پاک بھارت تنازعہ: خیرسگالی کا مثبت اظہار اور سفارتی ٹھوکر


پاکستان نے وزیر اعظم عمران خان کے اعلان کے مطابق لائن آف کنٹرول کے قریب بدھ کوگرفتارکیے گئے بھارتی پائیلٹ ابھے نندن کو رہا کردیا ہے۔ اس دوران پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ابوظہبی میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت سے انکار کیا ہے۔ اب ایک کم تر درجے کا وفد اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کررہا ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے او آئی سی کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات سے اس بارے میں بات کی تھی تاکہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو مہمان خصوصی کے طور پر بلانے کی دعوت واپس لی جائے کیوں کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کرکے سنگین اقدام کیا ہے۔ تاہم پاکستان کی اس درخواست کو قبول نہیں کیا گیا۔ اس لئے پاکستان کے وزیر خارجہ اس اجلاس میں شرکت کے لئے نہیں گئے۔

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے اس فیصلہ کی حمایت کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے اسے نامناسب فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مشکل وقت میں دوست ملکوں کودور کرنے کی بجائے ان کے ساتھ روابط بڑھانے اور اپنا مؤقف پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان نے ابھے نندن کو رہا کرکے بھارت پر جو سفارتی برتری حاصل کی تھی، شاہ محمود قریشی کی طرف سے او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے اسے ضائع کردیا گیا ہے۔

ایک طرف پاکستان اس بات پر زور دیتا ہے کہ بھارت کو الزام تراشی اور تصادم کی بجائے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پلوامہ حملہ کے بعد اور پھر اس ہفتہ کے شروع میں لائن آف کنٹرول پر رونما ہونے والے سانحات کے بعد بھی اس بات کو دہرایا ہے کہ پاکستان بات چیت کے ذریعے سب مسائل حل کرنے پر یقین رکھتا ہے کیوں کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ بلکہ پاکستان کی پوزیشن میں اب یہ تبدیلی بھی کی گئی ہے کہ وہ دہشت گردی پر بھی بات چیت کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ منگل اور بدھ کو ہونے والی فضائی جھڑپوں اور اس کے دو مگ طیارے مار گرائے جانے کے واقعہ کے بعد سے بھارت نے فی الحال خاموشی اختیار کی ہے۔

کہا جاسکتا ہے کہ شاہ محمود قریشی اگر ابوظہبی میں ہونے والی او آئی اسی کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں شریک ہوتے تو وہ اس سفارتی و اخلاقی برتری کو جاری رکھ سکتے تھے کہ بھارت اگرچہ مذاکرات سے انکار کرتا ہے اور وہ اسلامی تعاون تنظیم کا رکن بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ اپنا مؤقف پیش کرنے کے لئے اس کے وزیر خارجہ خود اجلاس میں شریک ہونے آگئے ہیں۔ یہ صورت حال بھارت کے لئے شرمندگی اور خجالت کا سبب بنتی۔ لیکن پاکستان نے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے بھارت کو اس مشکل صورت حال سے بچا لیا ہے۔

دوسری طرف حکومت کی طرف سے شاہ محمود قریشی کو ابوظہبی نہ بھیجنے کا فیصلہ ایک طرف ملک میں بھارت کے خلاف بنی ہوئی فضا میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے تو دوسری طرف بھارتی جارحیت اور پاکستان دشمن پروپیگنڈا کے خلاف پاکستان کا احتجاج رجسٹر کروانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ (ن) کی طرف اس حکومتی فیصلہ کی تائید کے درپردہ بھی یہی حکمت عملی پوشیدہ ہے۔

تاہم ملک کے سیاست دانوں کو سمجھنا ہو گا کہ عوامی جذبات کو مثبت جانب موڑنا ہی لیڈروں کا کام ہوتا ہے۔ اگر ایک خاص طرح کی فضا میں جذباتی فیصلے کیے جائیں تو اس سے وسیع تر ملکی مفادات کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ اگر پاکستان نے بالآخر بھارت کے ساتھ بیٹھ کر بات ہی کرنی ہے اور یہی حکومت کا مطمح نطر بھی ہے تو او آئی اسی کے اجلاس سے ہی اس کا آغاز کیا جاسکتا تھا۔ بلکہ پاکستانی وزیر خارجہ اجلاس کے دوران ہی سشما سوراج کو یہ دعوت دے سکتے تھے کہ وہ اس کانفرنس کے دوران سائیڈ لائن پر اپنی بھارتی ہم منصب سے بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس کا منفی جواب بھارت کو سفارتی اور اخلاقی لحاظ سے مہنگا پڑتا۔

یوں تو تنازعات حل کروانے، اسلامی ملکوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اور باہمی دلچسپی کے اہم امور پر مشترکہ سیاسی مؤقف اختیار کرنے میں اسلامی تعاون تنظیم کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ فورم دنیا کے تمام مسلمان اکثریت والے ملکوں کا پلیٹ فارم ہے جہاں بعض اوقات ایسی قراردادیں بھی منظور ہوجاتی ہیں جنہیں اسلامی دنیا کی مشترکہ خواہش کا نام دیا جاسکتا ہے۔ گو کہ ان قراردادوں کو منظور کرنے والے ملک بھی اپنی عملی خارجہ پالیسی میں انہیں اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

اس کے باوجود اس فورم کی اس قدر اہمیت ضرور ہے کہ بھارت اپنی بڑی مسلم اقلیت کی بنیاد پر اس تنظیم کی رکنیت کا دعویدار رہا ہے۔ پاکستان کی کوششوں کی وجہ سے اسے ابھی تک او آئی سی کی رکنیت یا اس میں مبصر کادرجہ نہیں مل سکا۔ اگرچہ سشما سوراج کو او آئی سی وزرائے خارجہ کے 46 ویں اجلاس میں مہمان خصوصی کے طور پر ہی مدعو کیا گیا ہے اور بھارت کا اسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ کوئی باقاعدہ تعلق نہیں۔ تاہم سشما سوراج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کا مقدمہ زیادہ شدت سے پیش کرسکیں گی۔ بلکہ ان کا بلایا جانا بجائے خود اس بات کا اشارہ ہے کہ او آئی سی کے بعض طاقت ور ارکان بھارت کو اس ادارے کا حصہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بھارت اس فورم کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali