شوخا چوہا اور بیدار سبز جنگل


پیارے بچو۔ !

اس دنیا میں ایک بہت خوبصورت خطہ اراضی پر مشتمل بہت خوبصورت جنگل آباد تھا۔ اس کی زرخیز زمین، سرسبز وشاداب، نباتات سے بھرپور، پہاڑ، ندیاں، نالے اللہ کی ہر نعمت موجود تھی۔ لیکن جنگل واسیوں میں اتفاق نہیں تھا۔ شریر جاندار کثرت میں تھے۔ ان کو معصوم جانداروں سے سخت پرخاش تھی۔ جب بھی جہاں بھی موقع ملتا وہ ان معصوم جانداروں کا شکار کر لیتے۔ طرح طرح سے نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جنگل تقسیم ہو گیا۔

بڑا حصہ تو شریروں کے پاس رہا اور معصوم جانداروں کے حصے میں ایک چھوٹا سا پیارا سا خطہ آیا، جو بہت سرسبز و شاداب تھا۔ اب جبکہ بڑا حصہ شریروں کے پاس تھا مگر پھر بھی انہیں وہ چھوٹا سرسبز جنگل چاہیے تھا، جو معصوم جاندارں کے پاس تھا۔ وہ معصوم جانداروں کو دوبارہ سے غلام بنانا چاہتے تھے۔ آخر کار انہوں نے بہت چالاکی سے چھوٹے جنگل کے ایک خوبصورت خطے پر قبضہ کر لیا اور معصوم جنگل واسیوں پر ظلم کی انتہا کردی۔

اس چھوٹے سے خطے کے معصوم جاندار جنگل واسی خاصے امن پسند تھے لیکن جب مظالم کی انتہا ہوئی تو انہوں نے بھی مقابلے کی ٹھان لی۔ اب وہ انتقام لیتے تھے اور دھڑلے سے لیتے تھے۔ ایسے میں اک دن انہوں نے مخبر کی خبر پربڑے جنگل والے دشمن کے قافلے پر حملہ آور ہوکر دشمن جانداروں کی خوب خبر لی۔ بڑے جنگل والوں کو جب قافلے کے پِٹنے کی خبر ہوئی تو جلتے توے پر جا بیٹھے۔

بڑے جنگل کا بادشاہ ایک شوخا چوہا تھا۔ اس نے اودھم مچا دیا، آسمان سر پہ اٹھا لیا۔ اس کے ذہن نے یہ کام کیا کہ چھوٹے جنگل پر حملہ کیا جائے تباہی مچا کر اس چھوٹے جنگل کو بھی بڑے جنگل میں ملا لیا جائے اور پہلے کی طرح سارا جنگل ایک ہو جائے اور اس پر حکمرانی کریں شوخا چوہا اور اس کے حواری۔ شوخے چوہے کی شوخیاں عروج پر تھیں، بس دیوانے کی بڑ تھی اور کچھ نہیں۔ اس نے اپنے مشیروں، سفیروں سے مشاورت شروع کر دی۔ حکم جاری کر دیا کہ سب زمینی، آبی اور فضائی جاندار تیار رہیں، بطور فوج ان سے کام لیا جائے گا۔

زمینی جانداروں میں سے سب نے معذرت کی کہ میاں شوخے چوہے ہمیں تو تم معاف ہی رکھو ہم سے فساد نہیں ہوتے۔ شوخے چوہے نے بہتیرا انعام و اکرام کا لالچ دیا لیکن جانداروں نے ایک ناں مانی۔ ایسے میں گیدڑوں کی اک جماعت آگے بڑھی اور لالچ میں آکر خود کو جنگ کے لئے پیش کردیا۔ اب یہ تو شوخے چوہے کو بھی معلوم تھا گیدڑ کیا خاک جنگ کریں گے لیکن اپنے بیان سے مکر نہیں سکتا تھا تو گیدڑوں کی فوج کو تیاری کا حکم دے دیا۔ اب پانی کے جانداروں کا اجلاس طلب ہوا تو سب نے پہلے تو سمجھایا کہ میاں شوخے چوہے تم پنگا مت لو بہت برا ہوگا۔ لیکن شوخے چوہے نے سب جانتے ہوئے بھی ان کو جنگ میں جھونکنے کا فیصلہ کرہی لیا تھا تو مینڈکوں کی جماعت آگے بڑھی اور خود کو جنگ کے لئے پیش کردیا۔

پھر پرندوں کا اجلاس طلب ہوا تو سب پرندے غیر حاضر تھے، سوائے الو کے۔ اب الوؤں کی جماعت بھی تیار تھی۔ گیدڑ، مینڈک اور الو جنگ لڑنے چلے تھے۔ سب میں سامان حرب تقسیم ہوا اور حملے کا حکم دیا گیا کہ فلاں دن اس وقت فضائی، بحری، زمینی کارروائی ایک ساتھ کی جائے۔ بی لومڑی نے اعلان کر دیا کہ کسی بھی وقت چھوٹے جنگل پر حملہ کر دیا جائے گا۔ ادھرچھوٹے جنگل کے بادشاہ نے پہلے تو شوخے چوہے کو بات چیت کی دعوت دی کہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کر لیا جائے لیکن شوخے چوہے کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے تھے۔

اک تو جھوٹے الزام لگا کر جنگ مسلط کرنے کی کوشش، اوپر سے بات چیت میں غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری۔ لیکن بوڑھا شیر، جو چھوٹے جنگل کا بادشاہ تھا، جانتا تھا کہ یہ اس نے صرف تباہی کو دعوت دی ہے یعنی آ بیل مجھے مار۔ اس نے بھی اپنے جنگل کے دفاع کا خاطر خواہ انتظام کیا۔ دلچسپ صورتحال تب بنی جب چھوٹے جنگل کے سب جانداروں نے خود کو جنگل کے دفاع کے لئے پیش کردیا۔

یوں ہوا کہ زمینی دفاع کی ذمہ داری تو شیر نے لے لی اور شیروں کی فوج جنگل میں چاروں طرف پھیل گئی۔ فضائی فوج کا نگران ایک عقاب تھا۔ اس کے عقابوں کی فوج فضا میں پھیل گئی۔ اب بحری فوج کے لئے دیوہیکل مگرمچھ تیار تھے۔ سامان حرب ان کے بھی پاس تھا۔ باقی جنگل میں سب جانداروں نے اپنے اپنے مورچے سنبھال لیے۔ اپنے گھونسلے کا دفاع پرندے خود کر رہے تھے۔ بلوں میں رہنے والوں نے بھی اپنے دفاع کا خاطر خواہ انتظام کیا تھا۔

پانی کے جانداروں نے بھی اپنے دفاع کا بندوبست کیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ فضا میں عقاب اڑتے پھرتے ہیں۔ زمین پر خطرناک سانپ بچھو دوڑ رہے ہیں۔ پانیوں پر خطرناک مگرمچھ راج کرتے ہیں۔ باقی سب بھی تیار حالت میں ہیں۔ لیکن ان سب کو بڑے جنگل پر پہلے حملے کی اجازت نہیں ہے۔ بوڑھے شیر نے سب جانداروں کو حکم جاری کیا ہے کہ جب تک دشمن حملہ آور نہیں ہوتا تم سب بھی پہل مت کرنا حملے کی صورت میں دفاع کیا جائے گا۔

ایسے ہی اک رات تھی، برستی بارش، کڑکتی بجلی میں پڑتے اولے، تیز چلتی ہواؤں کی شائیں شائیں، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ اس سمے شوخے چوہے نے اپنی فوج کو سرسبز جنگل کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا کہ لگتا ہے کہ اس خطرناک موسم میں جنگل واسی آرام سے سو رہے ہوں گے تو ان کا خاتمہ کرنا آسان کام ہوگا۔

یوں بھی الو کو رات کو نظر آتا ہے تو اس کے لئے یہ وقت بہترین تھا۔ اب چپکے سے گیدڑوں کی فوج نکلی، ساتھ ہی الو فضا میں اڑ گئے، مینڈکوں نے بھی پانی میں چھلانگ لگا دی۔

یہ کیا فضا میں، زمین پر، پانی میں، ان کو روکنے والا کوئی تھاہی نہیں۔

لگتا تھا چھوٹے جنگل والے اپنے دفاع سے غافل سو رہے ہیں۔ بڑے جنگل کی فوج کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ آگے سے آگے بڑھتے رہے۔

وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ ایک دفاعی حکمت عملی تھی کہ دشمن کو اتنا آگے آنے دیا جائے کہ حملے کی صورت میں وہ پسپائی اختیار نہ کر سکے اور اس کا مکمل صفایا ہی کر دیا جائے۔

یہ لشکر ابھی جانداروں کے مسکنوں سے تھوڑا دور ہی تھا کہ اچانک زمین پر شیروں کی غراہٹ ابھری، فضا میں پہاڑوں پر بیٹھے عقاب اڑ ے۔ پانیوں کی تہہ میں لیٹے ہوئے مگرمچھ جیسے جاگ پڑے۔ اب تو فضا ہی تبدیل ہو چکی تھی اور دشمن بھی کافی اندر تک ان کے گھیرے میں آ چکے تھے۔

شیروں کی غراہٹ سن کر ہی کئی گیدڑ دم دبا کر بھاگے لیکن مارے گئے۔ فضا میں اڑتے عقابوں کے پروں کی پھڑپھڑا ہٹ نے ہی بڑے جنگل کی فضائی فوج کا خاتمہ کر دیا۔

ادھر مگرمچھوں نے منہ ہی کھولے تھے کہ سب مینڈک ان کے پیٹوں کا ایندھن بن گے۔

اب چھوٹے جنگل کی فوج مکمل فارم میں تھی۔

موقع اچھا تھا اس لیے انہوں نے بڑے جنگل پر حملہ کر دیا۔ خوب تیا پانجا ہوتے اور جنگل کا راج پاٹ ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر شوخے چوہے نے جنگلاتِ متحدہ کے پاس پناہ لی اور مدد کی درخواست کی۔ پہلے تو جنگلاتِ متحدہ کے سربراہ نے اس کی خوب عزت افزائی کی کہ جب جنگ لڑ نہیں سکتے تو پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی۔

پھرسربراہ نے بوڑھے شیر کی ترلے منتیں کِیں کہ میاں معاف کر دو ان کو۔ شیر نے چوہے سے ناک سے لکیریں نکلوا کر سزا کے طور پر دم کٹوا دی۔ اب شوخا چوہا لنڈورا ہو چکا تھا۔ اس کی دُم چھوٹے جنگل کے سب سے اونچے درخت کی ٹہنی پہ لٹکی ہوئی تھی۔ دونوں جنگل اب شانت ہو چکے تھے لیکن شوخا چوہا اب بھی انتقام کی آگ میں جلتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).