ابھے نندن کی واپسی اور شاکراللہ کے والدین


بتایا گیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں زبردستی ہمارے ملک میں گھسنے کی کوشش کرنے والے زبردستی کے مہمان کو صبح کے اجالوں میں رہا کیا جائے گا۔ مجھے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی سے پہلے واہگہ بارڈر پہنچنا تھا۔

دو دن قبل بارڈر کے ساتھ واقع دیہات ”بھانوچک“ جانے کا بھی اتفاق ہوا سچ پوچھیں تو اس گاؤں کے لوگوں سے مل کر اچھا لگا۔ آپ سوچیے سرحد پر تناؤ ہودونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں شدید سے شدید تر ہورہی ہوں اس سب کے باوجود بھانو چک کے مکینوں کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ بازار میں چند چھوٹی دکانیں جن کے باہر لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بتایا گیا کہ بارڈر کی کشیدگی کا پتا تو چلا ہے لیکن یہ سب ان کے لیے نیا نہیں ہے۔

بھارتی پائلٹ کی رہائی کا اعلان وزیراعظم پاکستان کی جانب سے کیا گیا ہفتے کی چمکتی صبح واہگہ بارڈر پر میڈیا ہاؤسز کی گاڑیاں سب سے پہلے موجود تھیں تاکہ ان تاریخی لمحات کو سکرین کے ذریعے پوری قوم کو دکھایا جاسکے۔ کچھ بھی کہیں مجھے لگا پاکستانی میڈیا بھارتی میڈیا سے کئی گنا زیادہ پروفیشنل اور ذمہ دار ثابت ہوا۔ واہگہ بارڈر کے دوسری طرف موجود ملک کے ٹی وی چینلز پاکستان کے بڑے پن اور امن کی جانب اس تاریخی قدم کو دباؤ سے منسوب کر رہے تھے۔

سرحد پر موجود بھارتی میڈیا ہاؤسز کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کے سامنے بھی یہ سوال رکھا گیا۔ آخر کیوں بھارتی میڈیا اس تناؤ کو بڑھاوا دے رہا ہے جواب آیا ابھی بھارتی میڈیا کو ”بڑا“ ہونے میں وقت لگے گا۔ رات 9 بجے کے قریب بھارتی پائلٹ کو بارڈر پار اس کے ملک بھیجا گیا۔ اس سے پہلے سارا دن واہگہ بارڈر پر غیرمعمولی جوش وخروش دیکھا گیا روٹین کی پریڈ بھی منعقد ہوئی جس میں عام دنوں سے بڑھ کر لوگ شریک ہوئے جبکہ بھارت نے اپنی پریڈ کی سرگرمی میں عوام کو شریک ہونے سے منع کردیا تھا بھارتی بارڈر سے تقریبا دو کلومیٹر کے فاصلے پر انڈین میڈیا کو محدود کردیا گیا تھا شاید انتظامیہ جانتی تھی کہ اس موقع پر ان کا میڈیا کسی بھی قسم کی بدمزگی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

عوام میں بھارتی پائلٹ کی رہائی کو لے کر ملا جلا رد عمل تھا۔ غصے اور خوشی کے ملے جلے تاثرات دیکھنے کو ملے شاید پاکستان کے عوام یہ سوچتے ہیں کہ ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری سمجھا جائے گا بھارت کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے ہمارے عوام کچھ غلط بھی نہیں سوچ رہے۔ ہندوستان نے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ چلیں ایک مرتبہ اور سہی۔

جس وقت واہگہ بارڈر سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوکر ہم وزیراعظم کے جذبہ خیر سگالی کی دا دے رہے تھے ٹھیک اسی وقت شاکراللہ کے ضعیف والدین اپنے بیٹے کی ڈیڈ باڈی کے لیے فریاد کناں تھے۔ افسوس کسی ایک کیمرے نے یہ مناظر محفوظ نہ کیے کیونکہ اس وقت ہم امن کا ڈھول پیٹ رہے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی فوج پرہونے والے حملے کے بعدبھارتی ریاست راجستھان کے شہر جے پور کی جیل میں مشتعل ہندو قیدیوں نے پاکستانی قیدی شاکر اللہ کو پتھر مار کر شہید کردیاتھا۔

شاکر کو 2001 میں بھارتی ریاست گجرات سے گرفتار کیا گیا تھا اور جے پور کی سینٹرل جیل میں قیدرکھا گیا تھا۔ شاکراللہ کی بوڑھی ماں نے بتایا کہ ان کے بیٹے کا ذہنی تواز ن ٹھیک نہیں تھا وہ بارڈر کراس کر گیا۔ میڈیا کے ذریعے پتا چلا شاکراللہ کو جیل میں شہید کردیا گیا۔ شاکراللہ کی ماں نے اپنے مرحوم بیٹے کی تصویر اٹھارکھی تھی جبکہ اس کے ضعیف باپ پلے کارڈ اٹھائے مظلومیت کی مکمل تصویر تھا۔ اس پلے کارڈ کی تحریر کچھ یوں تھی ”حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ جے پور جیل میں جس قیدی کو شہید کیا گیا اس کا نام شاکراللہ ہے۔

اس کی ڈیڈ باڈی پاکستان منگوائی جائے آج اس واقعے کو 11 دن گزر گئے ہیں ”۔ شاکر اللہ کے لاغر اورر کمزور والدین کی طرف دیکھ کر میرے دل میں آیا کہ اپنے ہمسایہ ملک کی حکومت سے درخواست کروں کہ اس ہائی پروفائل ونگ کمانڈر کے بدلے ہمارے ذہنی معذور شاکراللہ کی لاش واپس کردیجیے جس کو دیکھنے کے انتظار میں اس کے والدین مزید بوڑھے ہورہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).