نوآبادیاتی راج میں کشمیر فروخت کرنے کی کہانی


کشمیر (آزاد و مقبوضہ) کی شمالی حدود روس (سوویت یونین) اور چین کی سرحدوں سے ملتی ہیں۔ شمالی مغرب کی حدود پاکستان کے فرنٹیئر اور پنجاب سے ملحق ہیں۔ جنوب مشرق کا کچھ حصہ بھارت سے ملتا ہے۔ جنوب اور مغرب میں گلگت بلتستان ہے۔

یہ نقشہ تو قدرتی تھا لیکن سامراج کے نوآبادیاتی منصوبے کی لپیٹ میں آگیا۔ نوآبادیاتی عہد کی اس داستان کا آغاز سکھوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ سے ہوتا ہے۔ 1839 ء میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد پنجاب میں سکھ سلطنت کے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سے قبل ستلج کے محاذ پر انگریز سکھوں کے مقابل پر آچکے تھے۔ نومبر 1845 ء میں اینگلو سکھ جنگ ہوئی جس میں سکھوں کو شکست ہوئی اور اس شکست کا فائدہ رنجیت سنگھ کے درباری گلاب سنگھ کو ہوا، 1841 ء میں افغانیوں کے ساتھ انگریزوں کی محاذ آرائی میں گلاب سنگھ نے انگریزوں کی مدد کی تھی جس کے باعث گلاب سنگھ کی انگریز افسران کے ساتھ اچھی علیک سلیک تھی۔ جب انگریزوں کی سکھوں سے جنگ چھڑی تو گلاب سنگھ کو کمانڈ سونپی گئی۔

گلاب سنگھ نے اپنی فوج کو حکم جاری کیا کہ انگریز فوج پر اُس وقت تک حملہ نہیں کرنا جب تک وہ میدان جنگ میں نہیں پہنچ جاتا، تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ گلاب سنگھ اپنی فوج کے پاس نہیں پہنچاتھا اور انگریز نے حملہ کر کے سکھ فوج کو زیر کر لیا۔ اس جنگ کے اختتام پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں پر جنگ کی ذمہ داری عائد کر کے ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے جنگی معاوضہ ادا کرنے کے لیے لاہور دربار پر دباؤ ڈالا۔ راجہ دلیپ سنگھ کے پاس یہ بھاری معاوضہ ادا کرنے کے لیے رقم ہی دستیاب نہیں تھی۔ کمپنی نے یہاں پر دلیپ سنگھ کو استعماری منصوبہ پیش کیا اس منصوبے کے مطابق؛”مہاراجہ کو کہا گیا کہ اگر ڈیڑھ کروڑ روپے معاوضہ ادا نہیں کیا جاسکتا تو کشمیر برطانوی راج کے حوالے کر دیا جائے“۔

لاہور دربار نے ڈیڑھ کروڑ روپے کی ادائیگی کے بجائے دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے علاقہ جات کی برطانیہ حوالگی پر آمادگی ظاہر کی جسے انگریز سرکار نے قبول کر لیا۔ اس ضمن میں 9 مارچ 1846 ء میں راجہ دلیپ سنگھ اور برطانیہ کے درمیان تحریری معاہدہ ہوا جسے معاہدہ لاہور کہا گیا۔ اس تحریر میں گلاب سنگھ کی پس پشت انگریز وفاداری کا راز اُس وقت عیاں ہوا جب معاہدے میں یہ شامل کیا گیا کہ لاہور دربار راجہ گلاب سنگھ کو ہلز ڈسٹرکٹس میں خود مختار حکمران تسلیم کیا جائے گا۔ 16 شقوں پر مشتمل اس معاہدے کی شق نمبر تین میں لکھا گیا؛

”حکومت برطانیہ نے لاہور دربار سے ڈیڑھ کروڑ روپے جنگی معاوضہ طلب کیا ہے، حکومت یہ معاوضہ ادا کرنے سے قاصر ہے، لہذا مہاراجہ نے کمپنی کو ان پیسوں کے عوض اپنے تمام قلعوں، دریائے راوی اور دریائے بیاس سمیت کشمیر اور ہزارہ کی حوالگی کرے گی“۔

معاہدہ لاہور میں سکھ سلطنت کی فوج اور دریاؤں کی راہداری کو بھی انگریز نے اپنے کنٹرول میں لے لیا اور برطانیہ کو ضرورت پیش ہوگی تو لاہور کے راستے وہ اپنی افواج انگریز کے زیر انتظام علاقوں میں بھیجنے کے لیے خود مختار ہوگا۔ یہ معاہدہ آج تاریخ و سیاست کے طلباء کو ضرور پڑھنا چاہیے اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔

لاہور دربار کے ساتھ اس معاہدے کے سات روز بعد 16 مارچ 1846 ء میں برطانوی سرکار نے گلاب سنگھ کے ساتھ معاہدہ کیا جسے معاہدہ امرتسر کہا گیا۔ معاہدے کی پہلی شق میں واضع طور پر کہا گیا کہ معاہدہ لاہور کے تحت پہاڑی علاقہ جات گلاب سنگھ کے حوالے کیے جارہے ہیں۔ دس شقوں پر مشتمل اس معاہدے کی شق نمبر تین میں لکھا گیا؛

”گلاب سنگھ کو ان علاقوں (کشمیر) کی منتقلی کے عوض حکومت برطانیہ کو 75 لاکھ روپے (نانک شاہی روپیہ) ادا کرنا ہوگا اس میں سے پچاس لاکھ روپے یکم اکتوبر 1846 ء تک لازمی طور پر ادا کرنا ہوگا“۔

چنانچہ 16 مارچ 1846 ء میں 84،471 مربع میل میں بسنے والی کشمیر کی 20 لاکھ آبادی کو انگریز سرکار نے صرف 75 لاکھ روپے کے عوض فروخت کر دیا گیا۔ انگریز راج کے اس سفاک ترین معاہدے میں ایک کشمیری کی قیمت 3 روپے 75 پیسے لگائی گئی جبکہ 0،45 پیسہ فی مربع زمین گلاب سنگھ کو فروخت کر دی گئی۔ اس معاہدے میں گلاب سنگھ کو انگریز کی وفاداری کا پاپند بنایا گیا، انگریزوں کی فوجی معاونت کا پاپند بنایا گیا اور برٹش سرکار کی اجارہ داری کو تسلیم کرنے کا پاپند بنایا گیا۔ کشمیریوں کو غلامی کی زندگی میں دھکیلنے کا یہ جُرم انگریز نے کیا جس کی قیمت آج تک کشمیری ادا کر رہے ہیں۔ اس معاہدے پر ہنری منٹگمری لارنس نے دستخط کیے۔

انگریز سرکار نے ہندستان میں جن جن علاقوں کو فتح کیا اس میں انھیں مقامی غدار میسر رہے جنگ پلاسی میں اپنے ہی فوجی کمانڈر میر جعفر نے سراج الدولہ کو شکست دلوائی۔ پھر اسی میر جعفر کو اپنے وزیر میر قاسم نے شکست دلوائی یوں پورا بنگال انگریز کے قبضے میں چلا گیا۔ پنجاب کے قریشی، گیلانی، گردیزی، مزاری اور کھوسوں نے 1857 ء کی جنگ آزادی میں انگریز وفاداری کے عوض اسے شکست میں بدل دیا۔ تاریخ کی یہ داستان بہت المناک ہے جسے اس دھرتی کے غداروں نے سینچا ہے۔

انگریزوں کی جانب سے اس معاہدے کے بعد رواں سال ہی اینگلو سکھ جنگ کے اختتام پر 29 مارچ کو انگریزوں اور سکھوں کے درمیان ایک اور معاہدہ لاہور ہوا جس میں جموں، کشمیر، ہزارہ اور دیگر علاقہ جات اب سکھ سلطنت کا حصہ تصور نہیں ہوں گے۔

سکھوں کی سلطنت کا بالاخر تین سال بعد 29 مارچ 1849 ء کو ہوا اور پنجاب پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا۔ پانچ شقوں پر مشتمل اس معاہدے کی پہلی شق یہ تھی؛

”عزت ماب مہاراجہ دلیپ سنگھ اپنے عہدے سے خود استعفیٰ دیں گے، اپنے تمام اختیارات پنجاب کی خود مختاری سے دستبردار ہوں گے“۔

شق نمبر دو کے مطابق؛

”پنجاب سلطنت کی تمام پراپرٹی ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر دی جائے گی اور سٹیٹ آف لاہور کے ذمہ واجب الادا قرضہ جات اور جنگی اخراجات برطانوی حکومت کو ادا ہوں گے“۔

تیسری شق؛

”ہیرا جو کوہ نور کہلاتا ہے، جو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع الملک سے چھینا تھا مہاراجہ آف لاہور اس کی ملکیت سے دستبردار ہو کر اسے ملکہ برطانیہ کے سُپرد کریں گے“۔

چوتھی شق؛

”عزت ماٰب جناب دلیپ سنگھ اور اس کے رشتے داروں، ریاست کے نوکروں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے سالانہ 4 لاکھ روپے اور زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ روپے پنشن دی جائے گی“۔

پانچویں شق؛

”ہز ہائی نس کے ساتھ عزت اور باوقار طریقے سے پیش آیا جائے گا، مہاراجہ دلیپ سنگھ بہادر کا خطاب ان کے پاس رہے گا اور تاحیات انھیں مذکورہ پینشن کی رقم ادا کی جاتی رہے گی، اور وہ حکومت برطانیہ کے وفادار رہیں گے، اور گورنر جنرل اُن کی رہائش کے لیے جس جگہ کا انتخاب کریں گے وہ بخوشی وہاں رہیں گے“۔

اس معاہدے کی توثیق گورنر جنرل نے 5 اپریل 1849 ء کو اپنے دستخطوں کے ساتھ کی۔ اس معاہدے پر سکھ حکومت کی جانب سے انگریزوں کے وفادار سید خاندان کے جد امجد فقیر نور الدین کے بھی دستخط ہیں۔

آہ! پنجاب پر انگریز راج کا جھنڈا لہرا دیا گیا، سکھوں کی سلطنت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور کشمیریوں کو بھی انگریزوں نے گلاب سنگھ کی غلامی میں فروخت کر دیا، درج شدہ تاریخ میں انسانوں کو بطور غلام اتنے سستے فروخت کرنے کی ایسی کوئی تاریخ نہیں ملتی۔

کالم کے دوسرے حصے میں ہم ذکر کریں گے کہ انگریز راج نے گریٹ گیم کے تناظر میں کیسے کشمیر کو استعمال کیا اور موجودہ کشمیر کو اس نہج تک پہنچانے میں انگریز کے خفیہ منصوبوں کی اگلی داستان کیا ہے۔ جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).