فلائیٹ لفٹیننٹ وقاص شمیم کی یاد میں


اگر آپ اکبری دروازے سے اندرون لاہو ر میں داخل ہوں تو تنگ بازار سے گزر کر محلہ سریاں والا آتا ہے، غازی علم دین شہید کا گھر اِسی محلے میں تھا، اُ نہیں کے نام پر اب وہا ں کا چوک موسوم ہے۔ اُس چوک سے بائیں جانب مڑ کر کوچہ چابک سواراں سے گزرتے جائیے تو آگے محلہ ککے زئیاں آتا ہے۔ ککے زئی اسے عرفِ عام میں بڑی گلی کہتے ہیں، گو کہ یہ گلی اتنی تنگ ہے کہ کسی مرگ پر جنازہ بھی آسانی سے نہ نکل پائے۔ کہتے ہیں کہ سلطان محمود غز نوی کے ساتھ حملہ آور لشکر میں یہ قبیلہ تھا۔

فاتح قوم کے طور پر اُنہوں نے مفتوح علاقے کو اپنا مسکن بنا یا۔ صدیا ں گزر گئیں مگر ککے زئی اپنے رنگ کے ساتھ جڑے رہے۔ ککے زئی ایک لڑاکا قوم ہے، اندرون لاہو ر میں محلہ ککے زئیاں کی لڑا ئیاں اور شادیاں دونوں ضرب المثل ہیں۔ یہ عجب رنگ کے لوگ ہیں، ایک طرف لڑنے کو تیار، دوسری جانب یا ر باش، مہمان نواز، کھل کر کِھلانے والے۔ آپ سے محبت بھی کھل کر کریں گے اور لڑیں گے بھی کھل کر۔

وقاص شمیم ککے زئی تھا، ٹھیٹ ککے زئی۔ لڑنے مرنے کو تیار، کھل کر پیا ر کرنے والا۔ اُسکی آنکھوں میں ہمیشہ شرارت کی چمک تھی، اُسکے چہرے پر ہمیشہ ایک چھپی مسکراہٹ رہتی تھی ایسے کہ ابھی کوئی حرکت کرے گا، کوئی طوفان لائے گا۔ وہ ایک بے چین روح تھا، کبھی نہ بیٹھنے والا، جس کو کسی طور چین نہ آئے۔ آتے جاتے کو کو ئی بات کرنے والا، چھیڑ چھاڑ، شرارت، کوئی چٹکلا، کوئی لڑائی، ایک معرکے سے نکل کر اگلے معرکے کی تلاش میں رہنے والا۔

اُسکی آواز اُسکی آنکھوں کی طرح انسان کے اندر اترنے والی تھی۔ وہ عجب شخص تھا، اُسکی آ نکھیں، اُسکا چہرہ، اُسکا اندر باہر ایک تھا۔ ہما را اُس سے عجب تعلق تھا، کبھی اُسکی حرکتوں سے ہم زچ ہو جاتے تھے، کبھی وہ ہما را محبوب تھا۔ وہ ہما ری زندگیوں میں غیر محسوس انداز میں داخل ہو گیا، اُس کا ظاہری دکھاوا ایک لا پروا ہ، لا اُبالی سر پھرے کا تھا، مگر اُس کی عجب خا صیت تھی وہ آپ کے درد کو خود بخود محسوس کر لیتا تھا، بغیر بتائے جان لیتا تھا، اور پھر وہ اپنی بسا ط سے بڑ ہ کر جو کچھ کر سکتا تھا کر تا تھا۔ کورس کے ساتھی، افسر، ایر مین، بیٹ مین سب کے لیے اُس کے دل کے دروازے کھلے تھے، اور کھلے بھی چار چوپٹ تھے، بلکہ وقاص کی شخصیت کے لحاظ سے تو اُس نے دروازں کے کواڑ ہی اتار کر پھینک دیے تھے کہ کسی کو آنے میں پریشانی نہ ہو۔

میں نے بچپن سے اپنے بزرگوں سے ککے زئیوں کی کئی باتیں سنی تھیں، نعرہ تھا، ”ککے زئی، ہائے جان گئی“۔ وقا ص کو جب میں نے کہا، ”ککے زئی، میں نے سنا ہے کہ درانتی کے ایک طرف دندے ہوتے ہیں، مگر ککے زئی کے دو طرف دندے ہوتے ہیں“۔ تو وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا، ”ملک جانے دے“۔

مجھے نہیں علم کہ کب وقاص کے بزرگ اندرون لاہور سے نکلے اور بیگم روڈ پر آ کر رہنے لگے۔ بیگم روڈ مزنگ اڈہ سے شروع ہوتی ہے اور جین مندر پر ختم ہوتی ہے۔ اُس کے گھر میں داخل ہوں تو کھلا صحن تھا، جہاں ہر روز اُس کی والدہ ہر شام نوکروں کے اور محلے کے بچوں کو پڑھا تی تھیں۔ اُسکی والدہ ایف جی سکول میں تعلیم دیتی تھیں، جبکہ اُس کے والد کرنل شمیم پی ایم اے کاکول میں ریا ضی کے استاد تھے۔ یہ اسا تذہ کا گھر تھا ؛ بے لوث، کھرے، مخلٰص۔

وقا ص خود کیڈٹ کالج حسن ابدال سے پڑھا تھا۔ مگر مجھے نہ جانے کیوں وقا ص میں مزنگ اڈے کے تھڑے پر فارغ بیٹھے لوگوں کی یار باشی اور جین مندر میں گائے گئے بھجنوں کا رنگ نظر آتا تھا۔ سرگودھا میں پوسٹنگ کے وقت وہ کسی دور کے رکھے گئے کنٹینرز میں سے ایک میں اکیلا رہتا ہے۔ اس کی طبیعیت کی سیمابی اس کی متحمل نہ تھی کہ وہ کسی اور کے ساتھ کمرے میں رہتا۔ شام کو وہ اپنے بیٹ مین کے بچے کو پڑھا تا تھا۔ ہر شام وہ اپنے ماں باپ کے پیچھے چلتے اپنے حصے کی تعلیم کی شمع کو روشن کیے تھا۔

عجب آدمی تھا، الگ راہ پر چلنے والا۔ جب میس میں چاول پکتے تو وہ ویٹروں سے کہہ کر روٹی منگواتا اور پھر چاول روٹی کے نوالوں میں بھر کر کھارہا ہوتا۔ ویٹر منہہ دوسری طرف کرکے مسکرارہے ہوتے۔ وہ ایک بے چین روح تھا، ہر کام جلد کرنے والا، ہر دم تیزی میں رہنے والا، شاید اُسے علم تھا کہ اُس کے پاس وقت کم ہے۔ رسالپور اکیڈ می میں چھٹیوں پر جا نے کے لیے جب بک شدہ فلائنگ کوچیں آتی تھیں تو وقا ص ہمیشہ اُچک کر ڈرائیور کے ساتھ والی سب سے اگلی سیٹ پر بیٹھتا تھا، اب کوئی جو مرضی کر لے وہ سیٹ کسی اور کو نہیں مل سکتی تھی۔ یہ ہر دفعہ کا معاملہ تھا۔ میں اُسے کہتا تھا، ”ککے زئی، اگلی سیٹ پر بیٹھ کر کیا تو کوچ سے پہلے لاہور پہنچ جائے گا۔ وہ ہنستا تھا اور کہتا تھا، “ ملک، جا نے دے ”۔

وقاص خود دار تھا، بلا کا خود دار۔ یہ اُس کے خون میں آیا تھا۔ جب اُس کا بڑا بھائی پی ایم اے کاکول سے پاس آوٹ ہو رہا تھا تو وقاص نے پریڈ پر جانے کے لیے چھٹی کی درخواست دی جو کہ نہ ملی۔ بھائی پی ایم اے کا سب سے بڑا اپائٹمنٹ ہولڈر تھا، پاسنگ آوٹ پریڈ کمانڈ کر رہا تھا، پاسنگ آوٹ پر اُسے اعزاز مل رہا تھا۔ وقاص کے والد بھی فوج میں تھے۔ اکیڈمی سے کیڈٹ سرکاری طور پر پریڈ دیکھنے پی ایم اے جا رہے تھے، مگر وقا ص اُس گریجویشن پریڈ پر نہیں گیا۔ کرنل شمیم کی خودداری یہ اجازت نہ دیتی تھی کہ وہ کسی کو ایک فون ہی کر لیتے۔ ”ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم“۔

جب وقاص کی سرکاری جیپ سرگودھا کے کرانہ پہاڑ سے گری وہ اپنے دو ساتھی افسروں کے ہمراہ بیس کے میڈیکل سکواڈرن سے سالانہ طبی معائنہ کر وا کر پہاڑ کی چوٹی پر لگے ریڈار پر جا رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ جب موت کا فر شتہ اُس کے سامنے آیا ہوگا تو وقاص نے آ نکھوں میں شرارت کے سا تھ اُس سے پوچھا ہوگا، ”بھائی، آپ لینے تو آگئے ہیں مگر ریکارڈ چیک کر لیں کسی اور کی جگہ تو مجھے غلطی سے نہیں لے جا رہے۔ اچھا اب آپ آ ہی گئے ہیں تو یو نیفارم میں ڈیوٹی پر ہوں، پہاڑ کی اتنی بلندی سے گرا ہوں، شہادت کا رتبہ لکھنا نہ بھولیے گا۔ صبح کا نا شتہ بھی نہیں کیا، دیکھیں یہ اخبار میں لپٹا ساتھ ہے، روزہ دار کا درجہ بھی لکھ لیں“۔

مغرب کے قریب میانی صاحب کے قبرستان میں وقاص کو دفنا کر میں اُس کے گھر پہنچا۔ اُس کے والد غم پر قابو پانے کی کوشش کرتے لوگوں کی تواضع کے بارے میں فکر مند تھے، اُسکی والدہ اُسکے کورس میٹوں کو لپٹا کر چوم رہی تھیں۔ میں چپ چا پ اپنے موٹر سائیکل کو سٹارٹ کیے بغیر گھسیٹتا جین مندر تک آ گیا، روح میں دور تک دکھ اُتر آیا تھا۔ آدھا فر لانگ چل کر موٹر سائیکل کو کک مار ی اور اپنے گھر کو چل پڑ ا، آگے ڈیوس روڈ سے ٹھنڈی سڑک کو جا مڑا۔

ٹھنڈی سڑک ویسے بھی ایک فسوں رکھتی ہے، ایک جانب ا یچی سن کالج ا ور زمان پارک دوسری جانب انگریز دور کے بنے ریلوے افسران کے بڑے بڑے بنگلے۔ درخت اتنے کہ سخت گرمی میں بھی اِس سڑک پر داخل ہوں تو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے، اِسی وجہ سے لاہور کے باسی سندر داس روڈ کو عرفِ عام میں ٹھنڈی سڑک کہتے ہیں۔ طبیعیت پر بوجھ اتنا تھا کہ موٹر سائیکل سڑک کے کنارے ایک طرف روک دی اور آ نکھوں سے بے ساختہ آ نسو جاری ہو گئے، رومال اور دامن دونوں تر تھے۔ اچا نک درختوں میں تیز ہوا چلنے لگی اور آواز آئی، ”ملک جانے دے“۔

ککے زئی، جانے دیا۔ پر کیا کرو ں برسوں گزر گئے مگر جانے نہیں دیا جاتا۔ تیری تصویریں البم سے نکا ل کر رکھ دی ہیں مگر تو بڑا سخت جان ہے، دل پر تیرا نقش ما ہ و سا ل کی گرد کے باوجود روشن ہے۔ ابھی تو آئے گا، کسی نئی حرکت، کسی نئے چٹکلے کے ساتھ۔ خوش رہ، امید ہے کہ تو نے وہاں بھی خوب اُدھم مچا رکھا ہوگا۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor