افسوس! کپتان چھکا لگانے کے بعد ہٹ وکٹ ہو گئے


ایک ایسا شخص شومی قسمت سے اگر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو کر سیاہ و سفید کا مالک بن کر ملک کے نازک اور حساس معاملات پر فیصلے کرنے کا اختیار استعمال کرنا شروع کردے جو اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے اس درجہ انتہا پسندانہ رویے کا حامل ہو کہ ایک طرف عین حالت جنگ میں اپنے بدترین دشمن کے گرفتار افسر کو اگلے ہی دن اس ملک کے حوالے کردے مگر دوسری طرف جنگ سے نمٹنے کے لیے بلائے جانے والے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران اپوزیشن راہنماؤں سے ہاتھ تک ملانے کا روادار نہ ہو تو خدانخواستہ مرعوبیت اور خودداری کے عجیب و غریب ملغوبے کا حامل یہ شخص ملک و قوم کے لیے کس قدر نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔ علامہ اقبال نے تو مرد مومن کی کمال خوبی ہی یہ بتائی تھی کہ

ہو حلقہء یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

مگر ہمارا یہ مرد مومن اس شعر کے بالکل الٹ کام کر رہا ہے۔ یہ حلقہء یاراں میں فولاد کی طرح سخت اور بے لچک جبکہ رزم حق و باطل میں بصورت ریشم نرم و ملائم ہو جاتا ہے۔ قوم بھارت کے بالاکوٹ پر فضائی حملے کے جواب میں پاک فضائیہ کی شاندار کارروائی کے نتیجے میں بھارت کے دو جنگی طیاروں کے مار گرانے کی خبر پر ابھی خوشیاں ہی منا رہی تھی اور نفسیاتی طور پر برتری نہ سہی بھارت سے برابری کی سطح پر جواب دینے کا حوصلہ مندانہ احساس تفاخر ابھی پوری طرح جاگزیں ہوا بھی نہیں تھا کہ پیچیدہ شخصیت کے حامل ہمارے کپتان نے پتہ نہیں کس کے کہنے پر انڈین پائلٹ ابھے نندن کو انڈیا کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔

انتہائی سرعت اور عجلت سے کیے جانے والے اس اعلان سے قطع نظر طرفہ تماشا یہ ہے کہ ابھی بھارتی حکومت کی طر ف سے اپنے پائلٹ کی حوالگی کی کوئی رسمی درخواست بھی نہیں آئی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ کپتان کی اس یک طرفہ خیر سگالی اور فدویانہ طرز عمل کے جواب میں مودی سرکار کی طرف سے جھوٹے منہ بھی اظہار تشکر نہیں کیا گیا۔ کپتان اگر جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو انہیں پتہ چلے گا کہ جنگ صرف میدان کارزار میں ہی نہیں لڑی جاتی بلکہ اعصابی اور نفسیاتی جنگ اصل جنگ ہوتی ہے جس میں برتری حاصل کرنا زیادہ اہم ہوتا ہے اورجنگ کے ہنگام کسی بھی فیصلے کی نوعیت اور ٹائمنگ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

نفسیاتی برتری اور قوم کے مورال کو سربلند رکھنے کے لیے بعض ایسے فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں جو بین الاقوامی اخلاقیات اور سفارتی تقاضوں سے ہٹ کر خالص ملکی مفاد اور قومی وقار کے پیش نظر کرنا ہوتے ہیں۔ 1999 کی کارگل کی مہم جوئی سراسر ایک غلط اور عالمی اصولوں کے یکسر منافی اقدام تھا اس وقت شدید دباؤ اور تناؤ کے باوجود ہم نے ایک انڈین پائلٹ کی ہلاکت کے بعد دوسرا گرفتار پائلٹ کم ازکم دس دن تو اپنے پاس رکھا تھا اور بھارت کی باقاعدہ درخواست پر اس کے حوالے کیا تھا۔

کپتان جو ریاست مدینہ کی مسلسل بات کرتے رہتے ہیں کم از کم اسیران غزوہ بدر کا احوال ہی پڑھ لیتے کہ جس میں نبی پاک نے قیدیوں کی رہائی کے بدلے کتنے سیاسی، علمی اور سماجی و معاشرتی فوائد سمیٹے تھے۔ کپتان کے حامی کہتے ہیں کہ کپتان کے اس اقدام سے ہمیں اخلاقی اور سیاسی برتری حاصل ہوئی ہے۔ یہ کیسی برتری ہے کہ جو ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کر رہی ہے؟ سپاہی مقبول جان اور سال ہا سال سے سات لاکھ بھارتی فوج سے نبرد آزما کشمیریوں ہی کے جذبات کا کچھ خیال رکھا ہوتا۔

خیر سگالی کا بظاہر خوش کن مظاہرہ اپنی جگہ مگر مودی سے اتنی یقین دہانی ہی لے لیتے کہ وہ اب ملکی سالمیت پر حملہ نہیں کرے گا۔ اخلاقی برتری کا اتنا ہی شوق ہے تو جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو بھی بھارت کے حوالے کر دیں جو دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے انڈیا کی قید میں تھا جسے 1998 میں اس کے بھائی نے انڈین ائیر لائنز کا طیارہ اغوا کر کے چھڑایا تھا۔ اس وقت کی حکومت نے انڈیا کو لکھ کر دیا تھا کہ آپ کا مجرم جب بھی ہاتھ لگا آپ کے حوالے کردیا جائے گا۔

حافظ سعید جیسے پرائیویٹ لشکروں کے سرغنے کو پابند سلاسل کر کے بھی عالمی اخلاقیات کا بھرم رکھا جا سکتا ہے جنہوں نے ریاست کی جان آفت میں ڈال رکھی ہے۔ اتنی جلدی تو پٹاخہ بھی نہیں پھٹتا جتنی جلدی آپ کا پتہ پانی ہو گیا۔ اتنی جلدی تو پھلجڑی بھی نہیں چھوٹتی جتنی جلدی آپ نے یہ فیصلہ کر دیا۔ دو انڈین جہاز گرانے کے بعد یہ فیصلہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کپتان چھکا لگا کر ہٹ وکٹ ہو جائے۔ ادھر تماشائی زوردار چھکے پر داد دینے کے لیے اچھلیں مگر اگلے ہی لمحے کپتان کے بیٹ سمیت وکٹوں پر گرنے کا منظر دیکھ کر کف افسوس ملتے رہ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).