دس برس کی بارش اور یوسف کی قمیص


ایسا کیا کہا تھا میں نے کہ میرا دوست زور وشور سے مجھے بھاشن دینے لگا تھا۔ عمر تنخواہ، بچے بیوی، حقوق و فرائض سب کچھ ہی تو اس نے انگلیوں پر گِنوا دیا تھا اس نے، مجھے یوں لگا جیسے میں نے امریکہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ جذباتی ہو کر اس احمقانہ سوچ پر مجھے باتوں پر باتیں سناتا چلا گیا۔ اتنی سی ہی تو بات تھی کہ میں دوسری شادی کرنا چاہتا تھا۔ اورمیرے دوست کے ردعمل نے لمحوں میں مجھے مجرم، باغی، لالچی، بیوقوف، خودغرض، غریب، فقیر اور نجانے کیا کچھ ثابت کر دیا تھا۔ وہ اٹھ کر گیا تو گھر آ کر میں بیوی بچوں سے بہت دیر تک نظریں چراتا رہا اور ان پر ترس کھاتا رہا یہ سوچ سوچ کر کے انہیں کتنا خود غرض اور غیر سنجیدہ شوہر اور باپ ملا ہے جسے چالیس سال کی عمر میں بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کی بجائے اپنی شادی کی فکر پڑ گئی تھی۔

بات محض اتنی سی تھی کہ ہانیہ میری زندگی میں واپس آ گئی تھی۔ نجانے کب، کیسے کس طرح دس سال بعد وہ مجھے اچانک اپنے ایک دوست کے آفس میں ٹکرا گئی تھی جہاں وہ نئی نئی بھرتی ہوئی تھی۔ وہی حسین چہرا، گلابی رنگت اور لاجواب باتوں والی ہانیہ جو یونیورسٹی میں میرے حواسوں پر چھائی رہتی تھی۔ وہ جس کی باتوں میں سو بزرگوں کی لیاقت، سو پروفیسروں کی فراست اور جس کی شوخیوں میں کئی سو بچوں کی سی شرارت اور محبت تھی۔ وہ ہانیہ جس سے میرا تعلق دوستی، محبت، عشق سے بہت گہرا تھا مگر پھر بھی محض اک دوستی کی جھونپڑ میں ہم دونوں نے ہی چھپا رکھا تھا۔

وہ بولتی تو میرے لفظ سوکھ جاتے، وہ مسکراتی تو میری سانس رک جاتی تھی۔ اور میں اک عام سی شکل و صورت، عام سی لیاقت والا لڑکا جو اس کے سامنے دل کی بات تک کہنے سے ڈرتا تھا! وہی ہانیہ جو میرا ہاتھ پکڑے مجھے کھینچتی پھرتی تھی، دس سال پہلے جو مجھ سے کھوئی تو کچھ ماہ پہلے اچانک ایک میگزین کے آفس میں ایڈیٹر کی کرسی پر بیٹھی ہوئی ملی۔

وہ جو سالوں پہلے ِکھلا چہرہ تھا اب اس پر کچھ متانت تیرتی سی تھی۔ وہ کھلی قمیضوں میں پھرنے والی اب جدید تراش خراش کے لباس میں قلوپطرہ سی دِکھ رہی تھی کہ جس کے ساتھ بیٹھے اک خمار سا اندر باہر گھیرنے لگا تھا۔ دس سالوں کی دھند آنکھوں پرلگے چشمے سے عیاں تھی، مگر ان کی اوٹ سے اس کی آنکھیں مسکراتی تھیں تو سر گوشیوں میں، سسکیوں میں اور آہٹوں سے بہت سی باتیں کرتی تھیں۔ ایسی باتیں جن کو سمجھنا میں نے بہت دیر سے سیکھا تھا۔

پہلی بار ملے تو میں لوٹنا بھول گیا اور وہ نکلنا چھوڑ کر بیٹھ گئی۔ ایک چائے کا کپ سامنے رکھے ہم کتنے گھنٹے بیٹھے رہے۔ کہاں کہاں کی بات، کدھر کدھر کا تذکرہ لے کر، حال سے لے کر ماضی کی ہر یاد تک ہم نے بہت سے تعاقب کیے، بہت سے ماضی کے بند ڈبوں کو پھر سے کھولا، بہت سے پوشیدہ چھپا کر رکھے خانوں کو ٹٹولا، سوکھے پھولوں کی خوشبوئیں سونگھیں، بکھری پتیوں کو ساتھ بیٹھ کر پھر سے جوڑا۔ سحر تب ٹوٹا جب اس نے کسی بات پر کہا ”تم سمجھتے ہی کہاں تھے“

”میں سمجھتا ہی کہاں تھا؟ “ میں اس کا تابعدار دُم چھلا اور سمجھتا ہی کہاں تھا؟ اس سے پہلے کیا تھا بعد میں کیا مجھے سب بھول گیا میں اس کے الفاظ میں الجھ کر رہ گیا اور وہ گڑبڑا کر گھر پر اکیلے بچوں کی فکر کرنے لگی۔ سو لاچار ہو کر مجھے واپس لوٹنا پڑا اور اسے گھر کے لئے نکلنا۔

”ایسا کیوں کہا اس نے؟ “ میں اس رات دیر تک بار بار رک رک سوچتا رہا۔ ایسا کیا تھا جو میں سمجھ نہ سکا۔ گھوم گھما کر سوچ وہیں جاتی تھی۔ ہمارے بیچ ایک ہی بات ان کہی اور ان چھوئی تھی اور وہ تھی محبت کی بات۔ تو کیا؟ ”میرے تن بدن میں چیونٹیاں رینگنے لگیں، میرا وجود جیسے جلتے توے پر تڑپنے لگا۔ ایسا لگا جیسے کسی نے زور سے ہلا کر ایک دم شیمپین کو کھولا جس میں سے صدیوں کی دبی شراب ایک دم تڑپ کر نکلی ہو۔ “ تو کیا؟ ”کچھ تھا جو دوستی کے اس سفر میں ادھورا رہ گیا تھا اور اس کے ایک جملے نے مجھے بیتاب کر دیا تھا۔

ایک ہی روز میں سالوں کا بجھا شعلہ بھڑکا اور بھانبھڑ بن کر جلنے لگا۔ بہت سے ان کہے سوالوں کے جواب آج اس کی ہر نگاہ میں جھلکتے تھے اور بہت سے ان چھوئے خوابیدہ جذبات آج میں اس کی ہر ہر لرزش پر دیکھ سکتا تھا۔ اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ، اس کی آنکھوں میں گہرائی تک ڈوبی خاموشی اور اس خاموشی میں سے ابھر ابھر کر آتی ایک محبت کی تیز دھوپ آج مجھ تک ایسے پہنچ رہی تھی کہ جیسے کبھی برسوں پہلے نہ پہنچ سکی تھی۔

اس کی میز پر اپنے کچھ کاغذات کے ساتھ اپنا دھیان، توجہ، دل جذبات سب بھول آیا تھا۔ وہ اک ایسی موسلا دھار بارشوں نکلی کہ برسی تو پھر تھم نہ سکی۔ اس کی یاد اور محبت مجھے ایک سیلاب کی طرح بہائے لئے چلی گئی۔ اس کے ادھورے فقرے کا مطلب پوچھنے مجھے ہر روز اس کے آفس کے سامنے سے گزرنا پڑا اور اسے ہر بار بیٹھتے بیٹھے اٹھ جانا۔ ہم ناں ناں کرتے ایک دوسرے کی طرف لپکتے چلے گئے ایسے کہ چند ہی ہفتوں میں وہ صرف میری ہو کر رہ گئی صرف میری! ۔

یوں لگتا جیسے وقت پھر سے دس سال پیچھے لوٹ گیا ہو۔ ہماری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دم توڑ چکی جوانی پھر سے خوشبو کو ترسنے لگی، وہ جوانی جو ہم نے افسانوں کی، کتابوں کی، دوستوں کی اور خوابوں کی باتیں کرتے گزار دی تھی۔ وہ جوانی اس ڈھلتی عمر میں ہم دونوں کو اک نیا رخ دکھانے کو مضطرب تھی اور ستم یہ کہ وہ بھی شادی شدہ تھی اور میں بھی۔ نہ میں رنڈوا، اور نہ وہ مطلقہ۔ اب اس محبت اور عشق کی آگ کو کسی اخبار تلے چھپا رکھنے کے لئے گھر میں کوئی بھی خالی الماری نہ تھی۔

اس کی ہاں ہاں اور ناں ناں کے بیچ میں نے کئی طرح کی کتابیں کھنکالیں، مکتب پھرے، کچھ عالموں اور استادوں کے چکر کاٹے، کوئی رستہ، کوی حل؟ قریبی دوست بتاتے تھے بہت آسان رستہ، بیوی سے چھپا کر ڈیٹنگ! ۔ مگر جائز طریقے سے ایک ہونے کا کوئی بھی رستہ نہ تھا اور اگر تھا تو ان کے لئے انتہائی شرمناک اور مشکل اور غیر ذمہ دارانہ تھا۔ تھا۔ عالم نے جہنم کی آگ سے ڈرا کر توبہ کا مشورہ دیا اور دوسری شادی کا مشورہ تہذیب کے ساتھ بدتہذیبی کے الزام کی چادر میں چھپا کر پکڑا دیا۔

جہاں محبت ہی جرم ٹھرے اس مذہب میں سے اس کا حل نکالنا کوئی آساں تو نہیں تھا۔ استادوں نے تنخواہوں اور گھروں کے حساب کتاب، بیوی بچوں کے اخراجات ضرب تقسیم کر کے انگلیوں پر گنوا دیے۔ اور دوستوں نے تو طعنوں پر طعنے کا گورکھ دھندہ شروع کر دیا۔ رشتے داروں اور لوگوں کے خوف سے ہمسایہ داری کے مسائل اور معاشرتی رویے تک سب گنوا دیے صرف میری محبت کی گنتی کرنا بھول گیا۔ انہیں دن رات میرے دل دماغ پر چھایا محبت کا وہ آتشیں لاوا نظر نہ آیا جو ہم دونوں کو اپنے ساتھ بہائے لئے جانے کو بالکل تیار تھا۔ اک بے محبت زندگی میں ہم تمام عمر بے خوشبو کے پھول کی طرح سر جھکائے چلتے رہیں تو کسی کو فرق نہیں پڑتا مگر اگر خوشبو میں لہرا کر بل کھا کر جینے کی طلب کریں، ہمارے انگ انگ میں زندگی جاگنے لگے تو مذہب معاشرہ اور اس کے سب لوگ ہمارے رستے کی دیوار بن جاتے ہیں۔

میں نے بھی اخراجات کو ڈبل کر کے دیکھا تو اپنے ہاتھوں کو جکڑے پایا۔ ایک سے دو بیویاں، چار بچے، دہرا گھر دہری ذمہ داریاں، سب کا حساب لگاتا تو سوچ سوچ تھک جاتا اور ہانیہ کو چھوڑنے کا سوچتا تو ہانپ جاتا۔ گھڑی گھڑی اک آزمائش میں گزرنے لگی۔ ہاں اور ناں کے بیچ زندگی پھنس پھنس کر رکنے لگی۔ کئی بار زندگی کی سب رحمتیں، نعمتیں، خوشیاں اور سکون ہانیہ کے مقابل رکھ کر دیکھیں مگر وہ ہر بار جیت جاتی۔ جیب میں تھی محدود تنخواہ اور سفید پوش نوکری جس میں ایک پینٹ کوٹ کا خرچہ بڑی مشکل سے پورا ہوتا۔ ایسے خرچے میں اک نئی بیوی اور دو بچے کہاں فکس کرتا اور اس کے بچوں کا باپ کیسے بن سکوں گا۔ پھر کچن میں گھسی ہر وقت برتن دھوتی میری مظلوم سی اللہ لوک بیوی جسے خبر تک نہ تھی کہ اس کے سر کے تاج میں کیسی کیسی دراڑیں پڑ چکیں۔

”تم باپ مت بننا۔ ان کا باپ زندہ ہے! تم ایک بے ضرر انکل بن جانا بس! “ میں شرم سے اور ڈھے جاتا، کیسا کمزور مرد تھا میں! اور وہ ایسی بے خوف و خطر کہ جیسے ریت محل بنانے کی بات ہو۔ ہانیہ کی آنکھوں میں سلگتے جگنو ہر روز مجھ سے سوال کرتے میں جن کے جواب میں گنگ ہو جاتا۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے جمع تفریق کرتے میں وہ جواب نکالنے کی کوشش کرتا جو کسی طور نہ آتا۔ بستر کی اک اک سلوٹ میں اس کی کمی سانس لینے لگی تھی مگر دن کی روشنی میں زندگی کے حقائق سے لڑتے گھبرا جاتی۔

ہانیہ بھی دنیا کے مسائل سمجھ سمجھ کر تھکنے لگی۔ اپنے گھر سے روز تھکی ہوئی آنے لگی تھی۔ دو کشتیوں کی سواری اس کے اعصاب شکن کر رہی تھی۔ ”اب نہیں ہوتا! “ ”اب مزید نہیں ہوتا! “

میں صبر کرتا کرتا ٹوٹنے لگتا وہ روکتے روکتے نڈھال ہو جاتی۔ ایک خلش ہمارے ضمیر میں چھبتی ایک تیر ہمارے دلوں پر کھبا رہتا۔ دل تھا کہ سنبھلتا نہیں تھا اور معاشرے میں اس کا کوئی حل نہیں۔ ہر طرف سے توبہ کے مشورے کی بہتات تھا مگر دوسری شادی اور طلاق کے حق پر کوئی بات نہ کرتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ مجھے کھینچے پھرنے والی نے مجھے ایک بار پھر چونکا دیا۔ میں ابھی چکرایا چکرایا پھرتا تھاکہ ہانیہ نے انت کر دیا اور اپنے مزاجی خدا کے قدموں میں بیٹھ کر اپنے خالی ہاتھ اس کے سامنے کر دیے۔ وہ ہاتھ جن میں سے اس کے نام کی ہر چاہت وہ گنوا بیٹھی تھی۔ اس کے گھٹنوں کو چھوتے اس سے معافی مانگتے بہت کچھ خموشی سے چہرے اور دل پر سہہ لیا۔ کون کسی کی محبت میں سلگتی عورت کو گھر رکھتا ہے۔ جس شخص سے کی بے وفائی کے غم میں وہ صبح شام گھلتی جاتی تھی اس شوہر نے اسی رات ہاتھ پر کاغذ رکھ کر بچے روک کر اسے رخصت دے دی۔

وہ کمزور سی دکھنے والی ہانیہ سزا کو خموشی سے گلے لگائے ایک سہیلی کے گھر چلے گئی۔ کچھ دن میں میں نے بھاگ دوڑ کر کے اس کے لئے اک چھوٹے سے گھر کا بندوبست کر دیا۔ عدت کے ٹھیک چار ماہ ایک دن بعد ہم نے مسجد میں ایک مولوی صاحب کے سامنے نکاح کر لیا۔ اسی مولوی صاحب کے سامنے جن کے پاس اس مسلئے کا کوئی حل نہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).