بھارتی پائلٹ کی رہائی سے دبئی کی اسلامی کانفرنس تک


گزشتہ دو تین ہفتوں سے پاکستان سے لیکر بھارت تک خطے میں جنگی ماحول ہے۔ اس کا آغاز مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ میں بھارتی فوج کے بڑے قافلے پر ایک خود کش حملے کے بعد سے ہوا جس میں چالیس بھارتی سیکورٹی اہلکار مار دیے گئے۔ یہ حملہ بھی بھارت کے قبضے میں کشمیر میں پیدا ہونے والے عادل احمد ڈار نے کیا، جبکہ حملہ کی ذمہ داری کی قبولیت جیش محمد کی طرف سے ہوئی۔ حیرت کی بات یہ کہ صرف ایک گھنٹہ کے اندر اندر اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا گیا اور کہا گیا کہ اب پاکستان بھی جوابی کارروائی کے لئے تیار رہے۔

حملہ چودہ فروری کو ہوا، اس دوران پاکستان کی اسلام آباد کی سرکاری مشینری سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے کی تیاری میں بھرپور طریقے سے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ کیوں کہ صرف چار دن بعد انہوں نے پاکستان آنا تھا اور پھر پاکستان کے بعد بھارت جانا تھا۔

اس صورتحال میں شاید ہی کوئی ملک اس قسم کی سرحد پار حملوں میں مدد دینے یا غیر ریاستی ایکٹروں کو استعمال کرنے کا سوچ بھی سکتا ہے، اور اگر ایسا ہے اور کیا، تو میرے نزدیک اس سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ رویہ کسی کا نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی اب دور آچکا ہے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کو ہر ریاست کو خدا حافظ کہ دینا ہوگا کیوں اگر ریاست کو اپنی اصل ذمہ داری پوری کرنی ہے تو وہ صرف اور صرف ملک کو اقتصادی محاذ پر اتنا مضبوط کر دینے میں ہے کہ یہاں کے لوگ غربت افلاس اور بے روزگاری سے پاک ماحول میں رہ کر ملک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ پاکستان کہہ چکا ہے کہ اب اس کی خارجہ پالیسی اقتصادی تعلقات پر مبنی ہو گی۔

اب کشمیر کا دیکھنا ہے آخر یہ مسئلہ ہے کیا؟ کیا مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کسی بیرونی حمایت سے پیداکی جا سکتی ہے؟ کیا کشمیریوں کے ساتھ جو بھارتیوں کا رویہ ہے وہ کشمیریوں کے لئے اپنی آواز بلند کرنے کے لئے کافی نہیں؟

کشمیری نوجوانوں کا بھارتی شہروں میں رہنا، وہاں یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنا دوبھر ہو گیا ہے، انہیں شدید تشدد کا سامنا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پورا بھارتی میڈیا دو ہزار سولہ سے چیخ رہا ہے کہ اب وادی کشمیر میں صورتحال مقامی نوجوانوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ اور اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوان آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، جبکہ ہمارے (بھارتی) سیاسدانوں کی سیاست کشمیر میں اٹھارہ سال سے بڑی عمر کے لوگوں کے لئے ہے۔ دنیا کہہ رہی ہے کہ کشمیریوں کی تحریک اب وہاں کے نوجوان خود چلا رہے ہیں۔

پلوامہ پر الزام تراشی اور بھارتی دھمکیاں سعودی شہزادے کی پاکستان اور بھارت کے دورے تک جاری رہیں۔ جوں ہی محمد بن سلمان کا دورہ ختم ہوا، بھارت کے جارحانہ رویہ تیز ہو گیا۔ دو مارچ کو رات کی تاریکی میں بھارت کے جنگی طیارے پاکستان کی سرحدوں کو عبور کر کے بالاکوٹ کے قریب پہنچ گئے، جب پاکستان کے طیاروں نے انہیں چیلنج کیا تو اپنے بم گرا کر واپس بھاگ لیے۔

اگلے دن پھر ان کے جہازوں نے پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کی، پاکستان پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ اب اگر خلاف ورزی ہوئی تو انہیں سرپرائز ملے گا، پھر ہوا یہ کہ پاکستان نے ان کے دو طیارے مار گرایے، ایک پاکستان کے اندر اور دوسرا سرحد پار جا گرا۔ پاکستان نے انکا ایک پائلیٹ ابھی نندن بھی پکڑ لیا۔

پاکستان نے زبردست ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا اور وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اعلان کیا کہ بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو بھارتی حکام کے حوالے کر دیا جائے گا اور اگلے روز ہی یعنی جمعہ کو وطن واپس جا چکا ہے۔ عمران خان نے اعلان کیا کہ یہ صرف خطے میں امن اور خیر سگالی کے جذبے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ ساتھ میں انہوں نے ایک ہفتہ میں دوسری بار بھارت کی طرف اور نریندر مودی کو مخاطب کر کے پھر سے بات جیت کی دعوت دی، اور بھارتی وزیر اعظم سے تین بار ٹیلیفون رابطے کی بھی کوشش کی۔

یہاں یہ سوال میں ضرور اٹھاؤں گا کہ بھارت کے پائلٹ کو ضرور واپس بھیجنا چاہے تھا لیکن آخر اتنی جلدی کیا تھی؟ اور پھر بھارت نے اس کی واپسی کی درخواست نہیں کی، تو پھر ہمارے وزیر اعظم کو کیا پڑی تھی کہ وہ مودی جیسے جنونی شخص سے بات کرنے پر تلے تھے اور بجایے اس کے کہ بھارت کو بات چیت کی میز پر لانے تک ونگ کمانڈر ابھی نندن کو واپس نہ کرتے۔

ادھر ہماری امت کا حال دیکھو کہ پاکستان او آئی سی کا بانی ملک ہے، اس کی مرضی کے خلاف اور احتجاج کو نظر انداز کر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو نہ صرف دبئی کے اجلاس میں بلایا بلکہ انہیں خطاب کا موقع بھی فراہم کر کے ان کا موقف سنا۔ میرے نزدیک پاکستان کے وزیر خارجہ کو نہ صرف وہاں جانا چاہے تھا بلکہ بھارتی جارحیت، کشمیریوں پر ظلم ستم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرتے اور بھارت کی موجودگی میں احتجاج کر کے اسلامی ممالک سے پوچھتے کہ ان کی یہاں موجودگی اسلامی تعاون کی تنظیم کے کس اصول کے مطابق ہے کیوں کہ نہ تو وہ اس کا رکن اور نہ اس کی حیثیت مبصر کی ہے۔ پاکستان کی غیر حاضری نے بھارت کو اپنا موقف پیش کرنے کھلا موقع فراہم کیا، جو ہماری ناکامی ہے۔

ادھر سعودی عرب کے وزیر خارجہ جو اتوار کو پاکستان آ رہے تھے جس کے بعد انہوں نے بھارت بھی جانا تھا، اب یہ دورہ بھی آخری اطلاعات تک ایک ہفتے کے لئے موخر ہو چکا ہے، وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ بھارت نے دورے کے حوالے سے مثبت جواب نہیں دیا۔ توابھی کیا یہ سمجھا جائے کہ کشیدگی ختم کرنا تو دور کی بات بھارت ابھی کشیدگی کو کم بھی نہیں کرنا چاہتا؟

میرے نزدیک جب تک بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہو جاتا، یہ کشیدگی جاری رہے گی، کیوں کہ مودی کی انتخابات میں التوا کی خواہش کے باوجود بھارت کے چیف الیکشن کمیشر کہہ چکے ہیں کہ پاک بھارت کشیدگی کے باوجود انتخابات وقت پر ہوں گے۔۔ تاہم حتمی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کی ٹیم چار اور پانچ مارچ کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کر کے کرے گی۔

تو کیا ہم سمجھ لیں کہ کشیدگی میں یہ تیزی الیکشن کمیشن پر دباو ڈالنے کے لیے ہے کہ الیکشن ملتوی کیے جائیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).