بھارتی میڈیا کا جنون: شکر ہے میں بھارتی نہیں


ویسے تو 14 فروری محبت کا دن کہلاتا ہے کہ تجدید محبت ہو یا اظہار محبت، یہ تاریخ محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ مگر اس 14 فروری کو پلوامہ میں ہوئے حادثے کے بعد سے آج تک تجدید محبت پاکستان سے اور اظہار محبت عمران خان سے ہو رہا ہے۔ انسانوں کی شخصیت، سادہ حساب و کتاب سے بہت مختلف ہوتی ہے اور کا بہترین مشاہدہ آج کل دیکھنے کومل رہا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں نہ تو مہنگائی کم ہوئی نہ ہی غربت، نہ ہی کوئی خزانہ نکلا نہ ہی مغربی دنیا ہمارے ساتھ آ کر کھڑی ہوئی۔

یہ کس بات پر خوشی کا احساس ہے، کیوں دل شکر ادا کر رہا ہے کہ میں ہندوستان میں کھینچی گئی لکیر کے اس جانب پیدا ہوا جو، اب پاکستان ہے۔ ایسا شکر کا احساس بہت کم ہوا ہے۔ میں ہندوستان کی معاشی طاقت، اس کی سفارتی حیثیت، اس کی ثقافت سے جتنی واقفیت رکھتا ہوں اس کے بعد خود پر بلا وجہ فخر کی کوئی وجہ سرے سے نہیں بنتی۔ مجھے بھارتی میڈیا کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ اس کے گزشتہ دو ہفتے کے کردار نے مجھے پاکستانی ہونے پر فخر دلایا۔

طویل عرصے سے پاکستانی نیوز میڈیا انڈسٹری پر ہوتے کھیل تماشے نے بیزاری کا شکار سا کر دیا تھا اور اب مجھے یہ ہی میڈیا اچھا لگنے لگا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف اس لچر اور گھٹیا پن سے بکواس کی، اس لایعنی وحشی پن کا ناچ دکھایا کہ نفرت نہیں کراہت کا شدید احساس ہوا، نفرت کے لئے بھی کسی کو کچھ قابل ہونا پڑتا ہے۔ انگریزی کیا اور ہندی کیا میں کم از کم جہاں اور جس کو دیکھتا رہا کراہت ہی کراہت ہوتی رہی۔

چیخ و پکار، بے مغز تکرار، جنگی ماحول میں جھوٹ تو سمجھ آتا ہے مگر سامنے نظر آتے ہوئے ہاتھی کو دکھاتے ہوئے مسلسل چیخنا کہ دیکھو دیکھو بکرا ہے۔ میں اپنے معاشرے سے ہزار شکایات رکھتا ہوں لیکن اس طرح کا پاگل پن اتنے بڑے پیمانے پر کم از کم نہیں ہے۔ 26 اور 25 فروری کی درمیانی رات کو ناکام شب خون کے بعد تمام دن سارا بھارت ایک جھوٹ پر خوشی سے ناچتا رہا، اگلے ہی دن حساب برابر ہونے پر نئے پاگل پن کا شکار ہو گیا۔

کسی نے نہیں پوچھا کہ اگر پاکستان کے جیٹ حملہ کرنے آئے تھے تو پائلٹ ہمارا کیسے پکڑا گیا۔ پورا دن گزرنے کے بعد نئی دلی انڈیا گیٹ پر لائیو ایک شو میں آخر ایک اینکر نے پوچھا کہ پاکستان نے تو ایک پائلٹ پکڑا اور اس کی تصویر بھی دکھا دی آپ نے جن ساڑھے تین سو لوگوں کو نشانہ بنایا ان میں سے کوئی تصویر تو دکھا دیجئے۔ اگلی صبح بھارتی میڈیا کا دعویٰ تھا کا ایک پاکستانی ہیلی کاپٹر لائین آف کنٹرول عبور کرنے پر کامیابی سے نشانہ بنا لیا گیا۔

اس کی ویڈیو بار بار دکھائی جا رہی تھی۔ یہاں وزیر اعظم نے اسمبلی میں اعلان کر دیا کہ وہ بھارتی پائلٹ کو رہا کر رہے ہیں۔ اس پر بکواس شروع ہوئی کہ پاکستان نے گھٹنے ٹیک دیے، پاکستان جنگ نہ کرنے کی بھیک مانگ رہا ہے۔ شام کو تینوں بھارتی سروسز چیف کی جوائنٹ پریس کانفرنس تھی جس سے قبل اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستانی حملے اور جھوٹ کے ثبوت سامنے رکھے جائیں گے۔ اب یہاں دیکھیں ہوا کیا۔ تینوں سروسز چیف ایک کے بعد ایک مائیک کے سامنے آئے، بریف سٹیٹمنٹس دیں۔

ائیر چیف نے الزام لگایا کہ پاکستان کا پلان لائین آف کنٹرول عبور کر کے بھارتی برگیڈ ہیڈ کوارٹر، فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا تھا اور بھارتی فضائیہ نے ان کا حملہ ناکام بنا دیا۔ آرمی چیف نے اس کی تصدیق کی۔ اس کے بعد سوالات کا دور شروع ہوا، پاکستان کی جانب سے پائلٹ واپس کرنے کے اعلان پر ایک مزیدار سوال ہوا کہ کیا آپ شکر گزار ہیں کہ پاکستان آپ کی فورس کا پائلٹ واپس کر رہا ہے جس پر ائیر چیف نے جواب دیا کہ وہ خوش ہیں مگر ساتھ ہی جنیوا کنونشن کا ذکر شروع۔

ان تینوں ہیڈز کے رخصت ہونے کے بعد ایک جونئیر افسر نے میزائیل کے پرزے بطور ثبوت پیش کیے کہ یہ پاکستان نے ایف سولہ سے میزائیل داغا۔ کسی نے سوال نہیں کیا کہ آج صبح پاکستانی ہیلی کاپٹر کہاں نشانہ بنایا گیا۔ اس کا ثبوت کہاں ہے؟ ایک سوال اس پلان کے ثبوت پر ہوا جس کے مطابق پاکستان نے برگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنا تھا، اس جواب تھا کہ وہ ثبوت بھارتی حکومت کے پاس ہے وہ جب چاہے دکھا دے۔

ظاہر ہے یہ پریس بریفننگ سختی سے فوجی اور سول ڈسپلن میں کی گئی۔ ملکی مفاد کا نام لے کر سامنے نظر بنیادی سوال نہ کرنے گئے کیونکہ جواب نہ تھا۔ نریندر مودی کی پارٹی نے 28 فروری کو دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو کانفرنس کرنے کا اعلان کر رکھا تھا جس میں پندرہ ہزار بوتھس پر ایک ساتھ، ایک کروڑ بی جے پی کے کارکنوں سے خطاب کر کے مودی نے انتخابی مہم شروع کرنی تھی۔ اتنی بڑی ویڈیو کانفرنس کی تیاری ایک ماہ قبل سے جاری تھی، آپ خود اندازہ لگائیں کہ اگر بھارتی پائلٹ نہ پکڑا جاتا تو کل مودی نے کس اونچائی سے اپنی سیاسی مخالفوں پر قیامت بن کر گرنا تھا، وہ بڑی کامیابی سے تمام بھارتی معاشرے کو پاگل پن کی اس انتہا تک لے آیا ہے کہ اس پر تنقید بھارت پر تنقید بن چکی ہے۔

اپوزیشن کی اکیس جماعتوں کے اجلاس میں سب کی تلملاہٹ بجا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کھیل ہو گیا ہے۔ وہ اس وقت مودی کی کس ناکامی کی بات کریں۔ مہنگائی، امن و مان، کاروبار یا نوکریوں کی بات کرنے پر میڈیا جنونی ہو رہا ہے۔ لیکن پاکستانی جواب نے مودی کو مجبور کیا کہ وہ اس ویڈیو کانفرنس میں بھارت کی معاشی ترقی کے وعدے ہی کرے۔ پاکستان پر کسی جیت کا دعویٰ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اور ساتھ ہی بھارتی اپوزیشن کو ہتھیار ملا کہ وہ مودی پر تنقید کی ہمت تو کرے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ابھی نندن نامی بھارتی پائلٹ کی واپسی کا اعلان کر کے سرحد کے دونوں جانب سمیت دنیا بھر میں امن پسندوں کے دل جیت لئے ہیں۔

کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس بحران میں کامیاب ہو کر ابھرے اور مودی چھوٹا دکھائی دیے رہا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بطور ملک و قوم ہمارا قد بھارت سے اونچا بھی ہوا ہے، مگر ٹھہریں اور رک کر سوچیں کہ یہ بحران اگر ٹل بھی گیا اور اس سے ہم اپنا امیج بہتر بنا بھی پائیں سکے ہیں تو بھی کچھ سوال ہمیں خود سے کرنے ہوں گے کیونکہ اس وقتی جیت کو ہمیشہ کہ جیت میں بدلنا ہے۔

عمران خان سمیت سیاسی قیادت اور مبصرین کا یہ کہنا درست ہے کہ بھارت کے مقابلے میں ہمارا میڈیا بہت بہتر ہے اور جنگی جنون کا شکار نہیں کیونکہ ہمارے میڈیا اور معاشرہ جانتا ہے کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔ مگر ہم ایسا جانتے کیوں ہیں۔ کس طرح ہمارے علم میں ہے کہ جنگی جنون کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس لئے ہی نا کہ ہم خوں کے دریا سے نکلے ہیں، ہم نے ستر ہزار جنازے اٹھائے ہیں۔ اس خون کے دریا سے ہمیں کیوں گزرنا پڑا، کیا ان سوالوں پر ہم غور کرنے کو تیار ہیں۔ اگر ہم ان سوالوں کے جواب جانتے ہیں تو ہم نے بہتری کی جانب کون سے قدم اٹھائے ہیں۔ کیا آج کوئی بھی پاکستانی دل پر ہاتھ رکھ کہ یہ کہہ سکتا ہے کہ پاکستان میں کوئی دہشتگرد موجود نہیں۔

میں پاکستانی ہوتے ہوئے سیدھی بات جانتا ہوں کہ مجھے اپنی فوج کو مضبوط کرنا ہے اس کے ساتھ کھڑے بھی ہونا ہے لیکن اس فوج کے ہوتے مجھے اور ہر طرح کے مسلح گروپس کی مخالفت کرنی ہو گی۔ میں جانتا ہوں یہ وقت نازک ہے اور خدا سے دعا ہے کہ خیریت سے ہم اس مشکل سے نکل جائیں مگر ہمیں یاد رکھنا ہے کہ اگلی جنگ سے بچنے کا بہترین طریقہ خود اپنی صفائی بھی ہے۔ اگر چند سو یا چند ہزار دہشت گرد یا ان کا کوئی گروہ یہاں موجود رہا تو پھر ہر طرح کا امن بھی عارضی ہوگا۔ کیوں چند لوگ میرے ملک کی عزت اور زندگی کو اپنے جنون کی خاطر داؤ پر لگانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کیسے اجازت دی جاسکتی ہے کہ کوئی گروہ مجھے، میری قوم کو ایٹم بم کا ایندھن بنا ڈالے۔ یہ کب تک چلے گا، ہمیشہ نہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2