کشیدگی سے سبق سیکھ لیں!


گذشتہ رات مار گرائے جانے والے انڈین مگ 21 طیارے کے پائلٹ کو دو دن کی حراست کے بعد انڈین حکام کے حوالے کر دیا۔ عمران خان نے پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا تھا۔ الا چند ایک آوازوں کے مجموعی طور پر اندرون ملک بھی اس امر کو سراہا گیا۔ جتنی دیر وہ پائلٹ یہاں موجود رہا اس کی ہمارے مذہبی، اخلاقی اور سماجی اقدار کے تحت بھرپور مہمان نوازی کی گئی۔ جس کا اعتراف خود اس پائلٹ نے اپنے دو ویڈیو بیانات میں بھی کیا۔

آج سے قبل پاکستان کی شہرت دنیا میں غیر ذمہ دار اور جنگجو ریاست کی تھی، اس بات سے قطع نظر یہ تاثر مبنی بر حقیقت تھا یا مبالغہ، دنیا بہرحال اس پر یقین کرتی تھی۔ یہ سچ ہے گرفتار پائلٹ کی رہائی کا قدم عجلت میں اٹھایا گیا، اس کا منفی اثر بھی ہو سکتا تھا۔ جیسا کہ دیکھا گیا اس اعلان کے بعد انڈین چینلز اور سوشل میڈیا پر ڈھنڈور مچ گئی کہ پاکستان نے یہ کام دباؤ میں آ کر یا پھر حقیقی جنگ کی شروعات سے گھبرا کر کیا۔

اس کا فائدہ مگر یہ ہوا دنیا بھر نے دیکھا کہ کون بہادر ہے اور کون امن پسند۔ کس کی فطرت نفرت اور شرارت ہے، کس کی محبت اور متانت۔ کون اشتعال اور تخریب کا خواہاں ہے اور کون امن اور محبت کا پیامبر۔ یہ بھی بغور دنیا دیکھتی رہی، کس ملک کے عوام اور میڈیا کو شعور اور آگہی ہے اور کہاں ہیجان، جھوٹ اور بد تمیزی۔ حیرت ہے سرحد پار میڈیا نے یہ سوچنے کے بجائے، ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی ہو گا۔ یہ راگ چھیڑ دیا، پاکستان جان بوجھ کر پائلٹ کے استقبال کے جشن کی تیاری کو خراب کرنے کی خاطر تاخیر کر رہا ہے۔

کسی نے نہیں سوچا کچھ قانونی تقاضے ہوتے ہیں، رولز آف پروسیجر بھی کسی چیز کا نام ہے۔ سب سے بڑھ کر تحمل اور بردباری بھی ہونی چاہیے۔ پائلٹ کون سا لاہور فتح کر کے آ رہا تھا؟ جس کی فتح کا جشن ہم نے خراب کرنا تھا۔ دو ہفتے کشیدگی اور ٹینشن میں گزرے مگر، اس امر کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ہمارے وہ لوگ جو نفسیاتی طور پر انڈیا سے مرعوب تھے۔ اپنی دانشوری سے قوم کو بھی ”نکو“ بنا کر رکھتے تھے انہیں اور عالمی برادری کو خبر ہو گئی کم از کم انڈیا کے باب میں ہم تر نوالہ ہرگز نہیں۔ ہمارے جو محب وطن انڈین چینلز کی بکواس سے اپنا خون جلا رہے ہیں۔ سمجھ لیں کہ بھونکنے والے کتے کاٹنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

امر واقعہ یہ ہے پاکستان اس تمام عمل سے نہ صرف سرخرو ہو کر نکلا، بلکہ جس عالمی دباؤ کا سامنا اسے پچھلی تین دہائیوں سے تھا وہ اب انڈیا کی طرف مڑتا نظر آ رہا ہے۔ ہماری فوج کی دفاعی صلاحیت بھی دنیا پر آشکار ہو گئی اور ہمارا امن پسند تشخص بھی ازخود اجاگر ہو گیا۔ سب سے پتلی حالت اس وقت نریندر مودی اور بی جے پی کی ہے۔ جس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کی خاطر اتنا کھڑاک مول لیا، وہ تو پورا نہ ہوا الٹا مزید سبکی اور شرمندگی کا سامان پیدا کر لیا۔

پنجابی کہاوت ہے کہ سانپ کے گلے میں چھپکلی آ جائے تو نہ وہ اسے اگل سکتا ہے اور نہ نگل سکتا ہے۔ یہی حال مودی اور انڈین سرکار کا ہوا، محض انتخابات میں بیس تیس سیٹوں کی خاطر اپنے چھیالیس فوجی خود ہی مارے، الزام پاکستان پر لگا کر رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح سرحدی خلاف ورزی کی۔ تاکہ ایک بار پھر سرجیکل اسٹرائیک جیسی کہانی گھڑیں اور اپنے جاہل عوام کو لالی پاپ تھما کر مطمئن کر دیں۔ پاکستان نے مگر پلٹ کر جب حقیقی جواب دیا اور دو جہاز مار گرائے تو بزدل بنیے کی دھوتی گیلی ہوگئی۔ پیشاب خطا ہوا تو گھبرا کر مذاکرات کی پیشکش اور ڈوزیئر تھما دیا گیا۔

ہزیمت اٹھا کر یہ کچھ کرنا تھا، پہلے دن ہی کر لیتے۔ اب وہ حالت ہوئی کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ پلوامہ حملے کے بعد انڈیا کے لیے حالات بھی سازگار تھے اور عالمی دباؤ کا سامنا پاکستان کو تھا۔ اس وقت الحمدللہ پاکستان پورے قد سے کھڑا ہے اور انڈیا بیک فٹ پر جا چکا۔ ڈوزیئر میں کیا ہو گا؟ حسب معمول وہی واویلا کہ حافظ محمد سعید اور مولانا مسعود اظہر پر الزامات مگر، بلا ثبوت۔ درویش کو ناقدین مسلم لیگ ن کی حمایت کا الزام دیتے ہیں، برکس ممالک کے اعلامیے کے بعد جب اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی بات کی تھی، ان کے خلاف لگاتار تین کالم لکھے کہ گھر میں آخر برائی ہے کیا؟

ثابت کرو تو بیشک بندہ لٹکا دو ورنہ بلا ثبوت عدالتوں سے سرخرو ایک شخص کو مطعون کرنا کون سے انصاف اور فہم کے پیمانے پر اترتا ہے؟ درویش تسلیم کرتا ہے، وہ دور ختم ہوا جب پراکسی کے طور پر دشمن کی سرحدوں میں مداخلت کے لیے مسلح گروپ قائم کیے جاتے تھے اور انہیں آنکھ کا تارہ بنا کر رکھا جاتا تھا۔ لیکن یہ کیوں فراموش کرتے ہیں کہ غلطی صرف ہم سے ہی نہیں ہوئی۔ تمام دنیا نے یہ کام اپنے اپنے مفاد میں کیا اور میں نام نہیں لینا چاہتا دور کیوں جائیں، خطے میں بہت سے ممالک اب بھی یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تو پھر آخر ہم ہی بدنام کیوں؟

جواب بالکل واضح ہے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ آج کی دنیا میں وہی آواز معتبر، جس کی جیب میں چار دھیلے ہوں گے۔ یعنی ”جیہدی کوٹھی وچ دانے اوہدے کملے وی سیانے“۔ ہماری معیشیت کا حال ہمیشہ سے دگرگوں رہا اس کے سدھار کے بجائے طاقت کے مراکز اور سیاسی جماعتوں کی آپسی دست و گریبانی نہیں تھمتی۔ پیٹ کہاں سے بھرے گا؟ ”دوست ممالک“ ضرور مدد کو آئیں گے۔ کون سمجھائے ریاستوں کی دوستی کاروباری مفادات پر منحصر ہوتی ہے۔

کوئی اگر آپ کو ایک روپیہ دے گا، بدلے میں کچھ توقع کیے بیٹھا ہوگا۔ دیکھا نہیں؟ حالیہ معاشی بحران میں دوست ملکوں نے قرض دیا لیکن استعمال نہ کرنے اور تین فیصد شرح سود پر۔ بہت افسوس سے یہ الفاظ لکھ رہا ہوں آج تک خلیجی ممالک نے ہمیں کرائے کا سپاہی سمجھا اور ایک بار یمن جنگ میں ہم نے اپنے کندھے پیش کرنے سے انکار کیا، تمام ممالک خاص طور یو اے ای کی بدن بولی ہی الگ نظر آتی ہے۔ واحد ایٹمی مسلمان ملک کے مقابلے میں او آئی سی میں انہوں نے مسلم دشمن ملک کو محض مالی مفادات کی خاطر ترجیح دی۔

انکار نہیں، سرکار دو عالمؐ نے امت کو جسد واحد قرار دیا۔ جس کے ایک حصے پر کانٹا لگنے سے سارے جسم کو تکلیف پہنچتی ہے۔ ماضی میں ہمارا طرز عمل بھی یہی رہا۔

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

تلخ نوائی کی معذرت مگر کہنے دیجیے ہم نے آج تک مسلمانوں کی اشک شوئی نہیں بلکہ چند عرب شاہی خاندانوں کی بادشاہت کو لاحق خطرات میں مدد کی۔ کیا اب بھی یمن اور شام میں اپنی بادشاہت بچانے اور دوسرے کی گرانے کی کوشش نہیں۔ آج اگر بطور ریاست ہم نے یہ سبق سیکھ لیا کہ اپنی سرزمین پرائے ملک میں تخریب کے لیے استعمال نہیں ہونے دینی، ساتھ یہ بھی تہیہ کرلیں، بھوکے مرجائیں گے، سود پر ہی قرض لینا ہے تو غیر مسلم ملکوں سے لے لیں گے۔ مقامات مقدسہ کو خدانخواستہ خطرہ محسوس ہوا تو خون کا آخری قطرہ بہادیں گے مگر کسی کی بادشاہت بچانے یا علاقائی اتحاد کے لیے اپنا ایک سپاہی تک نہیں دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).