پاکستان بھارت جنگ کی فینٹسی اور بھولے عوام


آج کل جہاں دیکھو وہاں جنگ کی باتیں ہوتی نظر آتی ہیں۔ دفتر میں گھر میں، ٹی وی پر واٹس ایپ فیس بک اور ٹوئٹر سب جگہ کوئی اور بات ہی نہیں ہے۔ پورا پاک و ہند جنگ کی فینٹسی میں ہے، جنگ کوئی ایسی دل فریب چیز نہیں جس کی فینٹسی کی جائے۔ محاز چھوٹے سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو سکون اور اطمینان چھین لیتا ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب کبھی اسکول میں کسی سے جھگڑا ہو جاتا تو اسکول سے گھر کے راستے میں ایک خوف کا احساس رہتا کہ کہیں دشمن پارٹی کوئی چپکے سے وار ہی نہ کر دے۔

یہ چند سال پرانا قصہ ہے۔ جب ہم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ ایک ہمارے ہمسائے کو ہمارے درخت سے کوئی خصوصی تکلیف ہوئی۔ درخت چونکہ گھر کے باہر تھا اس لیے اس حفاظت ایک مشکل کام تھا دوئم کراچی شہر میں درختوں سے نفرت کا بھی ایک خاص مزاج ہے۔ ہمارے دو پڑوسی درخت ( مشترکہ دشمن) کے خلاف متحد ہو گئے۔ اب جیسا کہ ہر جنگ سے پہلے ایک گھٹن کی فضا پیدا ہوا کرتی ہے وہ شدید ہو گئی موسم بھی گرم ماحول بھی گرم، دشمن گروہ درخت کاٹنے کو تیار جب مالی نے دیکھا کہ گرما گرمی پھیل رہی ہے تو دم دبا کے فرار ہو گیا۔

جذبات میں آ کر پڑوسی نے اپنے ہاتھوں سے ہی شاخیں توڑنا شروع کر دیں پھر ہمارے بڑے بھائی نے بھی ہاتھا پائی شروع کی دونوں ہی ایک دوسرے میں گتھم گتھا، دو چار راہگیر اور محلے دار تماشا دیکھ رہے تھے ہماری والدہ نے جب یہ دیکھا تو دونوں کو الگ کرنے پہنچ گئیں۔ ابھی وہ کچھ ڈائلاگ کرنے کی کوشش ہی کر رہی تھیں کہ، ایک دم پڑوسی کے سر پہ پورے زور سے ایک بلوچی چپل رسید ہوئی۔

یہ چپل گھر کے سب سے چھوٹے فرزند نے دے ماری تھی اور کچھ اس طرح ماری تھی کہ پڑوسی چند لمحے کو سن ہو گیا، پھر غم زدہ ہو گیا اور ایک دم سے ساری لڑائی رک گئی۔ جیسے ہی پڑوسی کے سر پر بھاری چپل پڑی وہ سب کچھ بھول کہ صرف یہ کہنے لگا یہ کل کا بچہ اتنا بڑا ہو گیا کہ میرے سر پہ چپل مار دے۔ اس کہ لیے اب سب سے بڑا صدمہ یہ تھا کہ میں اپنے سے کمزور اور بیس سال چھوٹے کے ہاتھوں ذلیل ہو گیا۔ یہ بات ہاتھا پائی، گالم گلوج سے زیادہ خوفناک تھی۔

یہ منظر صرف اس کے لیے نہیں ہمارے لیے بھی حیرت انگیز تھا، خوفناک تھا۔ ہم بھی اندر سے لرز گئے کہ کہیں کوئی جوابی وار نہ ہو جائے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی۔ کہ آج کی یہ لڑائی کس بات پہ ختم ہو گی۔

لیکن ہمیشہ ایسا ہو یہ ضروری تو نہیں؟

1971 میں جو بھاری جوتا ہم بحیثیت قوم بھارت سے کھا کر بیٹھے ہیں کیا اس کا آج تک کوئی ازالہ ہوا؟ وہ لڑکیاں جو اغواء اور ہوئیں جن کی عزت کی دھجیاں بکھیر گئیں ان کا کیا قصور تھا؟ ہزاروں افراد زبح ہوے ان کے گھر والوں کا کیا قصور تھا؟ پاکستان کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے، ان جوانوں کا کیا قصور تھا جو جنگی قیدیوں میں تبدیل ہوئے ہوے؟ آج بھی جب پاکستان اور بنگلادیش کا کرکٹ میچ ہوتا ہے تو بنگلادیش کا کپتان کہتا ہے اکہتر کا بدلہ لے لیا۔

مگرپاکستان کے بھولے کمزور یادداشت رکھنے والے لوگ ہندوستان پاکستان کی جنگ کو بھی محلے کے جھگڑے کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ جس میں ایک کمزور بچہ بھی اپنے وزن سے زیادہ بھاری دشمن کو مارتا ہے اور دشمن اپنی عزت بچا کر روانہ ہو جاتا ہے، اور تماشا دیکھنے والے ڈراپ سین دیکھ کر خاموشی سے کھسک لیتے ہیں۔

ابھی وہ تمام افراد جنگ کے سب سے زیادہ منتطر ہیں جو تماشبین ہیں۔ جنہیں اس سے کوئی تعلق نہیں کہ مر کون رہا ہے اور مار کون رہا ہے اور زلت کی بازگشت کہاں تک اور کب تک سنائی دے گی۔ بس سب کو تماشا چاہیے سب کو چٹخارے چاہیے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ ماحول بنا ہؤا ہے ٹی وی چینل ٹی آر پی کما رہے ہیں۔
کسی کو یہ یاد نہیں کہ جنگ میں صرف نقصان ہے تکلیف ہے اور دکھ ہے۔ جنگ میں سب ہی ہار جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).