خواتین پر تشدد کیسے ختم ہو؟


خواتین کو صدیوں سے اپنے حقوق کے لیے جتن کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ جب بھی صنفِ نازک کی طرف سے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی گئی، ہمیشہ کوئی نہ کوئی غاصب اس کی آزادی سلب کرتا دکھائی دیا ہے۔ جیسا کہ آریائی دور میں عورت کو زہر کا پیالہ، اشوک دور میں ہوس پرستی کا مجسمہ، عیسائیوں کے مطابق خدا کا عذاب، یہودی ان کو شیطان کا روپ اور ہندو پائوں کی جوتی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ خواتین کے بنیادی حقوق کو بھی تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو مردوں کے ساتھ برابری کے حقوق دیئے ہیں، پھر بھی ہر دور میں ایک طبقہ ان کی ترقی کی راہ میں حائل رہا، ان طبقات میں سے کچھ کا خیال یہ ہے کہ آزادی نسواں کا موجودہ سیلاب معاشرے کودرہم برہم کرنے کی افسوس ناک کوشش ہے، جس قوم نے عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی، اسے کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر ضرور پشیمائی ہوئی ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے ’’ان کا عورتوں پر کوئی ایمان نہیں‘‘یعنی خواتین اپنے مخصوص فرائض مثلا امورِ خانہ داری میں بلند ذہنیت کا ثبوت نہیں دیتیں ملکی امور میں کیا کرسکتی ہیں؟ عورت کو دماغ کمزور ملا ہے، اس کی تخلیقی قوت دماغ میں نہیں رحم میں ہے یعنی مرد دماغ سے تخلیق کرتا ہے اور عورت رحم سے۔ یہاں تک کہہ دیا گیا، جس قوم نے عورت کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی وہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر پچھتائی ضرور ہے۔ عورت کا اصل کام آئندہ نسل کی تربیت ہے۔ اسے ٹائپسٹ یا کلرک بنا دینا قانونِ فطرت کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے طبقات یا خیالات کے لوگوں کی بات سچ مان بھی لی جائے تب بھی خواتین کی آزادی بنیادی حقوق کی تلفی اور ان پر تشدد قابلِ مذمت ہے۔

پاکستان میں بہر حال آج کی عورت ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ بلکہ کئی جگہوں پر مرد سے آگے نکل کر اپنا کردار ادا رہی ہے۔ پاکستان کے تقریباً ہر شعبہ میں ان کی نمائندگی بڑھ چڑھ کر نظر آتی ہے۔

خواتین پر تشدد ان کی حق تلفی ہے۔ ان پر معاشی اور سماجی پابندیاں لگانے کا رواج پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج بھی پاکستان میں عورت کو پائوں کی نوک پر رکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ آج بھی پاکستان کے جنوبی علاقوں میں ونی اور کارو کاری کی رسمیں ادا کی جا رہی ہیں۔ آج جب خواتین کے حقوق کا بل پاس ہوچکا ہے پھر بھی ناک کان کاٹنے اور تیزاب پھینکنے جیسے انتہائی اقدامات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ نام نہاد جرگوں کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھنے اور جائیداد اپنے پاس رکھنے کی وجہ سے آج بھی عورتوں کی قرآن سے شادی کروائی جا رہی ہے۔ تشدد کی انتہا دیکھیں، عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے پھر ان کو باندھ کر ان پر پالتو کتے چھوڑ دئیےجاتے ہیں جو ان کے جسموں کو نوچ ڈالتے ہیں۔

پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کی بات کی جائے۔ وہاں بھی خواتین پر تشدد کیا جانا عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق جاپان میں 13 فیصد خواتین نے گھریلو تشدد کا انکشاف کیا ہےجبکہ ایتھوپیا میں یہ تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ دنیا بھر میں 50 فیصد خواتین ایسی ہیں جن کی جانب سے جسمانی تشدد کی اطلاع دی گئی۔ کئی خواتین نے بہت زیادہ خطرناک حقائق سے آشکار کیا مثلاً ان کو حمل کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ خواتین کی انتہائی رپورٹ کے مطابق ان کو بہت زیادہ جسمانی چوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، گھریلو تشدد جسمانی چوٹ سے زیادہ اذیت ناک ہونے کا پتہ دیتا ہے۔

ایک حیران کن سروے کے مطابق بعض معاشروں میں گھریلو تشدد قابلِ قبول فعل ہے، اس بات کی باقاعدہ گواہی ملتی ہے کہ بعض خواتین کہتی ہیں، ان پر ان کے شوہروں کا تشدد صحیح تھا۔ بھارت میں گھریلو تشدد میں حیران کن طور پر اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان میں ملک کے اونچے طبقے کی خواتین بھی تشدد کا شکار بن رہی ہیں، ان میں بیشتر خواتین ایسی ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، گھریلو تشدد کی زد میں آنے والی اکثر خواتین کا تعلق حیرت انگیز طور پر اونچے طبقے کے تعلیم یافتہ خاندانوں سے ہے۔

جنوبی ایشیا میں خواتین کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ تشدد کا ذکر آتے ہی غیر تعلم یافتہ، غریب، اور ایسی خواتین کی تصویر ابھرتی ہے جو اپنے شوہروں پر انحصار کرتی ہیں۔ جنوبی ایشیا خصوصاً بھارت میں ہر پانچ میں سے ایک عورت تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ اس تشدد کی وجہ؟ ’’بدمزہ کھانے سے لے کر بدچلنی تک کا شبہ‘‘

ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں ہر آٹھ میں سے ایک عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہر اٹھارہ سیکنڈ میں ایک عورت پر تشدد کیا جاتا ہے۔ عورت جسے وفا کی دیوی، امن کی علامت، حسن کا مجسمہ، کامیابی کی علامت، حسن کا کرشمہ، اور مرد کو خدا کی بہترین نعمت کہا جاتا ہے اس پر تشدد قابلِ مذمت ہے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لئے قانون کو قابلِ عمل بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ان کے حقوق کی پامالی نہ کرنا ضروری ہے، ان کے حقوق کی خاطر اقومِ عالم میں آواز بلند کی جائے جس کی وجہ سے جاپان ایتھوپیا، بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، امریکہ روس سمیت کئی اہم ممالک میں خواتین پر تشدد میں کمی لائی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).