ابھے نندن ورتھمان، پریانکا چوپڑا اوراخلاقی فتح


سات اکتوبر دوہزار سولہ، انہیں صفحات پر خاکسار نے اپنے کالم ”پاک بھارت جنگ ناگزیر ہے“ میں عرض کیا تھا کہ ”آخری بار پاکستان اور بھارت کے درمیان جو نتیجہ خیز مذاکرات ہوئے تھے وہ وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹواور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے درمیان ہوئے تھے۔ نصف صدی ہونے کو آئی ہے لیکن وزیراعظم میاں نواز شریف اوربھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورمیں ایک مختصر وقفے کے علاوہ دونوں ملکوں کے تعلقات کبھی خوشگوارماحول کی عیاشی کی مرتکب بھی ہوئے ہوں تو طالب علم کی معلومات میں اضافہ کیجئے“۔ اسی کالم میں خاکسار نے یہ کہنے کی جسارت بھی کی تھی کہ ”دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت (خاص طورپر مذاکرات میں ناکامی کی ذمہ دار بھارتی قیادت ہے ) بات چیت کے ذریعے اپنے تنازعات حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں توصرف تعلیم یافتہ اور منظم قومیں ہی اپنے تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کی سکت رکھتی ہیں لیکن جہاں عوام کی بڑی تعداد خود جہالت اور پسماندگی کا شکار ہو وہاں جہاندیدہ قیادت ابھرنے کے امکانات بہت زیادہ روشن نہیں ہوتے اور ایسے معاشروں میں فیصلے تلوار کی نوک سے ہی ہوتے ہیں“۔

https://www.humsub.com.pk/27427/khawaja-kaleem-31/

پچیس دسمبر 2015 کو نریندر مودی اچانک لاہور میں وزیراعظم محمد نواز شریف کی رہائش گاہ پہنچے تھے جس پر بعض عاقبت نا اندیشوں نے ”مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے“ کی پھبتی کسی تھی۔ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آنے کی ایک مبہم سی امید ہو چلی تھی لیکن پھر اٹھارہ ستمبر 2016 کے دن بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے اُڑی میں چارآزادی پسندوں کے ایک حملے میں انیس بھارتی فوجیوں سمیت تئیس افراد جان سے گئے۔ اُڑی حملے کے بعد نئی دلی سرکار کے بیانات اور لائن آف کنٹرول پر گولہ باری سے کم وبیش وہی حالات پیدا ہو گئے تھے جو پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہوئے۔

چھبیس فروری کی صبح تین بجے کے لگ بھگ جب بھارتی طیاروں کے بالاکوٹ میں حملے کی اطلاعات پاکستانی قوم کو پہنچیں تو شہریوں میں بھارت کے خلاف سخت غصہ پایا جاتا تھا۔ لائن آف کنٹرول پر گولہ باری تو اب معمول بن چکی لیکن بھارتی جنگی طیاروں کا بین الاقوامی سرحد پار کر کے حملہ کرنا (جو ناکام رہا) ایک غیر معمولی حرکت تھی جس کی وجہ سے پاکستانی حکومت اور فوج کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ بھارتی طیارے کیسے صحیح سلامت واپس چلے گئے؟ حکومت اور فوج واضح طور پر عوامی دباؤ میں تھی کہ اس حملے کا جواب دیا جائے۔ وزیراعظم کی زیرصدارت ایک انتہائی اعلیٰ سطح اجلاس کے بعد ”جواب دیا جائے گا“ کا پیغام دیا گیا تو قوم کو کچھ امید بندھی تھی۔ ستائیس فروری کی صبح دس بجے کے قریب میں لاہور روانگی کے لئے تیار تھا جب بھارتی جنگی طیاروں کے حملے اور پاکستانی فضائیہ کی طرف سے دوطیارے گرائے جانے کی اطلاعات فوٹیج سمیت موصول ہوئیں۔ بعد میں پائلٹ کی گرفتاری اور شناخت بھی واضح ہوگئی۔ ظاہر ہے بھارتی فوج اور حکومت کا مورال کافی گر گیا اور سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں نے بھارتی فوج کو جگتوں کے نشانے پر رکھ لیا۔ اٹھائیس فروری کووزیراعظم عمران خان نے بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھے نندن کی رہائی کا اعلان کیا تو بھارتی میڈیا نے اسے پاکستان پر دباؤ کا نتیجہ قرار دیا۔ یہ تحریر لکھتے ہوئے اطلاع ملی ہے کہ بھارتی پائلٹ کو بھارتی حکام کے حوالے کیا جا چکا ہے۔

پاکستانی قوم کی اکثریت اس فیصلہ سے خوش نہیں اور اس فیصلے پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ یہ تنقید کچھ حلقوں کے لئے شدید بے چینی کا باعث ہے اور وہ جنیوا کنونشن، انسانی ہمدردی، امن اور اخلاقی فتح کا راگ الاپتے ہوئے پاکستانی حکومت کے اس فیصلے کی تحسین میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ لیکن حرام ہے جو ان عناصرکو بھارتی ریاست راجستھان کے شہر جے پور کی سنٹرل جیل میں قتل کیے جانے والے پاکستانی کا نام بھی معلوم ہو۔ بے نوا شاکراللہ کی میت ابھی تک پاکستان کے حوالے نہیں کی گئی۔ ذاتی طورپر میں یہ سمجھتا ہوں کہ طاقت کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اور جنگ کے اپنے اصول، دنیا کی تاریخ میں لڑی جانے والی تمام تر جنگوں کے اصولوں کی بنیاد پنجابی کے قول ”ڈھاڈیاں دا ستی وی سو اے“ پر رکھی گئی ہے، اردو میں اسے ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ اور انگلش میں مائٹ از رائٹ کہا جاتا ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ جنگی قیدیوں کوآخر کار واپس ہی کرنا ہوتا ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ابھے نندن کو چھوڑنے کی اتنی جلدی کیا تھی۔ خدا کرے میرایہ خدشہ غلط ثابت ہو کہ ابھے نندن بھی نئی دلی میں وہی بولی بولے جو کشمیر سنگھ نے واہگہ کی سرحد پار کرتے ہی بولی تھی، ہاں مگر کمبامپتی نچکیتا کی بات اور ہے۔

ابھے نندن کو رہا کیے جانے کے پاکستانی فیصلے کو بھارتی ذرائع ابلاغ اور عوام کی اکثریت پاکستان پر بھارت اور عالمی برادری کے دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ باقی تو ایک طرف اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی ”گڈول ایمبیسیڈر“ بھارتی ادکارہ پریانکا چوپڑہ کی ٹوئٹ بھی جلتی پر تیل کے مترداف ہے جس پر شہریوں کی بڑی تعداد نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پریانکا چوپڑا سے اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر کا عہدہ واپس لیا جائے۔

قلیل ہی سہی بھارت میں ایسے حلقے بھی موجودہیں جو اپنی حکومت کے جنگی جنون سے نالاں ہیں اور اپنی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے بعض حلقوں میں یہ بات بھی تسلیم کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو اخلاقی فتح حاصل ہو ئی ہے لیکن سیاسیات کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میرا سوال یہ ہے کہ بھائی لوگو جنگ کی کون سی اخلاقیات ہوتی ہیں؟ کیا بین الاقوامی معاملات اور پھر وہ بھی پاکستان اور بھارت جیسے پیچیدہ ملکوں کے تعلقات کبھی اخلاقی اصولوں کے تحت استوار ہوئے ہیں؟ آپ نے اعلیٰ اخلاقیات کا مظاہرہ کیا اور تب سے فون کے ساتھ لگے بیٹھے ہیں کہ شاید مودی جی فون سن لیں۔ لیکن کہاں؟ مودی جی تو ابھے نندن کو ٹوئٹر پر واپسی کی سلامی دے کر انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ سوچتا ہوں ایک وقت تھا جب اٹل بہاری واجپائی واہگہ کے راستے بس پر بیٹھ کر لاہور پدھارے اور دوستی کی بنیاد رکھی ہی جا رہی تھی کہ پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ پھر کھٹمنڈو میں خود واجپائی کی نشست پر جاکر مذاکرات کی درخواست کرنی پڑی۔ ایک وقت وہ تھا کہ مودی خود چل کر وزیراعظم سے ملنے لاہور آیا تھا لیکن اس گستاخی پر وہ وزیراعظم آج بھی پوچھ رہا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ دعوے ہم یہ کر رہے ہیں کہ بھارت دنیا میں سفارتی تنہائی کا شکار ہے لیکن عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ کسی مسلمان ملک نے بھارتی جارحیت کی مذمت تک نہیں کی۔ او آئی سی کا بانی پاکستان او آئی سی کے اجلاس سے باہر ہے اور ”صدیوں پرانے مذہبی رشتے دار“ بھارتی وزیر خارجہ سُشما سوراج کو ”اوہ! آئی سی“ میں گلے لگا رہے ہیں۔

ابھے نندن واپس جا چکا، بظاہر معاملات کارگل جنگ کے بعد کی طرح معمول پر نظر آتے ہیں لیکن میر ا خدشہ اب بھی وہی ہے ”جہاں عوام جہالت اور پسماندگی کا شکار ہوں وہاں جہاندیدہ قیادت ابھرنے کے امکانات روشن نہیں ہوتے اور ایسے معاشروں میں فیصلے تلوار کی نوک سے ہی ہوتے ہیں“۔ زندگی امید پر قائم ہے، آئیے ڈاکٹر سجاد نعیم کے الفاظ پر غور کریں۔

اوس ورقے تے پہنچن توں پہلاں
جھتے اکھر ”جنگ“ لکھیا اے
بچ بچا کے اگلا ورقہ تھلیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).