روحی بانو: زندگی تماشا بنی


آج صبح آنکھ کھلتے ہی فون چیک کیا، نیلم کا ”ایس ایم ایس“ تھا؛پڑھا تو چونکی کہ ”ارے لیٹ ہو رہی ہوں“۔ سو فٹا فٹ تیاری پکڑی کیونکہ اس نے مجھے اپنے گھر سے 30۔ 12 بجے پک کرنا تھا۔ اس سفر شوق جنوں سے قبل مجھے ایک دو ضروری کام نپٹانے تھے۔ ”ادیبہ زیدی“ جو اپنے ناگزیر حالات کو بڑی خوش اسلوبی سے سمیٹے ہوئے اپنے گھر کو قرینے سے سجا کر اس میں اپنا بوتیک بھی چلا رہی ہیں۔ اپنے ایک special child کی برگر سے لے کر kit kat اور pizzaکی فرمائشیں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ایک نازک اندام لڑکی کو بھی سہارے بیٹھی ہیں۔

ہوا یوں کہ میرا جو ڈریس انہوں نے بنایا میں اسے reject کر کے واپس لے گئی۔ لیکن انہوں نے وہی ڈریس مجھے ان ہی قدموں پر میرا پسندیدہ ڈریس منوا کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ گویا ہم جن چیزوں، انسانوں، options، یا حالات و معملات کو دھتکارتے ہیں یا ناپسند کرتے ہیں ان کو کج فہمی اور بے زیرکی کے ہاتھوں کھو بیٹھتے ہیں۔ کمزوری نظر کے باعث اصل، قیمتی، بیش بہا اور نایاب کی قدر ہی نہیں کرتے۔ بس نامنظور کو منظور منظور منظورکہتی سینے سے اپنے ڈریس کو لگاتی ہوئی گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ بڑے فخر سے ڈیفنس کی سڑکوں پر تمکنت سے آگے بڑھنے لگی۔

ذہن ابھی تک ”نامنظور کو منظور“ اور ”بے بصر سے بابصر“ کی وجہ تلاش کر رہا تھا۔ ادیبہ کے گھر میں صفائی اور ترتیب تو تھی مگر اس کا من صاف اور اتالیق تھا۔ اس ہی لئے وہ صرف بڑی بڑی نہیں چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو بھی اس ہی نظر سے دیکھتی تھی۔ تب ہی تو مجھے گرین ٹی کے ساتھ اپنی ایک عدد نظم بھی سنا ڈالی ؛ یوں وہ زندگی کے زخمی پرندے کو مرنے نہیں دیتی اور حالات کی کر چیوں سے اپنے ہاتھ زخمی کیے بغیر ماحول کو فردوس گوش بنائے بیٹھی ہے۔

ڈیفس ایچ بلاک میں ماسٹر نذیر سے اپنے وعدوں پر وعدوں کے باوجود نہ ملنے والے کپڑوں کی خیریت یوں دریافت کرتی جیسے ایک non believer انسان ہونے کے ناطے کسی مزار پر خیر کے واسطے نہیں ایک واقعہ کے سرزد ہونے کے لئے حاضری دے۔

راستے میں نیلم کو دوبارہ فون کیا کہ میں اس کے گھر ڈراپ ہو جاؤں گی، جہاں سے ہم اپنے اگلے پروگرام کا آغاز کریں گے۔ سترہ نومبر اور صبح کے بارہ کا وقت تھا۔ صاف شفاف دھوپ سارے ماحول کو جراثیموں سے پاک کر رہی تھی مگر یہ روشن دھوپ ہمارے اندر کیسے داخل ہو۔ ہم نے تو اپنے اپنے گرد نفرتوں، حقارتوں الغرض منفی رویوں کی چادر اوڑھی ہے۔ سو رویوں کو دھوپ نہیں کوشش کر کے ہم خود بدل سکتے ہیں۔ ابھی یہ سوال ذہن میں تھا کہ گاڑی نیلم کے گھر کے باہر پہچ چکی اور موصوفہ اپنی گاڑی سٹارٹ کر کے گلی کے کونے پر کھڑی تھیں۔

جب میں ایک سے دوسری گاڑی میں منتقل ہوئی لگا میرے اندر کا سارا ماحول بھی بدل گیا ہے۔ کچھ فاصلے پر گاڑی روک کر پھل خرید کر وہیں کھایا اور پھر گلبرگ کے سرحد ریسٹورنٹ پر چارپائیوں پر بیٹھ کر توی چکن کھانے کے بعد گلبرگ کے خوبصورت اور مہنگے ترین علاقے میں پہنچے جہاں پر اس ُخستہ حال کوٹھی کا گیٹ یوں کھلا تھا جیسے دعوت عام ہو۔ دائیں جانب چھوٹے سے لان میں منہ زور گھاس بڑھی ہوئی تھی اور کاغذوں کے علاوہ پرانے کپڑوں کے ٹکڑے بھی ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔

کار پورچ میں ایک زخم خوردہ گیلری کا سماں تھا۔ تینوں دیواروں کے ساتھ ساتھ فریم شدہ تصاویر زمین پر جما کر کھڑی کی گئیں تھیں۔ ایک طرف کو ایک چارپائی اور زمین پر ادھر ادھر کچھ رنگین پوشاک نما لباس اور گاوؤن بکھرے پڑے تھے اور درمیان میں ایک لوہے کا جستی ٹرنک اور ساتھ ہی لیدر کا ایک چھوٹا بیگ کھلا پڑا تھا۔ اس میں بھی چھوٹا موٹا سامان بکھرا پڑا تھا۔ فریم شدہ یہ تمام تصاویر اس خوبصورت حسینہ کی تھیں جس کا نام ”روحی بانو“ تھا، گورنمنٹ کالج لاہور سے سائکالوجی میں ایم اس سی کے دوران ہی ڈراموں میں کام شروع کر دیا۔

اس بلا کی حسین لڑکی کے مختلف پورٹریٹوں کے درمیان قائد ملت محمد علی جناح کی ایک بہت بڑی تصویر جس کو باقی ماندہ تصاویر سے ذرا اوپر اٹھا کر تعظیم سے رکھا گیا تھا۔ ایک عرصے سے بانو وہ کھلی کتاب تھی جس کو ہر کوئی پڑھ لیتا اور اس پر اپنے گندے کچیلے ہاتھوں کے نشانات بھی چھوڑ جاتا۔ اس کی زندگی کے صفحے تو پہلے سی ہی مختلف سیاہیوں سے لکھے گئئے تھے مگر اب!

پورچ کی اس بکھیر میں اخلاقی رویوں اور قدروں کی نمایاں جھلک تو موجود تھی، لیکن اس بے ترتیبی میں بھی ایک ترتیب موجود تھے، اس منفرد ماحول میں بے ساخت گی اور محبت کا اظہار نمایاں تھا؛ یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ مکین کو اپنے ماضی اور اپنے آپ پر فخر ہے، ندامت نہیں۔ اس ماحول کو میرے سے پہلے بے شمار دیکھنے والوں نے یہ تاثر دے کر بیان کیا کہ پاکستان کی نامور فنکارہ ”روحی بانو“، آج کل نا صرف اپنے آپ سے بے خبر ہیں بلکہ ذہنی توازن کے بگڑنے کی باعث وہ اپنے ماحول سے بھی کٹ کر رہ گئی ہیں۔

بالفاظ دیگر وہ زندہ درگوہ اور حالت سقر میں ہیں۔ مجھے یاد ہے بی ایس سی کے بعد اور ایم ایس کے داخلوں کے درمیاں چھٹیوں میں بیگم مجید کے اسکول ایسنا فانڈیشن کی ایک برانچ میں چند ماہ نوکری کی، وہاں پر میری کلاس کا ایک بہت پیارا لڑکا ”علی“ جس کی انگریزی کمزور تھی، جب اس کا رپورٹ کارڈ گھر گیا تو اگلے ہے روز اس کی والدہ سفید ساڑھی میں ملبوس گھبرائی گھبرائی آئیں اور کہنے لگیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ علی انگریزی میں اتنا کمزور کیوں ہے۔ میری پوری کوشش ہو گی اگلے امتحانات میں انگریزی میں بہتر ہو۔ اس کے لئے وعدہ کرتی ہوں کہ اس کے ساتھ انگریزی میں بات چیت کیا کروں گی اور اسے پیار سے سمجھاؤں گی۔ جو ماں بچے کے فیل ہو جانے ہر بھی بچے کو نہیں، اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائے، پہلی بات یہ ہے کہ وہ اپنی ذمداری سے غافل نہیں دوئم وہ اس سے کس قدر محبت کرتی ہو گی۔ ایسی عورت جس کی کلُ کائنات اس کا جگر گوشہ ہی ہو اور اس کو اس ہی گھر کے سامنے مار دیا گیا ہو تو وہ زندگی کی کتاب کو کیا بچاتی اس کا تو پیش لفظ ہی کوئی نکال کر لے گیا تھا۔

نیلم اور میں نے وہیں پورچ میں کھڑے کھڑے تین چار مرتبہ اس کے نام سے پکارا تو اندر سے ایک خوبصورت حسینہ بلیک لانگ کوٹ اور جیینز میں، آنکھوں پر بلیک شیشوں کا چشمہ لگائے باہر آئیں۔ جذبات سے عاری روحی کی آنکھیں کسی کی بھی منتظر نہیں تھیں۔ اس کواس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کہ کون آرہا ہے اور کون جا رہا ہے، چونکہ وہ ”اپنی زندگی کا سفر مکمل کر چکی تھی“۔ اب وہ حالت انتظار میں پلیٹ فارم پر بیٹھے اپنی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی۔

اس کے اثاثے، اس کی یادیں اور اس کے دوست احباب جو اس کے حقیقی لمحات کو اس کی جھولی میں واپس ڈالنا بھول گئے تھے۔ وہ گلہ کرنے لگی ”یہ ٹی وی والے مجھے بلاتے نہیں، بشرہ کو بولو کہ وہ ان کو کہے کہ مجھے بلوائیں تاکہ میں کچھ کروں۔ یہ کہتے ہوئے نا اس کے چہرے پر ملتجی تھی اور نا ہی کوئی جذبات تھے۔ یہ کہہ کر وہ اندر جانے لگی اور لیکن یک دم رک گئی اور کہنے لگی کہ بجلی اور گیس دونوں محکموں نے میرے کنکشن کاٹ دیے ہیں، لیکن کچن ہے کھانا بنا لیتی ہوں، ہم نے کہا ہم اپنا کھا کر اور تمہارے لئے پیک کروا کر لائے ہیں، یہ کھا لو۔

بیٹھتے ہوئے فورا میری لپ اسٹک کی تعریف کی، میں کہا تم بھی لگا لو وہ فورا راضی ہو گئیں تو نیلم، بانو اور بینا ایک ہی کشتی میں سوار ہو کر زندگی کے پانیوں میں اپنا اپنا عکس ڈھوڈھنے لگیں۔ تینوں کے چہروں پر باوقار اور سرفراز ہونے کی التجا تھی لیکن یک دم روحی گنگنانے لگی ”زندگی تماشا بنی دنیا دا ہاسا بنی“ اپنی ضعف کی دھن میں سر بیت اچھے نکلے اور وہ اپنی خوبصورت آواز میں گاتے گاتے گھر کے اندر چلی گئی۔ اس گھر کے اندر اندھیرا ہی اندھیرا تھا، دیواریں بوسیدہ، نا بجلی نا گیس، نا خوشی نا غم، نا قرینے سے پڑا میز نا کرسی، بس زمین پر بظاہر الٹ پلٹ چیزوں کی بھر مار تھی۔ لیکن ان کے درمیان ایک راستہ تھا، جس پر روحی چل رہی تھی۔ اندھیرے کے اندر بھی روحی کی روشنی موجود تھی اور وہ اس کے من کی روشنی تھی۔ خوشی اور غمی کے جذبوں کی عدم موجودگی کے باوجود نفس مطمئنہ تھا جو اس کو زندہ اور لوگوں کو حیران کر رہا تھا۔

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).