ناول ٹوٹی ہوئی دیوار ۔۔دسویں قسط


دسواں باب

وقت : آٹھ بجے رات

تاریخ: 8 نومبر، 2015

مقام : شاہ فیصل کالونی نمبر 5۔ کراچی

جس رات شاہ فیصل نمبر پانچ تھانے پر دھاواپڑ ا تھا، اُس رات سارا علاقہ اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھا تھا۔ پہلے مولوی سلیم اللہ چار پانچ بندوں کے ساتھ ایس ایچ او سے ملنے کے لیے آیا اور جب بات بحث سے بڑھ کر چیخ و پکارمیں بدل گئی تب ایس ایچ او کے کان میں کانسٹبل رحیم داد نے کہا، ’‘سر جی یہ تو پوری طرح سے تیار ہو کر آئے ہیں، باہر لوگ صرف ڈنڈے لاٹھیوں کے ساتھ ہی نہیں اسلحہ بھی اُٹھائے ہوئے ہیں۔ ’‘

یہ سنتے ہی ایس ایچ او کا رنگ بدل گیا تھا مگر اس نے خود کو لمحے بھر میں کنٹرول کرلیا اور اُتنی ہی آہستہ سے پوچھا، ’‘ کتنے بندے ہوں گے۔ ؟ ’‘

”یہی کوئی دو ڈھائی سو تو ہوں گے۔ ’‘

یہ سنتے ہی ایس ایچ او کا لہجہ یکا یک نرم ہوگیا، ”اچھا اچھا مولوی صاحب ذرا دھیرج سے کام لو۔ “

مگر پھر جونہی مولوی شمس لحق کی گرما م گرم کال اِس وارننگ کے سا تھ آ گئی کہ ’ابھی تو صرف دو ڈھائی سو بندے ہیں کل دو ڈھائی ہزار بھی ہوسکتے ہیں۔ بات ناموس رسول کی ہے کوئی معمولی بات نہیں ہے‘ تو پھر ایس ایچ او منت سماجت پر اُتر آیا، ”مولوی صاحب، مولوی صاحب ابھی دیکھو بھائی۔ ابھی تو نا معلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر کٹی ہے نا، اب کسی نا کسی کو تو تھانے میں رکھنا ہو گا نا ہمیں۔ آپ سمجھتے ہو نا ہمیں بھی جواب دینا پڑتا ہے اُوپر والوں کو، “

اُس پر اُدھر سے مولوی شمس الحق نے ایس ایچ او کو سمجھاتے ہو ئے کہا، ”بھائی آپ کے اوپر والوں سے بھی کچھ اوپر والے موجود ہیں جن سے ہم بھی رابطے میں ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ٓاپ کی قانونی مجبوریاں کچھ حد تک ہوتی ہیں، تو ابھی تو ہم یہ ہی آپ کو کہیں گے کہ آپ یوں کرو کہ دو چار چرسی موالی تھانے میں بند کردو، یہ تو یوں بھی ہمارے معا شرے پر بوجھ ہی ہیں، یہ پھر اچھے مقصد کے لیے کب کام آینگے؟ آپ ان شر یف لوگوں کو چھوڑ دو یہ سب مسجد کے لوگ ہیں نیک مسلمان ہیں، ویسے بھی گستاخانِ رسول کو انجام تک پہنچانا قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی گناہ نہیں ہے۔”

اب یہ مولوی شمس الحق کی دھواں دھار تقریر تھی یا باہر کھڑے ہوئے دو ڈھائی سو اسلحہ بردار داڑھی والے پُر ایمان لوگوں کی موجودگی کا اثر یا پھر خود ایس ایچ کا اپنا سویا ہوا ایمان تھا جو مولوی صاحب کی دھواں دھار تقریر سے اچانک ہی جاگ گیا اور کچھ ہی دیر بعد اُس نے ایک دو اور جگہ فون کیا اور معا ملات کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے کانسٹبل رحیم داد کو اشارے سے کہا کہ اندر جو لوگ بند ہیں ان میں سے اُنہیں چھوڑ دے جن کا مولوی سلیم اللہ صاحب نام دیں۔

ادریس تھانے سے گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر خوشی سے حیران ہوگیا کہ کم و بیش سارا ہی محلہ ادریس کو دیکھنے اور مبارکباد دینے اُس کی گلی میں جمع تھا، چاروں طرف رونق ہی رونق تھی۔ ادریس کی بیوی تو خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہی تھی وہ خود مسجد سے آئے ہوئے لڈو محلے کے لوگوں کو بانٹ رہی تھی اور بار بار تھالیاں بھر کر صحن میں رکھتی جارہی تھی۔ رات گئے جب سب لوگ ایک ایک کر کے اپنے اپنے گھر روانہ ہونے لگے تو مولوی سلیم اللہ رخصت ہوتے ہوئے ادریس سے مصاحفہ کرتے ہوئے کہنے لگے، ”ادریس میاں کل عشاء کے بعد مولوی شمس الحق غریب خانے پر تشریف لارہے ہیں، انہوں نے آپ کو خصوصاٌ یاد فرمایا ہے۔ “

ادریس نے جھک کر مولوی سلیم اللہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر آنکھوں کے خم سے آنے کا وعدہ کر لیا۔ آہستہ آہستہ گھر خالی ہوتا چلا گیا اور پھر کچھ دیر بعد ادریس اور بختاور گھر میں اکیلے رہ گئے۔ اندر کمرے میں عثمان بے سدھ سو رہا تھا، سب کے جانے کے بعد پہلے تو ادریس نے صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھ پھیلا کر لمبی سی جمائی اور پھر وہی ترچھا ہوکر لیٹ گیا اور لیٹے لیٹے بختاور سے کہنے لگا، ”بختاور مجھے تو نیند آرہی ہے، آج کا دن بہت لمبا تھا بھئی۔ سن مجھے کل فجر کے وقت مسجد جانا ہے، مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ اب نماز قضا نہ کرنا اور مسجد میں وقت زیادہ دینا۔ “ ”یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ ’‘ بختاور نے مسکرا کر کہا

”اچھا سن۔ “ یہ کہہ کر ادریس نے لیٹے لیٹے ہی شلوار کی اندر کی جیب سے نوٹوں کی ایک موٹی گڈی نکالی اور بختاور کے ہاتھ میں رکھ کر کہا، ’‘ یہ روپے اندر الماری میں رکھ دے۔ ’‘ اور پھر اُس نے گلے پر سے پھولوں کے ہار اُتارے اور ایک طرف چارپائی پر ڈال د یے اور کروٹ لے کر لیٹ کر بختاور کو مسکراتے ہوئے دیکھنے لگا۔

”اتنے سارے پیسے۔ ! “ بختاور کی آنکھیں نوٹوں کو دیکھ کر چمک گئی، ”یہ کہاں سے آگئے۔ ؟ “

”اوہ کچھ نہیں۔ مولوی سلیم اللہ نے دیے ہیں خرچے کے لیے، وہ کہہ رہے تھے کہ چونے کا کام چھوڑ کر آئندہ بھی مسجد کے لیے ہی کام کروں! وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اللہ کے نبی یا ان کے صاحبہ کرام کے بارے میں بد فعلی کرنے والوں پر مجھے نظر رکھنی ہے محلے میں بھی اور محلے کے باہر بھی، کل بڑے مولوی صاحب ہیں نا مولوی شمس الحق صاحب، اُن سے ملاقات ہے عشاء کے بعد پھر وہ سمجھائیں گے کیا کیا کام ہیں جو مسجد کے لیے ہمیں کرنے ہیں، سب نیکی کے کام ہیں اور پیسے بھی گھر کے خرچ کے لیے بھی وہ ہی دیں گے۔ لے اور کیا چاہیے؟ “

”اسی لیے تو کہتے ہیں اُس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ “ بختاور نے رو پیوں کو مٹھی میں دبا کر آسمان کی طرف ٹیڑھی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے خوشی خوشی کہا۔

”چل ٹھیک ہے۔ ایک طرح سے تو تھانے جانا اچھا ہی ہوا، اپنے بھی دن پھرے۔ نہیں؟ “ ادریس نے بختاور کو خوش ہوتا دیکھ کر اُسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر اچانک اُسے کچھ یاد آیا تو اُس نے موضوع بدل کر کہا، ”اوے اپنے عثمان کی طبعیت کیسی ہے اب؟ الٹیاں اُس کی کم ہوگئی تھیں؟ میں نے رب نواز کو جاتے وقت کہا تھا کہ وہ عثمان کو ڈاکٹر کے پاس لے جائے، دکھایا تھا اُس نے۔ ؟ “

”ہاں ہاں دکھایا تھا ڈاکٹرصاحب کو، اور اُنہوں نے دوائیں بھی دی تھی، مگر ابھی تک کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا۔ ابھی بھی کبھی کبھار وہ الٹیاں کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ بہت ڈر گیا ہے عثمان، اُس دن جو آدمی کا واقعہ ہوا تھا نا چوک پر۔ اُس نے دماغ کو ذرا دھچکا پہنچایا ہے، تھوڑا ٹائم لگے گا ٹھیک ہوجائے گا۔ ’‘ بختاور نے اسی روانی سے ادریس کو جواب دیا جس روانی سے ادریس نے پوچھا تھاپھر کچھ لمحوں بعد کہا، “ اچھا چل منہ ہاتھ دھو لے اب میں کھانا لگا دیتی ہوں۔ ’‘ بختاور نے چارپائی سے اُٹھ کر کہا۔

”نہیں، نہیں۔ مجھے بھوک نہیں ہے، مولوی صاحب کے لوگ اتنی مٹھا ئیاں لائے تھے کہ کھا کھا کر ہی میرا تو پیٹ ہی بھر گیا، ابھی مجھے با لکل بھوک نہیں ہے۔ “ ا در یس نے جمائی لیتے ہوئے کہا، ”اور سُن ذرا دالان کی لائٹ بند کردے، میں یہیں سو رہا ہوں اب، کچھ گھنٹوں کی تو بات ہے پھر فجر میں اٹھنا ہی ہے ’‘ یہ کہتے ہوئے ادریس کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔

اندر کمرے میں آکر بختاور نے آہستہ سے الماری کا پٹ کھولا اور دراز نکال کر اندر سیف میں روپیوں کی گڈی چھپانے لگی کہ اچانک بختاور کو یوں لگا جیسے اُسے پیچھے سے کوئی تک رہا ہے، بختاور نے گھبرا کر پلٹ کر دیکھا مگر کوئی بھی نہیں تھا۔ ادریس باہر صحن میں سوتے ہوئے زور زور سے خراٹے لے رہا تھا اور سامنے کمرے میں عثمان اپنی چارپائی پر بے سدھ سو رہا تھا صرف آنسووں کے چند قطرے تھے جو عثمان کے گالوں پر بلب کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں چمک رہے تھے۔ شاید سونے سے کچھ دیر پہلے تک وہ روتا رہا تھا!

ٹوٹی ہوی دیوار۔ گیارویں قسط اگلے ہفتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).