او آئی سی میں بھارت کی شرکت: غیرمقبول مگر بولڈ فیصلوں کا وقت


پاکستان کے لیے یقیناً یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا مگر ان حالات میں شاہد کوئی اور چارہ کار بھی نہیں تھا۔ سفارتی سطح یہ ایک توہین آمیز اقدام ہے کہ او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل میں بھارت کو رکن نہ ہونے باوجود مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا جائے۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب او آئی سی کا ایک بانی اور اہم ترین رکن پاکستان بھارتی جارحیت کا شکار ہو اور دونوں ملک جنگ کے دھانے پر ہوں مگر تنظیم اپنے رکن ملک کے احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے با اثر ممبران کی رائے کو ترجیح دے۔ او آئی سی پر عرب ممالک کی اجارہ داری پر آج تصدیق کی مہر ثبت ہو گئی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان قومی وقارکی خاطر اہم قدم ہے۔ اس کے بعد بھی او آئی سی کے رکن ممالک کو ایک واضح پیغام جانا از حد ضرور ی ہے۔ سابق صدر زرداری کی یہ دلیل کہ لاتعلقی کسی مسئلے کا حل نہیں اپنی جگہ پر درست مگر پاکستان کا او آئی سی اجلاس میں شریک نہ ہونے کے فیصلے کو بھی قوم کی اکثریت کی تائید حاصل ہے۔ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں بجا طور پر کہا کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ بلا شبہ گھر درست کیے بغیر آواز میں تاثیر ممکن نہیں۔

بار ہا یہ ثابت ہوا ہے کہ جن عرب ممالک کے لئے ہم نے علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے تعلقات قربان کیے، بیرونی اور اندرونی دباؤ سہا، ان کے نزدیک ہماری اہمیت ایک مزدور سے زیادہ نہیں۔ ان کا سفارتی سطح پر بھی رویہ وہی ہے جو افراد کی سطح پر ہے۔ بھارتی جارحیت کا شکار پاکستان کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کو او آئی سی اجلاس میں مدعو کرنا اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ او آئی سی پر عربوں کا وہی اجارہ ہے جو کسی دور میں اقوام متحدہ پر امریکہ کا تھا اور عربوں کے لیے تنظیمی اصولوں سے زیادہ اہم ملکی معاشی تعلقات ہیں۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی خاطرپاکستان نے آج تک سفارتی سطح پراسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا مگر وہ خود پہلے در پردہ اور اب کھلم کھلا باہمی تجارتی و سفارتی تعلقات کی پینگیں ڈال رہے ہیں۔ ان حالات میں جب او آئی سی کے لگ بھگ بیشتر ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی اورتجارتی بندھن میں بندھ چکے ہیں، پاکستان کی اسرائیل سے لاتعلقی چہ معنی دارد؟

پاکستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ رکھ کر بھی اس کے عالمی تعلقات یا کاروبار کو کس حد تک متاثر کر سکتا ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کا زیادہ فائدہ پاکستان کو ہو گا۔ اسرائیل پاکستان کو ٹیکنالوجی، دفاع اور زراعت کے شعبے میں بے انتہا فائدہ دے سکتے ہیں۔ اگر عرب ممالک پاکستان کے احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے او آئی سی اجلاس میں بھارت کا دعوت نامہ منسوخ یا کم از کم پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے تک اجلاس ملتوی نہیں کر سکتے تو پاکستان کو بھی علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔

گزشتہ دونوں سابق صدر پرویزمشرف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس حوالے سے کافی اچھی تجاویز دی تھیں ان کو زیر غور لانا چاہے۔ صدر مشرف یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں ترکی کے ذریعے پاکستان اور اسرائیل کی وزرائے خارجہ کی سطح پر ملاقات ہو چکی ہے اور اس میں اسرائیل نے کافی گرمجوشی دکھائی تھی۔ عمران خان کی کابینہ میں مشرف کے کئی وزراء اور قریبی ساتھی شامل ہیں۔ مشرف دور کی خارجہ پالیسوں کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جا سکتا ہے جہاں ٹوٹا تھا اور اس طرح کا بولڈ فیصلہ عمران خان جیسا سر پھرا ہی کر سکتا ہے۔

بھارت نے پاکستان دشمنی میں سارک جیسے اہم علاقائی فورم کو عضو معطل بنا دیا ہے۔ اب او آئی سی میں انٹری سے یہاں بھی پاکستان کی حثیت ثانوی ہو جائے گی۔ بیشتر علاقائی تنظیموں میں بھارت پاکستان کو غیر موثر کرنے کے لیے کوشاں ہے اور ان حالات میں جب پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جا رہا، پاکستان کو دیگر ممالک اور تنظیموں کے ساتھ اپنی وابستگیوں کا ازسرنو جائزہ لینا ہو گا۔ علاقائی تنظمیوں میں اپنی حیثیت کا جائزہ لے کر کچھ بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے مگر اس سے پہلے لازمی طور پر اپنے گھر کی صفائی کرنا ہو گی۔

صدرٹرمپ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں اور وہ اس کا بار ہا اظہار کر چکے ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اس سال عمران خان اور ٹرمپ کی ملاقات متوقع ہے۔ اگرچہ غالب امکان یہی ہے کہ ملاقات واشنگٹن ڈی سی میں ہو، تاہم اگر عمران خان تھوڑی سی کوشش کریں تو یہ ملاقات اسلام آباد میں بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہو رہی ہے۔ چین کے تعلقات پاکستان کے ساتھ ہمیشہ کی طرح مثالی ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی خواہش کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان ایک قدم بڑھائے تو اسرائیل تین قدم چل کے آئے گا۔

دامن صاف، ارادے خالص اور لہجہ واضح ہو تو مقابل بھی دوستی کے لیے بڑھے ہاتھ کو نظر انداز کرتا ہے نہ جھٹکتا ہے۔ پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر چین، روس، امریکہ اور اسرائیل جیسی طاقتوں کے ساتھ بیک وقت بہتر تعلقات پیدا کر سکتا ہے اور ان تعلقات کی بنیاد پر ان ممالک کو قریب لانے اور ان کے مفادات کے تصادم کو اپنے لیے مواقع میں بدل سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے محض تدبر نہیں تھوڑا پاگل پن بھی درکار ہے جو حادثاتی طور پر یا اتفاق سے اس وقت پاکستان کو میسر ہے۔

تاریخ کا رخ پلٹنے کے لیے کچھ کڑوے گھونٹ پینا پڑتے ہیں اور کچھ غیر مقبول فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ تاہم ان غیر مقبول فیصلوں کے دیرپا نتائج سب کے لئے مفید ہوتے ہیں۔ پاکستان تاریخ کے جس دوراہے پر کھڑا ہے اس کے سامنے دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ اپنی روایتی خارجہ پالیسی جاری رکھے اور سابقہ تعلقات کی بنیاد پر قرضوں کے زور پر ملک کی تقدیر بدلنے کی کوششیں جاری رکھے۔ تاہم اس میں کامیابی کے امکانات انتہائی کم ہیں۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ کچھ کڑوے گھونٹ پی کر اور بولڈ فیصلے لے کر علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرتے ہوئے امہ کا ٹھیکیدار بننے کے بجائے اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی سالمیت اور استحکام کے پیش نظر فیصلہ کرے۔ تاہم اس میں بنیادی نکتہ ملحوظ رہے کہ ریاستی اختیارات کی نجکاری اور فرنچائزیشن کے ہوتے ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ دامن پر لگے داغ دھلنے میں وقت ضرور لگتا ہے مگر نیت خالص اور ارادہ مصمم ہو تو سیاہ کو سفید ہوتے بھی وقت نہیں لگتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).