انڈیا، دہشت گردی، سعودی عرب اور وقتی مزہ


بین الاقوامی تعلقات میں یہ زبانی کلامی تو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہمارے تعلقات باہمی بھائی چارے پر مبنی ہیں لیکن اس حقیقت سے بہرحال پردہ پوشی ممکن ہی نہیں ہوتی کہ یہ تعلقات دو طرفہ مفادات اور باہمی اغراض کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان سے وابستہ 3 ایسے واقعات ہوئے کہ جن سے وطن عزیز کے مفادات براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ پلوامہ واقعہ، سعودی ولی عہد کا دورہ پھر افغانستان کی صورتحال تو ہمہ وقت ہمارے ساتھ ساتھ ہی رہتی ہیں۔

یہ تمام معاملات بظاہر جدا جدا ہیں لیکن ان کے اثرات باہمی پیوستہ ہیں۔ پلوامہ واقعہ پر بھارت کا جو رد عمل سامنے آیا ایسا رد عمل وہ اکثر و بیشتر واقعات پر دیتا ہی رہتا ہے۔ اور اس کا ماسوائے اس کے اور کوئی مقصد نہیں کہ اپنی اور بین الاقوامی رائے عامہ میں اس تصور کو پختہ کیا جائے کہ پاکستان بقول اس کے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اور اس ذریعے سے وہ پاکستان میں اپنی دہشت گردی جس کا ایک ثبوت کلبوشن یادیو ہے پر سے دنیا کی نظروں کو ہٹانا چاہتا ہے۔

اور اس گمان میں ہے کہ وہ اس پروپیگنڈے کے سبب سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا یہ دھول اس وقت تک صرف اپنی آنکھوں میں برداشت کرتی ہے جب تک ان کے مفادات اس تصور کی آبیاری اور بھارت سے دوستی میں جڑے ہوئے ہیں۔ ورنہ کسی کو کیا کہ کیا ہو رہا ہی۔ مارک ٹوئن نے کہا تھا کہ ”بینکر اچھے وقتوں کا بہترین ساتھی ہوتا ہے۔ موسم اچھا ہو تو زبردستی اپنی چھتری ہاتھ میں تھما دیتا ہے لیکن جیسے ہی چھینٹے پڑنے لگیں تو کہتا ہے لاؤ میری چھتری“ بس اس میں بینکر کی جگہ بین الاقوامی تعلق لکھ لو بات یہی ہے۔

بھارت کے بھی اس وقت دنیا کے بینکروں سے مراسم ہیں کہ وہ اس کو چھتری پکڑا رہے ہیں۔ ذرا حالات بگڑنے لگے اور چھتری کی واپسی لازم۔ لیکن بھارت کے عزائم واضح ہیں کہ وہ اس نوآبادیاتی دور کے ورثے میں ملے مسئلے کو حرزجاں بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ حالانکہ آزادی کے وقت سے آج تک ضرورت اس بات کی تھی اور ہے کہ نو آبادیاتی دور کے منفی اثرات کو منفی کیا جائے۔ پھر وطن عزیز میں بھی حکومتی قیادت ایسے ہاتھ میں ہے کہ جو کہ نہ صرف نا پختہ ہے بلکہ اپنی اس نا پختگی کو بار بار واضح کرنا بھی عین فرض جانتا ہے۔

بھلا اپنی نشری تقریر میں عمران خان کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ ہم دہشت گردی پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بھارت جب دہشت گردی پر بات کرنے کی بات کرتا ہے تو اس کی واحد مراد کشمیر کی تحریک آزادی سے وابستہ معاملات ہوتے ہیں کیا ہم ان کو دہشت گرد قرار دے کر معاملات طے کرنا چاہتے ہیں؟ اسی نوعیت کی غلطی جنرل پرویز مشرف سے بھی ہوئی تھی کہ وہ مشترکہ اعلامیہ میں یہ لکھ گئے تھے کہ آئندہ پاکستان سے دہشت گردی نہیں ہو گی۔

اور یہ بات آج تک ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے۔ کیونکہ دنیا میں اس بات نے اس تصور کو پروان چڑھایا کہ یہ ہم ہی ہیں جو یہ کر رہے ہیں۔ اب اس نشری تقریر کے مضر اثرات سے خدا پاکستان کو محفوظ رکھے۔ جہاں تک دباؤ کی بات ہے تو اس کو برداشت کرنے والا ہی قیادت کا اہل ہوتا ہے۔ واجپائی جب نواز شریف دور میں لاہور آئے تو انڈیا کی جانب سے دہشت گردی کا ڈھنڈورا پوری شد و مد سے پیٹا جا رہا تھا۔ مگر واجپائی کو یہ کہنا پڑا کہ ہم جموں کشمیر پر بات کریں گے لیکن نواز شریف کے منہ سے ایک حرف بھی پاکستان کے مؤقف سے ہٹ کر ادا نہیں ہوا۔

اور یہ تو حال کی بات ہے کہ انڈیا برہان وانی کا ذکر کرنے پر نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تقریر پر بہت تلملایا۔ لیکن جو مؤقف پاکستان کے مفاد میں تھا وہ نواز شریف نے بیان کر دیا۔ لیکن اب حکومتی سربراہ خود سے ہی دہشت گردی کا لفظ استعمال کر کے پاکستان کی پوزیشن کو کمزور سے کمزور تر کیے جا رہے ہیں۔ اور ایسی کمزور پوزیشن کی موجودگی میں سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان سے وہ ثمرات حاصل نہیں ہو سکے کہ جو ممکن تھے۔

معاہدوں اور مفاہمت کی یاداشتوں میں وہی فرق ہوتا ہے کہ جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور امریکی اقدامات میں ہے کہ اول الذکر پر عمل ہوگا یا نہیں اور ہوگا تو کب ہو گا۔ کیسے ہو گا جبکہ مؤخرالذکر نے فیصلہ کیا کہ عراق پر حملہ کرنا ہے تو بس کر ڈالا۔ اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان کو سعودی عرب سے واضح بات کرنا چاہیے کہ ان کو اگر پاکستان سے سکیورٹی درکار ہے تو بہت خوب لیکن یہ ایک باقاعدہ سکیورٹی کے معاہدے کی شکل میں ہو کہ جس کے نتیجے میں سعودی عرب کی سکیورٹی پاکستان سنبھال لے۔

جبکہ سعودی عرب پاکستان کے موجودہ دفاعی بجٹ کے ساتھ ساتھ مزید مکمل دفاعی ضروریات کو بھی اپنے وسائل سے پورا کرے۔ اور اس سب کے لئے ضروری ہے کہ سعودی عرب اپنا جو نیا تشخص قائم کرنا چاہتا ہے جس کے لئے سینما وغیرہ بھی قائم کر رہا ہے تو وہ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی معاملات میں بھی ہاتھ ڈھیلا کر دے اور منہدم کردہ مقامات مقدسہ کی از سر نو تعمیر کی اجازت دیدے۔ تا کہ اس کے سخت مزاج ہونے کا تصور صرف سینما سے ہی نہیں ہر طرح سے ختم ہو سکے۔

سعودی ولی عہد کے افغان طالبان کے وفد سے ملاقات کی خبریں بھی چلتی رہیں۔ حالانکہ ابھی افغان معاملے میں ہنوز دلی دور است والی صورتحال ہے۔ ہم از کود ہی اس میں لگے ہوئے تھے کہ سب ہم کروا رہے ہیں اور اب تو یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ زلمے خلیل زاد ان مذاکرات کی آڑ میں افغانستان کے صدر اشرف غنی کو پاکستان پر ہلہ شیری دینے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ راقم الحروف نے اپنے گزشتہ کالم میں تحریر کیا تھا کہ ”امریکی اس کا کریڈٹ وطن عزیز میں کسی کو دینے کے لئے تیار نہیں مگر ہم ہیں کہ اپنے ملک میں ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ سب ہم نے کروایا ہے۔ حالانکہ نہ امریکہ اور نہ افغان طالبان نے اس کا احساس کروایا“۔

اب یہ سب بالکل سامنے آ کھڑا ہوا ہے کہ افغانستان کی جانب سے ایک نیا تصادم ہمارے سامنے لا کھڑا کر دیا جائے گا اور اس کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ جو جو تیاریاں کر رہا ہے۔ کرتا رہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آئندہ بھارت سے معاملات افغانستان پر مکمل تیاری اور ہر لفظ کی حساسیت کو مد نظر رکھ کر استعمال کریں۔ جبکہ سعودی عرب اور عرب دنیا سے جو ہم دونوں کو ایک دوسرے سے حقیقی ضرورت ہیں اس کا فی الفور گفتگو کرے ورنہ مونگ پھلی کے دانوں سے صرف وقتی مزہ ملتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).