کیا جنگ ابھینندن کی ہار اور حسن صدیقی کی جیت ہے


جنگ کسی ابھی نندن کی ہار اورکسی حسن صدیقی کی جیت کا نام نہیں بلکہ جنگ انسانیت کی ہار کا دوسرا کا نام ہے کیونکہ جہاں جنگ جیتتی ہے وہاں انسانیت ہار جاتی ہے۔ جنگ میں ایک طرف جہاں سینوں پر جرات، بہادری اور شجاعت کے تمغے سجھائے جاتے ہیں وہاں دوسری طرف انسانیت لہو لہو ہوتی ہے اورانسانیت کے ناحق خون کی صفِ ماتم بچھتی ہے۔ فرشتوں نے تخلیق انسان پر اسی لئے اعتراض کیا تھا کہ یہ ناحق ایک دوسرے کے خون کو مباح ٹھہرائے گا تو خالق انسان نے ان کے اس خدشہ کو یہ کہتے رد کر دیا تھا کہ وہ انسان کی ایسی خصوصیات کے بارے میں جانتا ہے جو فرشتے نہیں جانتے چنانچہ خالق انسان کے مدنظر وہ انسانیت تھی جو انبیاء اور اوتاروں کی شکل میں دنیا میں آئی جس نے انسانیت کے ساتھ سچی ہمدری اور خیر خواہی کا درس دیا۔ انسانوں میں سے ہی ایسے انسان پیدا ہوئے جن کا اوڑھنا بچھونا بس انسانیت ہی انسانیت تھا چنانچہ ایدھی، رتھ فاؤ اور مدر ٹریسا وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔

انسان اور حیوان میں مابہ الامتیاز طاقت گفتار ہے۔ انسان کو طاقت گفتار حاصل ہے جبکہ حیوان اس سے نابلد ہے۔ انسان جب اپنے مسائل کے حل کے لئے اپنی اس قوت کا استعمال چھوڑ دیتا ہے تو اسے حیوان بنتے دیر نہیں لگتی چنانچہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی انسان نے اپنے مسائل کا حل گفتار چھوڑ کر اور اپنے دونوں ہاتھوں کی طاقت آزما کر تلاش کیا تو حیوانیت کی مثالیں رقم ہوئیں۔ انسان نے جب اپنی انانیت کی تسکین کی خاطر جنگ کی راہ لی تووہ انسان نما حیوان بن گیا چنانچہ بغداد کی تباہی کا منظر نامہ کہ جب انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے، ہولوکاسٹ کی دل دہلا دینے والی اذیت ناک داستانیں، ہیرو وشیما اور ناگاساکی میں موت کی بھیک مانگتی ادھموئی انسانیت کی سسکیاں انسان کی حیوانیت کی چیدہ چیدہ مثالیں ہیں۔ خالق انسان کی تخلیق پر اعتراض کیسا اس نے تو انسانیت کے جوہر دکھلانے کی خاطرانسان پیدا کیا ہے جبکہ حیوانیت کی راہ انسان کا اپنا چناؤ ہے۔

اکیسویں صدی میں دنیا سمٹتے سمٹے ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ آج کسی کے بھی مفادات الگ الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں جنگ بھڑکتی ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے آناً فاناً پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے گی۔ آج اگر موجودہ صدی کے طالع آزماؤں اور طاقت کے سرچشموں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ وقت دور نہیں جب دنیا اپنی ہولناک تباہی کے دن دیکھے گی کیونکہ انسان نے اپنی تباہی کے بھیانک سامان پیدا کر لئے ہیں چنانچہ آج کے دور کا ایک معمولی نوعیت کا ایٹم بم اسکندر اعظم، ہلاکو خان اور ہٹلر کی مجموعی تباہی سے کہیں زیادہ انسانیت کی تباہی کر سکتا ہے۔

انسان کو یہ بات سمجھنے کی بہت ضرورت ہے کہ اس کی آزادی کی حد اتنی ہے جتنی اس کے ناک کی حد ہے اور جہاں اس کی ناک کی حد ختم ہوتی ہے وہاں دوسرے کی آزادی شروع ہو جاتی ہے اور کسی ایک ملک کی دوسرے ملک کے ساتھ ہلکی پھلکی چھیڑ خانیاں ایک ایسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں جہاں انسانیت کی حدود ختم ہو جاتی اور حیوانیت کی حدود شروع ہو جاتی ہیں چنانچہ دنیا دیکھ چکی ہے کہ 28 جون 1914 کو ہنگری کے ایک شہزادہ کا قتل جوجنگ عظیم اول کا پیش خیمہ ثابت ہوا جس نے کروڑوں زندگیوں کے چراغ گُل کر دیے اور یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ انفلوئنزا جیسی انسانیت سوز وبائیں پیدا ہو ئیں جن کی وجہ سے انسانوں کے مرنے کی تعداد جنگ عظیم اول میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے چنانچہ جنگ میں کسی ابھی نندن کی ہار یا حسن صدیقی کی جیت نہیں ہوتی بلکہ پوری انسانیت ہار جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).