مودی کا ہیرو، ہمارا محسن


ابھے نندن ہمارا ہیرو ہے۔ اس نے پاکستان کا ایف سولہ طیارہ مار گرایا ہے۔ جس کا ملبہ ہوا میں تحلیل ہو گیا اور اس کے بے نام پائلٹ کی راکھ دریائے سندھ میں جا گری۔ مودی نے اپنے ہیرو کو واپس آنے پر مبارک باد دی ہے۔ یہ ہیرو پاکستان پر حملہ کرنے آیا تھا۔ پاکستانی جہازوں نے اس ہیرو کے جہاز کو نشانہ بنایا۔ یہ ایجکٹ کر گیا۔ پاکستانی ظالموں نے اسے جان سے مارنے کی کوشش کی لیکن پاک فوج کے رحم دل جوان اسے بچا کر لے گئے۔

اسے چائے پلائی، میک اپ کرایا، پاکستانی فوج کے حق میں بیان ریکارڈ کرایا اور میڈیا کے سامنے پیش کردیا۔ وہ چائے بھی پی رہا تھا اور بیان بھی ریکارڈ کرا رہا تھا۔ چائے کی تعریف سن کر مودی کو اپنی جوانی ضرور یاد آئی ہوگی جب وہ ایک ریلوے سٹیشن پر چائے بیچا کرتا تھا۔ بہر حال یہ ڈیموکریسی کا کمال ہے کہ چائے بیچنے والا وینڈر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سب سے بڑا لیڈر بن جائے۔ یہ جمہوریت کا ہی کمال ہے کہ ایک مسلمان ڈرائیور کا بیٹا عیسائیوں کے ملک برطانیہ کے عظیم الشان دارالحکومت لندن کا مئیر منتخب ہو جائے۔

ابھے نندن اور مودی دو انسان نہیں ہیں، برصغیر پاک و ہند کے اربوں انسانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے دو معمولی کردار ہیں۔ نفرت کی آگ میں انسانوں کو جھونک کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے والا یہ ظالم گجرات میں پہلے ہی خون کی ہولی کھیل چکا ہے۔ مودی جیسے ظالم، خود غرض اور چالاک انسان سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔

پاکستان نے جس طرح صبر اور حوصلے سے اس سارے معاملے کو ڈیل کیا ہے باعث اطمینان ہے۔ جس طرح پاک فوج نے میدان جنگ کا نقشہ ترتیب دیا اور بھارتی طیاروں کو حکمت عملی کے تحت اپنے علاقے میں بلا کر شوٹ کیا، قابل صد ستائش ہے اور پوری قوم کو ان کی جنگی حکمت عملی پر بھر پور اعتماد ہے۔ اس اعتماد کا مظاہرہ عوام نے سڑکوں پر جلوس نکال کر اور فوج کو سیلیوٹ کرکے دیا ہے۔ عوام کے نمائیندوں نے پارلیمنٹ اور میڈیا پر حکومت کے ساتھ صد اختلافات کے باوجود یکجہتی کا مظاہرہ کر کے دیا ہے۔

پارلیمانی لیڈروں نے فوج کے سربراہ کو اپنی حمائیت کا پورا یقین دلایا ہے اگرچہ اس بریفنگ میں حکمران اور مجارٹی پارٹی کے سربراہ نے شرکت نہ کرکے ایک بڑی حماقت کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ جب پوری قوم یکجان و یک آواز ہو چکی، آپ کا دل ابھی بھی نفرت و بغض لئے بیٹھا ہے جو کسی بڑے لیڈر کے شایان شان نہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں فتح پانے والے برطانیہ کے وزیر اعظم چرچل روزانہ کی بنیاد پر اپوزیشن ارکان سے مشاورت کیا کرتے تھے۔ اسی لئے انہیں کامیابی نصیب ہوئی۔ دنیا میں آج تک کسی قوم نے حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کی جو یکجہتی نہ کرسکے اور ایک نصب العین پر متفق نہ ہو۔

برصغیر پاک وہند محمد بن قاسم کی آمد سے پہلے ہندوستان کہلاتا تھا۔ یہ ملک دنیا کی بد ترین قسم کی طبقاتی تقسیم کا شکار تھا۔ یہاں کی زیادہ آبادی غریب اور شودر کہلاتی تھی۔ برہمن اس گندے سماج کا چودھری تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ معاشرہ اتنی بدترین طبقاتی تقسیم کے باوجود پرامن تھا۔ اور برہمن سامراج کے تسلط کو بخوشی اور برضائے رغبت قبول کئیے ہوئے تھا۔ محمد بن قاسم نے یہاں کے لوگوں کو اپنے مختصر قیام کے دوران انسانئیت کا جو درس دیا اس کی زندہ مثال پاکستانی حکام کے ابھے نندن کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔

برّصغیر پر مسلمانوں نے کسی نہ کسی طرح سات سو سال حکومت کی ہے۔ کسی بھی مسلمان حکمران کے دور میں ہندو آبادی کو کمتر نہیں سمجھا گیا نہ ہی ہندو آبادی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ بلکہ مسلمان حکمرانوں نے ہندو کو اپنے درباروں میں اعلٰی مناصب سے سرفراز کیا۔ انھیں امور مملکت میں باقاعدہ حصہ دار بنایا۔ اکبر اعظم نے تو حد کردی۔ ہندو کو اعلٰی مقام دینے کی خاطر اپنے ہی دین میں ترمیم کرتے ہوئے دین اکبری نہ صرف بنایا بلکہ اس کو نافذ کرنے میں بھی اپنے تن من دھن کی بازی لگا دی۔

ہندوستان پر انگریز کے غلبے کے خلاف اگر کسی نے جدوجہد کی تو وہ مسلمان ہی تھے۔ کوئی ہندو راجہ مہاراجہ انگریز کے خلاف جدوجہد کرتا نظر نہیں آتا۔ نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کی مثالیں دینے پر ہندو بھی مجبور ہے۔ بہادر شاہ ظفر، کہ مرا ہوا تاجدار تھا لیکن بجھنے سے پہلے وہ بھی پھڑپھڑاتا رہا تاوقتیکہ اپنے ہی داغ مفارقت دے گئے۔ اسی لئے انگریز نے اپنے سو سالہ اقتدار میں اگر کسی سے خطرہ محسوس کیا تو وہ مسلمان تھا۔

ہندو سے انگریز نے کبھی خطرہ محسوس نہیں کیا۔ انگریز کی اس پالیسی کی وجہ سے ہی ہندو شیر ہوتا گیا اور ہندوستان میں مسلم کش فسادات کی ابتدا ہوئی جس نے قائید اعظم محمد علی جناح کو مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے مطالبے پر مجبور کیا۔ حالانکہ گاندھی تقسیم رکوانے کے لئے محمد علی جناح کو پورے ہندوستان کی حکومت دینے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ تقسیم ہند نے جہاں کثیر تعداد میں برّصغیر کے لوگوں کو ہجرت پر مجور کیا وہیں وسائل کی تقسیم اتنی پیچیدہ ہوگئی کہ دریا اور ندی نالے بھی ہجرت پر مجبور کر دیے گئے۔

کشمیر کا تنازع ان میں سب سے مشکل حل طلب ثابت ہوا۔ اس مسئلے پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جہاں جنگ کا بازار گرم ہوتا رہا وہیں طاقت اور ہتھیاروں کی دوڑ نے دونوں ممالک کو معاشی طور پر پسماندگی کی طرف دھکیلے رکھا ہے۔ آج دونوں ممالک پر ایٹمی جنگ کے کالے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ آدھی دنیا بلا وجہ اور بے قصور ایٹمی جنگ کے دھانے پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے دنیا کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ کتنے بڑے آتش فشاں کے قریب پہنچ چکی ہے۔

کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے انڈیا نے پہلے تو وہاں نام نہاد ڈیموکریسی کو قربان کیا۔ اس کا فائدہ نہیں ہوا تو کشمیر کو گولہ بارود کے حوالے کردیا۔ ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں کی شہادت بھی دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکام ہوگئی۔ پلوامہ حملہ بھی رائیگاں جاتا اگر بھارت میں الیکشن نہ ہوتے اور اگر مودی وزیراعظم کا امیدوار نہ ہوتا۔ مودی کی گھٹیا ذہنیت نے اسے پاکستان کے اندر سٹرائیک پر مجبور کیا۔

ہر بار مودی ایسے ہی کرتا رہا ہے۔ اب کی بار پاکستان تیار بیٹھا تھا۔ مودی کے ہیرو کو زندہ گرفتار کرکے پوری دنیا کو بتایا کہ ہندوستان کی جارح حکومت دنیا کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہے۔ پاگل مودی دنیا کو ایٹمی جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔ ابھے نندن مودی کا ہیرو سہی ہمارا بھی محسن ہے۔ ابھے نندن کی حماقت اور بزدلی کی وجہ سے ہم سوئی ہوئی دنیا کا ضمیرجگانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ابھے نندن کو واپس کرکے مودی کو جو تھپڑ ہماری حکومت نے رسید کیا ہے اس کی تکلیف اسے دیر تک یاد رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).