جاوید بھٹو: ایک ضیافت جس کا افسوس رہے گا


کاش میں نے اس دعوت میں جانے سے معذرت کرلی ہوتی۔ میں عام طور پر دعوتوں میں نہیں جاتا۔ محفلوں میں شرکت نہیں کرتا۔ تقریبات میں شریک ہونے سے گھبراتا ہوں۔ پاکستان میں جھجک ختم ہوگئی تھی لیکن واشنگٹن آنے کے بعد پھر وہی حال ہوگیا ہے۔ کوئی مدعو کرتا ہے تو بہانے بناتا ہوں۔ خیالی مصروفیات بیان کرتا ہوں۔ شکریہ ادا کرکے معذرت کرلیتا ہوں۔ کاش میں نے اس دعوت میں جانے سے بھی معذرت کر لی ہوتی۔

کبھی کبھی مجھے دعوت قبول کرنا پڑجاتی ہے۔ اس کے بعد مقررہ دن تک میں سو سو بہانے سوچتا ہوں۔ عین اسی روز میں طبیعت خراب کرلوں گا۔ کسی رشتے دار کو ائیرپورٹ چھوڑنے کا عذر پیش کرلوں گا۔ بیٹے کی سالگرہ کا دن رکھ لوں گا۔ میں ہر بہانہ کئی کئی بار استعمال کرچکا ہوں۔ میزبان فون سن کر غصہ نہیں کرتے۔ وہ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ معذرت قبول کرلیتے ہیں۔ کاش میں نے اس دعوت میں جانے سے معذرت کرلی ہوتی۔

بعض اوقات واقعی کوئی مسئلہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً میں دعوت کا دن بھول جاتا ہوں۔ مثلاً استری کرتے ہوئے میری شرٹ جل جاتی ہے۔ مثلاً میں گھر سے نکلتا ہوں اور گاڑی خراب ہوجاتی ہے۔ مثلاً میں راستہ بھٹک کر کہیں اور جا نکلتا ہوں۔ میں کوشش کے باوجود دعوت کے مقام تک نہیں پہنچ پاتا۔ مجھے فون کرکے سچ مچ معذرت کرنا پڑ جاتی ہے۔ کاش میں نے اس دعوت میں جانے سے معذرت کرلی ہوتی۔ لیکن میں معذرت نہیں کرسکا۔ میں نے دعوت قبول کرلی۔

کوئی بہانہ یاد نہیں آیا۔ مجھے تیاری کرنا پڑی۔ میں راستہ نہیں بھٹکا۔ کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ میں دعوت کے مقام پر پہنچ گیا۔ راستے بھر میں ایک ہی بات سوچتا رہا۔۔۔ کاش میں نے اس دعوت میں جانے سے معذرت کرلی ہوتی۔ یہ ابھی دو ہفتے پہلے کی بات ہے۔ میں واشنگٹن کے ایک ایسے علاقے میں پہنچا جہاں پہلے کبھی نہیں گیا تھا۔ ساؤتھ ایسٹ سیاہ فام لوگوں کی اکثریت کا علاقہ ہے۔ میں نے اپنی میزبان کولیگ کو فون کیا۔ انھوں نے پہلی منزل سے جھانک کر مجھے دیکھا۔ ان کے شوہر مجھے ریسیو کرنے نیچے آئے۔ میں انھیں نہیں جانتا تھا۔ میں نے سوچا کہ ایک اجنبی شخص کے ساتھ کیا باتیں کروں گا؟ ایک بار پھر مجھے خیال آیا۔۔۔ کاش میں نے اس دعوت میں جانے سے معذرت کرلی ہوتی۔

میری کولیگ سنجیدہ خاتون ہیں لیکن ان کے شوہر ہنس مکھ اور خوش رہنے والے آدمی نکلے۔ ہماری پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ لیکن وہ ایسے ملے جیسے برسوں سے جانتے ہوں۔ میری کہانیوں کی تعریفیں کرتے رہے۔ دعوت میں تین چار دوسرے مہمان بھی آئے۔ ان سے میرا مبالغہ آمیز تعریفوں والا تعارف کروایا۔ اتنی تعریفیں کہ مجھے شرمندگی ہونے لگی۔ میں نے سوچا۔۔۔ کاش میں نے اس دعوت میں آنے سے معذرت کرلی ہوتی۔

آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہوگا کہ زندگی بھر کسی سے آپ کی ملاقات نہ ہوئی ہو۔ پھر ایک ملاقات اچانک سب بدل دے۔ آپ کو خیال آئے کہ اب تک آپ اس شخص سے کیوں نہیں مل سکے تھے۔ آپ اس شخص کے پرستار ہوجائیں۔ آپ خود سے وعدہ کریں کہ اس شخص سے دوبارہ ملنا ہے۔ بار بار ملنا ہے۔ اب اسے کھونا نہیں ہے۔ اس کے باوجود کل سے ایک ہی بات دماغ میں گردش کررہی ہے۔۔۔ کاش میں نے اس دعوت میں جانے سے معذرت کرلی ہوتی۔

کاش معذرت کرلی ہوتی۔ نفیسہ ہودبھائی خفا تو ہوتیں لیکن چند دن بعد ناراضی بھول جاتیں۔ کیا فرق پڑتا اگر میں مزید دو ہفتے جاوید بھٹو کو نہ جانتا۔ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ نہ دیکھتا۔ ان کے ساتھ گفتگو نہ کرتا۔ ان کے ساتھ کھانا نہ کھاتا۔ گھر میں داخل ہوتے ہوئے وہ مجھے سینے سے نہ لگاتے۔ رخصت ہوتے ہوئے میں ان کے گلے نہ لگتا۔ صرف دو ہفتے ہی کی تو بات تھی۔ پوری زندگی کی طرح یہ دو ہفتے بھی جاوید بھٹو سے ملے بغیر گزر سکتے تھے۔ اگر میں اس دعوت میں نہ جاتا تو ان کے قتل کی خبر ایک خبر کی طرح سنتا۔ نفیسہ کے لیے پریشان ہوتا لیکن جاوید کے بارے میں نہ سوچتا۔ ان کا کھلکھلاتا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے بار بار نہ آتا۔ میں ایک قیمتی شخص، ایک دوست، ایک استاد کھونے کے کرب سے بچ جاتا۔ میرا دل غم سے نہ ڈوبتا۔ کاش میں نے اس دعوت میں جانے سے معذرت کرلی ہوتی۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi