میں نے اپنی ماں کو قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھا


امی بہت شاندار عورت تھیں، زندگی کی حرارت سے بھرپور، بہت شوقین مزاج۔ انھوں نے زندگی کو بھرپور جیا اور کیا خوب جیا۔ اور میں نے ایسی خوب صورت شخصیت کو قطرہ قطرہ پگھل کر تحلیل ہوتے دیکھا، ان کی طبعی موت تو جنوری میں ہوئی مگر اصل میں وہ ہم سے کئی سال پہلے جدا ہو چکی تھیں

ان کا بدلاؤ تقریبا سات سال پہلے شروع ہوا۔ میں ہسپتال سے واپس آتی تو داخل ہوتے ہی نسیم آپا کی ناراضگی کے تیور دیکھتی، اور پھر امی کی طرف متوجہ ہوتی جو غصے میں بھری بیٹھی ہوتیں۔ سلام دعا کے بعد امی پھٹ پڑتیں اور کہتیں ”اپنی اس ملازمہ کو فارغ کرو یا پھر مجھے واپس پاکستان بھیج دو“ دریافت کرنے پہ کچھ بھی نہ بتاتیں اور منہ پھلائے بیٹھی رہتیں، نسیم آپا بھی جواب نہ دیتیں۔ باقی اہل خانہ سے پوچھنے پہ دریافت ہوتا کہ امی کو شکایت ہے کہ نسیم آپا نے صبح سے انہیں مانگنے کے باوجود کچھ کھانے کو نہیں دیا حتی کہ چائے پینے کو وہ ترس گئیں ہیں۔ ادھرنسیم آپا منہ بسور کے بولتیں کہ بی بی جی صبح سے چار کپ چائے، دو بار ناشتہ اور ایک بار کھانا کھانے کے باوجود انکاری ہیں۔ یہ بہت ہی عجیب وغریب صورت حال ہوتی امی ساری عمر بسیار خوری کا شکار نہیں رہیں تھیں اور وہ کھانے سے زیادہ کھلانے پہ یقین رکھتیں تھیں۔ پھر یہ کیا ہو رہا تھا؟

اس صورت حال کا حل میں نے یہ ڈھونڈا کہ نسیم آپا کو امی کی پی ہوئی چائے، ناشتے اور کھانے کے برتن دھونے سے منع کر دیا تا کہ میں امی کو بہت سے استعمسل شدہ برتن دکھا کے یقین دلا سکوں۔ جب میری یہ ترکیب فیل ہو گئی تو اپنے دل میں آئے ہوئے شک کو دور کرنے کے لئے گھر میں کیمرہ لگوا دیا جہاں میں نے امی کو ویسے ہی کرتے دیکھا جیسے نسیم آپا بتاتی تھیں۔

ایک دن گھر آئی تو امی نے تشویش بھرے انداز میں کہا، آج جانے کون آدمی ہمارے گھر میں گھس آیا ہے اور بے تکلفی سے ادھر ادھر پھر رہا ہے۔ فورا نسیم آپا کو بلایا گیا جو اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں ”بٹیا، اور تو کوئی نہیں، بھیا ہی تھے گھر میں اور بی بی جی ان کو صبح سے تیوریاں چڑھا کے گھور رہی ہیں“ صورت حال بہت گھمبیر تھی، اب امی کا دھیان بٹانا تھا اور اس کوشش میں ہم کامیاب رہے تھے۔

کچھ ہی دنوں بعد دیکھا تو صاحب پریشانی میں ادھر ادھر ٹہل رہے تھے ”سنو! امی آج صبح سے مجھ سے ایک ہی بات پوچھے جا رہی ہیں“
” وہ کیا“

جواب دیتے دیتے وہ رکے اور جھینپ سے گئے ”بار بار ایک ہی سوال کر رہی ہیں، میری دوسری بیوی کہاں ہے“ یہ سنتے ہی میرا قہقہہ آسمان کو چھو رہا تھا ”دیکھیے آخر آپ کو امی پہچان گئیں، اب مجھے بھی بتائیے وہ کون ہے اور کہاں ہے“

یہ سب بہت تکلیف دہ تھا وہ آہستہ آہستہ اپنی شخصیت کھو رہی تھیں اور نامعلومی، بے یقینی کے سمندر میں ڈوب رہی تھیں، زمان ومکان کا تصور دھندلا پڑ رہا تھا۔

اکثر آدھی رات کو اٹھ جاتیں اور اپنی ماں کو آوازیں دیتیں، کسی ننھی بچی کی طرح۔ ایسے موقعوں پر میری بیٹی جو ان کے ساتھ سوتی تھی ان کو کسی بچے کی طرح سہلاتی، دلاسہ دیتی۔ ایسے ہی ایک موقعے پر انھوں نے بڑی بیچارگی سے اپنی نواسی سے پوچھا ”مانو! مجھے کیا ہو رہا ہے؟ میں ایسی تو کبھی نہیں تھی“

ان کی ساری عمر ابا کے ساتھ پنڈی میں گزری تھی۔ ابا کی وفات کے بعد چونکہ وہ تنہا تھیں سو انہیں بیٹے کے پاس لاہور منتقل ہونا پڑا مگران کو اپنا وہ گھر کبھی نہیں بھولا۔ وہ جب بھی پاکستان کی بات کرتیں ان کے پیش نظر ان کا اپنا گھر ہوتا۔ ابا کی وفات کے بعد والے واقعات ان کی یاد سے آہستہ آہستہ محو ہو رہے تھے۔ میں کمپیوٹر پہ کام کر رہی ہوتی، میرے پاس آتیں اور کہتیں، ابھی بہت وقت ہے، مجھے اگر تم بس پہ بٹھا دو تو میں شام کو پنڈی پہنچ جاؤں گی۔

میرے یہ بتانے پہ کہ وہ ملک سے باہر ہیں، قطعاً یقین نہ کرتیں۔ تھوڑی ہی دیر میں داماد سے کہہ رہی ہوتیں کہ وہ انہیں چھوڑ آئیں۔ پھر میرے چھوٹے بھائی کو آوازیں دیتیں۔ جواب نہ ملنے پہ مجھے فون پہ بات کروانے کو کہتیں تا کہ وہ انہیں شام کو دفتر سے گھر واپسی پہ لیتا جائے، ایسا وہ ہر آدھے گھنٹے کے بعد کرتیں اور نواسے نواسیاں اصل صورت حال بتاتے بتاتے تھک جاتے۔

وہ ساری عمر اکیلے سفر کرتی آئیں تھیں۔ اتنی با اعتماد تھیں کہ ہمارے بچپن میں جب نانا کے گھر جانا ہوتا اور ابا نہ جا سکتے، وہ ریل پہ ہم سب بہن بھائیوں کو لے کے روانہ ہو جاتیں۔ بھائی کے پاس کینیڈا بھی اکیلی گئیں اور میرے پاس بھی اکیلی آتیں۔ لیکن ان کے دو سفر میں نہیں بھولوں گی۔ پہلے سفر میں وہ میرے پاس آرہی تھیں اور یہ پہلی دفعہ نہیں تھی ان کے پاس ریزیڈنٹ ویزا تھا سو آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میں ان کو لینے کے لئے ائرپورٹ کے باہر موجود تھی، سب مسافر نکل گئے اور امی باہر نہیں آئیں۔

پریشان ہو کر میں سکیورٹی کے پاس جانے کو تھی کہ میں نے انہیں باہر نکلتے دیکھا، بہت مضمحل تھیں میں دوڑ کے پاس پہنچی، مجھے دیکھتے ہی پھوٹ پھوٹ کے رو دیں۔ میں نے گھبرا کے ساتھ لپٹا لیا، دلاسہ دیا۔ وہ ہچکیوں کے درمیان بولیں، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میرا سامان کون سا ہے، مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ سامان تھا بھی کہ نہیں۔ انہیں پرسکون کرنے کے بعد، بھائی کو پاکستان فون کرکے سامان کی تفصیل معلوم کی۔ وہ بھی بہت حیران تھا کہ امی نے سب کے تحائف اپنے ہاتھوں سے پیک کیے تھے اور ان کے بیگ پہ نشانی بھی لگائی گئی تھی۔ یہ ان کی جاتی ہوئی یاداشت کے حوالے سے پہلا سفر تھا۔

دوسرا اور آخری سفر بہت ہی تکلیف دہ تھا چونکہ وہ پہلے سفر کے بعد بہت عرصہ بغیر کسی شکایت کے آتی جاتی رہیں اس لئے ہم نے بھی ان کو پابند نہ کیا۔

وہ اکیلی پاکستان جا رہی تھیں۔ بہت خوش کہ چھوٹے بیٹے سے ملنے کی ہڑک انہیں ہمیشہ رہتی تھی۔ رات کی فلائٹ تھی سو انہیں ائر پورٹ چھوڑنے کے بعد ہم گھر آکے سو گئے، آنکھ فون کی گھنٹی سے کھلی جو بجے جا رہا تھا۔ فون کے دوسری طرف اجنبی آواز نے فورا ائر پورٹ پہنچنے کی تاکید کی۔ صاحب دوڑے اور آندھی طوفان کی رفتار سے ائر پورٹ پہنچے۔ امی وہاں کھڑی زارو قطار رو رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں میں کچھ نہیں جانتی۔ پتہ یہ چلا کہ جب وہ جہاز میں جا کے بیٹھ گیئں تو فضائی میزبان نے ازراہ مہربانی معمر عورت دیکھ کے بات کرنے کی کوشش کی ”اماں جی! کہاں جا رہی ہیں“

” بیٹی! مجھے پنڈی جانا ہے“
” مگر اماں جی یہ جہاز تو لاہور جا رہا ہے“
” نہیں بیٹی! میرا گھر تو پنڈی میں ہے مجھے لاہور نہیں جانا“

وہ قطعی بھول چکی تھیں کہ وہ اپنے بیٹے کے گھر لاہور جا رہی ہیں۔ اپنے گھر کی یاد شدت سے حملہ آور ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے کسی بھی تعلق سے، شدت سے انکاری تھیں۔ جہاز کا عملہ بہت تذبذب کا شکار تھا۔ وقت تھوڑا تھا۔ امی لاہور کے لئے مان نہیں رہیں تھیں۔ سو فیصلہ ہوا کہ انہیں اتار دیا جائے۔ اپنے اتارے جانے پہ وہ مزید پریشان ہوئیں اور پھر یہ بھی بھول گئیں کہ یہاں وہ کس کے پاس تھیں۔ ائرپورٹ سٹاف نے ٹکٹ سے نمبر لے کے ہمیں مطلع کیا۔ یہ امی کا میرے پاس آخری وزٹ تھا۔

امی کی ان کیفیات کے بعد نیورو فزیشن اور سائکٹرسٹ کا علاج شروع ہوا۔ مختلف ٹسٹ ہونے کے بعد یہ پتہ چلا کہ ان کے دماغ کا وہ حصہ جو یاداشت، جذبات، احساسات، تعلق، زمان ومکان، معاشرتی حدود وقیود سے متعلق ہے وہ بے تحاشا سکڑ چکا ہے اور اب ان کے پاس دماغ کا وہ حصہ رہ چکا ہے جو بنیادی جبلتوں سے متتعلق ہے جیسے سانس لینا، دل کا دھڑکنا، اور چلنا پھرنا۔

امی کی ذات قسطوں میں جا رہی تھی اور ایک عظیم عمارت، کھنڈر میں تبدیل ہو رہی تھی۔ امی نے آہستہ آہستہ سب کو پہچاننا چھوڑ دیا اب وہ اپنے آپ کو ماضی میں سمجھتیں اور بیٹے اور بہو کو اپنے اماں ابا سمجھتیں اور پکارتیں۔ خیالی شام ہونے پہ وہ ہم بہن بھائیوں کو گلی میں کھیل کود سے واپس بلاتیں اور ابا کے لئے کھانا بنانے کی تیاری کرتیں۔ راتوں کو اٹھ کے روتیں اور ان کے لئے سونا مشکل ہوتا۔ بہت دوائیں تھیں اور ان کے سائڈ ایفکٹ تھے۔ اب امی بستر سے نہیں اٹھ سکتیں تھیں ہر طرح کی ضرورت کے لئے دوسروں کی محتاج تھیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا، آپ کیا کر رہی ہیں، جواب دیتیں تسبیح پڑھ رہی ہوں۔ تسبیح پڑھنا انہیں کبھی نہ بھولا۔

ان کے رخصت ہونے پہ میں بہت دلگیر تھی آنسو نہیں رک رہے تھے۔ میری چھوٹی بیٹی میرے پاس آئی اور بولی ”امی! آپ کو معلوم ہے نا کہ نانی اماں، اپنے بہت سے ادوار میں ایک ہی وقت میں ہوتی تھیں کبھی وہ نوعمر لڑکی ہوتیں تھیں، کبھی ایک جوان عورت اور کبھی ایک بڑھیا۔ امی! وہ قید تھیں اپنے بوسیدہ جسم میں اپنی سانسوں کے ساتھ۔ کروٹ لینے تک کے لیے وہ دوسروں کی محتاج تھیں۔ کیا آپ انہیں مزید روکنا چاہتیں تھیں امی۔ آپ ان کے لئے سوچیں۔ اگر آپ کو کوئی پیمپر پہنا کے بستر پہ لٹا دے اور آپ کو کچھ سمجھ بھی نہ آے تو آپ کیسا محسوس کریں گی۔ آپ شکر کریں وہ ایک اذیت ناک زندگی سے آزاد ہوئیں“
اور میں نے اپنے آنسو پونچھ لئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).