اسلام کا قلعہ اور تنہا پہرہ دار


پائلٹ ابھینندن گھر پہنچ چکا ہے۔ انڈیا نے 24 گھنٹے گزر گئے شکریہ کے دو بول نہیں بولے۔ بولتا بھی کیوں؟ اس نے تو ہوا باز کو مانگا ہی نہیں تھا۔ ہماری حکومت (اصلی اور ظاہری دونوں ) چاہے کتنا ہی خیر سگالی، انسانی ہمدردی وغیرہ کا راگ الاپتے رہے مگر دنیا ماننے کو تیار نہیں۔ حکومت کچھ عرصے کے لئے عوام (خاص کر پی ٹی آئی کے جوشیلے کارکنوں ) کو تو بیوقوف بنا سکتی ہے مگر دنیا بیوقوف نہیں۔ دنیا ریشنل ہو کر معاملات کو دیکھتی ہے۔

دیکھیں! ہوا باز کو آج نہیں تو کل چھوڑنا ہی تھا مگر جس انداز میں غیر مشروط اور بن مانگے رہا کر دیا گیا، کیا کوئی بیرونی پریشر کے بنا یہ سب کچھ ہوا؟ پھر وہی بات ہم پاکستانی اپنی حکومت کی نیت پر شک نہ بھی کریں تو دنیا ماننے کو تیار نہیں۔ چاہے سفارتی دنیا میں دیکھیں یا عالمی میڈیا کو، صاف دکھتا ہے کہ پاکستان کو میدان کا فاتح اور میز پر مفتوح (اور میز بھی سجے بغیر) کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ابھینیندن کی رہائی کو پریشر کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

27 فروری کی صبح پاک فضائیہ کی جانب سے اتنا موثر جواب دیے جانے کے بعد پاکستان کے فوری بیک فٹ پر آنے میں عقل مندوں کے لئے کئی اشارے ہیں۔ یہاں یہ بھی پیش نظر رہے کہ عمران خان تسلیم کر چکے ہیں کہ دو سے زائد بار مودی کو فون کرنے کی کوشش کی مگر اس اکڑو نے لفٹ نہیں کرائی۔ یعنی 27 فروری کو پاکستان فاتح بننے کے بعد اس کے وزیر اعظم کو خود ہی مذاکرات کے لئے منتیں کرنا پڑیں۔ بار دیگر عرض کہ یہ امن کی آشا، جذبہ خیر سگالی کا ڈھول ہم جتنا پیٹیں بیرونی دنیا اسے ہماری مصلحت ہی سمجھ رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ سب کیونکر ہوا اور آگے کیا کیا جائے؟

پاکستان کے فیصلہ ساز دماغوں کے سامنے پوسٹ وار (ما بعد جنگ) کا منظر تھا۔ اول معاشی صورت حال اور دوم سفارتی چینلجز۔ اگر جنگی جنون میں مبتلا، انسانی لاشوں پر چناؤ میں کامیابی کا بھوکا مودی کوئی ایڈونچر کر لیتا تو یقینا پاکستان ایسا ہی جواب دیتا جیسا 27 فروری کو جہاز گرا کے اس کے دانت کھٹے کر چکا۔ مگر جنگ کے بعد کی صورت حال سنبھالنا کافی مشکل ہوتا۔ انتہائی مخدوش اور غیر مستحکم معیشت کا حامل ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا چاہے آپ کا دفاع کتنا مضبوط کیوں نہ ہو؟

پاکستان کے فیصلہ سازوں کے سامنے جو سب سے بڑا چیلنج تھا اور ہے وہ ہے ہماری سفارتی میدان میں تنہائی۔ انڈیا پاکستان کی سرحد کے اندر گھس آیا۔ مودی لگاتار بھبھکیاں دیے جا رہا ہے۔ مگر کہاں ہے ہمالیہ سے بلند سمندر سے گہرا دوست چین؟ کیوں نہیں آیا خادم حرمین الشریفین؟ امریکہ اور ایران نے بھی خاموش رہ کر وزن ایک طرح سے انڈیا کے پلڑے میں ڈال دیا۔ حتی کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو خود ایران، عرب امارات، واشنگٹن، سعودی، ماسکو فون کرنے پڑ رہے ہیں کہ ہمارے مودی سے مذاکرات کرا دیں۔

لہٰذا یہ ایک موقع ہے۔ پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں، عسکری اتھارٹیز اور عوام اب اپنی فکر کریں۔ ساری دنیا کی فکر چھوڑ دیں۔ آپ تو خود ساختہ اسلامی قلعہ ہو نا، مگر 56 ملکوں میں سے (ترکی کے دو بول بولنے کے سوا) نے کسی نے آپ کو نہیں پوچھا۔ او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کا آپ نے بائیکاٹ کیا، کسی نے یہ تک نہیں کہا کہ بائیکاٹ نا کرے یعنی مکمل نو لفٹ 56 ملکوں کی جانب سے۔ اور بھارت ٹھہرا مہمان خصوصی۔

لھذا اب ٹھیکیداری چھوڑ دیں۔ نئی آزاد خارجہ پالیسی وضع کریں۔ یہ امت کا تڑکا بھی اب نہیں چلے گا۔ آپ کی جیب میں پیسہ ہو گا، بھیک مانگنا چھوڑ دو گے، معیشت کو مضبوط کرو گے اور ملک کو عالمی بیوپاروں کے لئَے ایک پر امن منڈی بناؤ گے تو آج کی دنیا میں آپ کا وقار خود بلند ہو گا۔ خیر سگالی آپ کو نہیں کرنی پڑے گی بلکہ دنیا آپ کا خیر مقدم کرے گی۔ اور آپ کو مودی سے مذاکرات کی منت بھی نہیں کرنا پڑے گی۔ وہ خود آپ کے قدموں میں آ گرے گا۔

بشرط یہ کہ سمجھداری کا مظاہرین کریں، عالمی تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کریں، ملک کو نام نہاد اسلامی قلعہ نہیں مضبوط معیشت کی مارکیٹ بنا لیں۔ باقی ڈاکٹر مبارک علی کئی برس پہلے کہہ چکے ہیں کہ پولیٹیکل اکانومی کے اس دور میں دنیا میں امت کا کوئی وجود نہیں۔ سو بہت ہو چکا۔ اب پاکستان کی بات کریں۔ امت تو اب کراچی کا ایک اخباری مالک 18 روپے میں بیچ رہا ہے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen