ہو گا۔ بابا جی کا دل رکھنے کو کہا کہ ٹھیک ہے پھر جی الیون میں فرنود کے سنگت چلے چلیں۔ ادھر پہنچے، تو فرنود میاں باہر بیٹھے اپنے غم دھوئیں میں اڑا رہے تھے۔ ہمیں اندر بھیج دیا کہ آپ کو ٹھنڈ بہت لگ رہی ہو گی۔ اندر پہنچ کر ہم نے مینیو منگوایا اور اتنا کھانا منگوا لیا جو چھے سات عام افراد کے لئے بہت تھا۔ روحانیت کے غلبے کے سبب ہمیں زیادہ کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ ہم کھا رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ہمارے غیبی موکل ہوتے ہیں جو ڈونگوں کے ڈونگے اور قابوں کی قابیں چٹ کر جاتے ہیں۔

اس دوران وسی بابا اپنے موبائل پر کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ ہم بھی سر جھکا کر کھانے کا مراقبہ کرنے میں مشغول ہو گئے۔ گھڑی بھر بعد یکلخت اندھیرا سا چھا گیا۔ ہم نے گھبرا کر نظر اٹھائی تو ایک گھنی داڑھی کے عقب سے حسنین جمال نمودار ہوئے۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ اچانک ظفر اللہ خان آ گئے۔ اب علم ہوا کہ ہمیں آرڈر دیتے دیکھ کر وسی بابے نے ان دونوں کو انوائٹ کر لیا تھا۔ غالباً ان کی نیت ہو گی کہ ان دو اصحاب میں سے کوئی میزبانی کی سعادت حاصل کر لے۔

کچھ دیر بعد کھانا آیا۔ ساتھ ہی فرنود عالم بھی آ گئے۔ کھانا دیکھ کر ہم دہل گئے۔ وسی بابے کے مشورے پر ہم نے کوئلہ کڑاہی پر صاد کیا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ کوئلے کی آنچ پر پکائی گئی کڑاہی ہو گی۔ مگر باورچی دوسرے نظریے کا آدمی تھا۔ اس کی رائے تھی کہ جیسے آلو گوشت میں آلو ڈالے جاتے ہیں، ویسے کوئلہ کڑاہی میں کوئلہ ڈالا جاتا ہے۔ کھانا شروع کیا تو نوٹ کیا کہ باقی تمام افراد کڑاہی کھا رہے ہیں لیکن حسنین جمال گاجر کا حلوہ صاف کرنے میں مشغول ہیں۔ غالباً وہ ظاہری ہی نہیں باطنی طور پر بھی مولوی بن چکے ہیں اور کھانے میں صرف حلوہ پسند کرتے ہیں۔

کچھ دیر میں سب تھک چکے تھے لیکن کھانا ختم نہیں ہوا تھا۔ ہمارے ساتھ وسی بابا تشریف رکھتے تھے اور ان کے ساتھ حسنین جمال نیم دراز تھے۔ غور کیا تو محسوس ہوا کہ وہ اچانک نور کے سیلاب میں غرق ہونے کو ہیں اور کسی وقت بھی سو واٹ کے قمقمے کی مانند جل سکتے ہیں۔ ہم نے ایک طرف ہوتے ہوئے وسی بابا کو بھی اشارہ کیا کہ وہ کچھ دور ہو جائیں ورنہ جیسے ہی حسنین کے بال ساکٹ میں جائیں گے تو نور وسی بابا سے ہوتا ہوا ہم تک بھی پہنچ جائے گا۔ وسی بابا بظاہر بجلی کے ایک اچھے موصل ہیں۔ یہ ساری نقل و حرکت حسنین نے دیکھ لی اور پھر اپنے سر کے پیچھے موجود ساکٹ میں لگے سرخ نشان کو جلتے دیکھ کر ایک قلانچ بھر کر سہم کر دور کونے میں سمٹ کر بیٹھ گئے۔ نہ جانے وہ نور سے کیوں گھبراتے ہیں۔

قہوے کا دور چلا۔ پھر ویٹر بل لے آیا۔ ہم نے نہایت متانت سے اس سے بل وصول کیا، جملہ حاضرین نے سکھ کا سانس لیا، اور ہم نے بل وسی بابا کو تھما دیا۔ وسی نے گھبرا کر ظفر اللہ خان عرف ید بیضا کو دیکھا۔ ید بیضا کہ حضرت موسی کے معجزے سے نہایت متاثر ہیں، جھٹ اپنا ہاتھ بغل میں ڈال کر بیٹھ گئے۔ وسی بابا کچھ دیر منتظر رہے کہ شاید یہ ید بیضا بغل سے نقرئی ہو کر برآمد ہو، لیکن نہ ہوا۔ اس اثنا میں حسنین جمال آنکھیں موندے مہاتما بدھ کی مانند کنول آسن جما کر بیٹھ چکے تھے۔ ہم نے وسی بابے کو سمجھایا کہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے، اس سے بدائی کا غم نہیں کرنا چاہیے، اور ان سے کھانے کا بل دلوا دیا اور ان کی ایک اچھی سی تصویر کھینچ لی تاکہ یادگار رہے اور وہ اسے دیکھ دیکھ کر اپنی خوش بختی پر ناز کرتے رہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar