ڈاکٹر سعید اختر سے مٹھی ہسپتال تک: احتسابی دہشت گردی


راقم جس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہے دنیا کی فضا میں چودہ ہزار جہاز اڑ رہے ہیں جن میں لگ بھگ پندرہ لاکھ لوگ سفر کر رہے ہیں۔ ابھے نندن کو اپنے گھر پہنچے تین پہر بیت چکے ہیں۔ بارڈر کے دونوں طرف ٹی وی کی سکرینوں پے بیٹھے توپچی بھی نڈھال ہیں مگر خوش ہیں کہ ہفتہ اچھا لگ گیا ہے۔ کئی ایک تو سوچ رہے ہیں کہ ”رل تے گئے اں پر چس بڑی آئی اے“۔ ہندوستان کو تو چھوڑیئے، وہاں چناؤ منڈلا رہا ہے۔ ارناب گوسوانی، سدھیر چوہدری اور رجت شرما جیسے مہاتما کوئی نیا محاذ ڈھونڈ لائیں گے پھر وہی رن کا سا سماں بندھ جائے گا۔ سرحد کے اس طرف ایک بڑی خبر آئی جو نہ آتی ہوئی محسوس ہوئی اور نہ پتا چلا کدھر گئی۔ یہ ایک خبر پاکستان کو ماضی قریب میں لاحق ہونے والے عارضے کا پتا دیتی ہے۔

ڈاکٹر سعید اختر کو سپریم کورٹ نے تمام قدغنوں سے مبرا قرار دے دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب پندرہ سال قبل تک ٹیکساس کی ایک میڈیکل یونیورسٹی میں یورولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔ کئی درجن ڈگریاں، خطابات، اعزاز اور دولت ان کی حسرتیں پورا نہ کر سکی۔ چلے آئے پاکستان ورلڈ کلاس کڈنی سنٹر کے خواب میں رنگ بھرنے۔ امریکہ میں پریکٹس کرتے تھے، اتنا پیسہ کمایا کہ اپنا ذاتی جہاز بھی رکھا ہوا تھا۔ ذاتی جہاز بیچا، پاکستان کی ٹکٹ لی، 1998 ماڈل کی کرولا میں روزانہ گھر سے نکلتے، اسلام آباد میں پچاس ایکڑ پے پاکستان کا ہارورڈ بنانا چاہتا تھے۔

در در گئے، شفا ہاسپیٹل میں چار بیڈ ملے۔ کام شروع ہوا۔ غریبوں کا مفت علاج کرتے۔ سال میں چند مہینے پریکٹس کرنے امریکہ جاتے تاکہ غریبوں کے علاج معالجے کے اخراجات چلتے رہیں۔ بیچ میں غزہ کے لوگوں پر 2008 کی مصیبت آئی ہو، انڈونیشیا میں سونامی ہو، ہیٹی اور دارفور کا بحران ہوں، پاکستان کا زلزلہ ہو، ڈاکٹر سعید کا بے لوث پن انہیں ہر جگہ لے گیا۔ 2014 میں ڈاکٹر سعید کی بازگشت وزیراعلی پنجاب شہباز شریف تک پہنچی تو نتیجا ملاقات کی صورت میں نکلا۔

وزیر اعلی نے دو شرائط کے عوض نہ صرف ساٹھ ایکڑ زمین دینے کی کمٹمنٹ کی بلکہ ادارے کی تعمیر اور پہلے تین سال کے تمام اخراجات کی حکومتی ذمہ داری بھی قبول کی۔ شرائط میں سنٹر کی لاہور منتقلی اور کڈنی کے ساتھ جگر کے امراض کے علاج کی سہولیات کی فراہمی تھیں۔ پنجاب اسمبلی سے ایکٹ پاس ہوا، ہسپتال کی تعمیر کا آغاز ہو۔ اربوں روپے خرچ ہوئے لیکن ساوتھ ایشیا میں جدید آلات اور انفراسٹرکچر سے آراستہ اپنی نوعیت کی واحد سہولت منظر عام پر آچکی تھی۔ کام بھی شروع ہو چکا تھا لیکن ایسے ڈاکٹروں کی قلت تھی جو جگر اور گردوں کی پیچیدہ سرجری کر سکتے۔ ڈاکٹر صاحب اس کام میں بھی پیچھے نہ رہے۔ ایک سال میں دنیا بھر سے ستر پاکستانی ڈاکٹروں کو واپس آنے پر قائل کر لیا۔ باہر کے ملک میں ایڈجسٹ ہونے کے بعد پاکستان واپسی وہی بتا سکتے ہیں جو باہر رہتے ہیں۔ یہ ہرگز آسان فیصلہ نہیں۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ اڑان بھرنے کو ہی تھا کہ بے مہار احتساب کی لہر نے زمین پے دے مارا۔ ثاقب نثار صاحب نے سوموٹو لیا۔ انٹی کرپشن، نیب، ایف آئی اے، بیوروکریسی اور نا جانے کس کس قسم کی بلائیں اس کے پیچھے لگا دی۔ ڈاکٹر سعیداختر کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا، اس کی تذلیل کی جاتی رہی، اس کی ذات کو عبرت کا سوالیہ نشا ن بنا دیا گیا۔

دو دن پہلے جب کرپشن اور بدعنوانی کے اس مبینہ پہاڑ کی کھدائی مکمل ہوئی تو چوہا تک بھی نہ نکلا۔ سپریم کورٹ نے سارے الزامات واپس لے لئے۔ انکوائریاں بند ہو گئیں۔ ڈاکٹر سعید اختر کے بیرون ملک سفر سے پابندی اٹھا لی گئی اور انہیں کام کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ لیکن دوستو نقصان ہو چکا ہے۔ اکیلا ڈاکٹر سعید پاکستان کا ہارورڈ نہیں بنا سکتا تھا اور اب تو بالکل بھی نہیں۔ ورلڈ کلاس کام کے لئے ورلڈ کلاس لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں جو نظام رائج ہے اس میں ورلڈ کلاس لوگ نا تو پنپ سکتے ہیں نا باہر سے آنا چاہتے ہیں۔ اور اس واقعے کے بعد پوری دنیا میں اعلی تعلیم یافتہ پاکستانی کمیونٹی کے کچھ افراد میں ملک واپس جانے کی کوئی آرزو سلگ رہی تھی تو بجھ گئی۔ اب بات اور بڑھ گئی ہے۔ بے مہار احتساب کا وائرس ملکی نظام کی رگ رگ میں اتر گیا ہے۔ یہ احتساب تنقید، دکھاوے، میڈیا ٹرئل، چھاپے، ہتھکڑی، گرفتاری اور شخصی انا کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔

کچھ سالوں سے تھر پارکر جانا راقم کا معمول ہے۔ غربت اور حسن کا جو امتزاج یہاں دیکھنے کو ملتا ہے ہمارے ملک میں کہیں نہیں۔ کوئلے اور معدنیات کے وسائل سے آراستہ تھر پاکستان کا غریب ترین علاقہ ہے۔ یہ وہ صحرا ہے جہاں ریت سے زیادہ مفلسی چمکتی ہے۔ پانی کی تلاش میں تھری سارا سال نقل مکانیاں ہی کرتے رہتے ہیں۔ بجلی، گیس لوگوں کی ترجیح نہیں۔ پیٹ کی بھوک مٹے تو آسائش کا خیال آئے کسی کو۔ سرکاری ملازمین یہاں پوسٹنگ کو سزا سمجھتے ہیں۔

لیکن پچھلے دس سال میں بچوں کی صحت کے حوالے سے میڈیا میں جو خبریں آنا شروع ہوئیں تو میں نے خود محسوس کیا کہ نوجوان کوالیفائیڈ ڈاکٹرز نے اس علاقے کا رخ کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مٹھی، اسلام کوٹ، نگر سمیت کتنے ہی ذیلی علاقوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی ایک اچھی خاصی تعداد ہوگئی۔ دو سال پہلے اگست میں راقم مٹھی گیا۔ قریب گیارہ بجے رات کے چہل قدمی کرتے کرتے راستے میں تحصیل ہسپتال مٹھی آگیا۔ تھر کی پسماندگی سے دل پہلے ہی پسیجا ہوا تھا، سوچا ہسپتال بھی دیکھ لیں۔ دل خوش ہوا، اتنے دور افتادہ علاقے کے ہسپتال کو دیکھ کے لگا شاید پنجاب کا کوئی ضلعی سطح کا ہسپتال ہے۔ انفراسٹرکچر قابل تعریف تھا لیکن اس سے بھی زیادہ خوشی ڈاکٹروں اور ہسپتال کے عملے کو دیکھ کے ہوئی۔ ڈاکٹروں اور عملے نے جیسے مریضوں پے پہرہ دے رکھا تھا۔ یقین نہیں آ رہا تھا۔

ایک چائلڈ سپیشلسٹ اور پھیپڑوں کی امراض کے سپیشلسٹ گرمی میں کھلے آسمان تلے کرسی پے بیٹھے دن بھر کی کارگزاری پے بات کر رہے تھے کہ ہم نے بطور مسافر ان کی محفل میں ٹانگ اٹکانا معیوب نا سمجھا۔ معلوم ہوا دونوں اپنا کام بھگتا چکے ہیں، اور اب کسی بھی ایمرجنسی کال کا انتظار کر رہے ہیں۔ سپیشلسٹ کا کیا کام ایمرجنسی سے؟ راقم نے سوال داغ دیا۔ جواب ملا کہ دونوں صرف آرام کے لئے ہسپتال سے ملحقہ کوارٹر میں جاتے ہیں، باقی سارا ٹائم مریضوں کو دیتے ہیں۔

شہروں سے نوکری چھوڑ کے ڈاکٹری کے پیشے کو عبادت سمجھ کے ویرانے میں آئے ہیں۔ اور ویسے بھی چھوٹے سے قصبے میں نہ کوئی مصروفیت کا بہانہ ہے اور نا ان کے پاس وقت۔ تھوڑی دیر ان سے باتیں کیں، چائے پی اور دوستی ہوگئی۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ فیس بک اور وٹس ایپ پے ان سے رابطہ بھی رہتا ہے۔ آج ایک فیس بک پوسٹ پڑھی جس میں ان میں سے ایک ڈاکٹر کو کسی صاحب نے ٹیگ کیا ہوا تھا۔ کچھ تصاویر بھی لگیں ہوئیں تھی۔ معلوم ہوا کہ مقامی جج نے ہسپتال کا دورہ کیا اور ثاقب نثار بن گئے۔ ہسپتال کی ایک وارڈ میں میلا تکیہ ملا تو راؤنڈ پے ڈاکٹر صاحب کو تضحیک کا نشانہ بنا یا گیا۔ اخباری رپورٹروں کو بلایا گیا، پھر ڈاکٹر کے ہاتھ میں وہ تکیہ تھمایا، تصویریں بنی۔ اور جج صاحب نے گھر کی راہ لی۔ بلے بلے واہ واہ۔

ڈاکٹر نے اسٹیتھوسکوپ گلے سے اتار کے میز پے رکھی۔ اوور کوٹ کی جیب سے پنسل نکالی، وہیں وارڈ میں کھڑے کھڑے استفی لکھا، ایڈمن کلرک کے حوالے کیا، حیداآباد کا بس ٹکٹ لیا اور سندھو دریا کی اور نکل گیا۔ اس بے مہار احتسابی عمل نے نہ صرف اوپر کام خراب کیا ہے بلکہ یہ گراس روٹ لیول پر پہنچ چکا ہے۔ وہ جج جس کی عدالت میں فیصلے کی کاپی لینے کے لئے ریڈر کو رشوت دینی پڑتی ہے اس کا دھیان بھی ہسپتال کے میلے تکیوں پر ہے، وہ کسی جھوٹے موٹے مقامی اخبار کی شہ سرخی بننے کے چکر میں ہے۔ دوستوں اب جبکہ میں تحریر ختم کر چکا ہوں تو دنیا کی فضا میں اڑنے والے جہازوں کی تعداد چودہ ہزار تین سو اکسٹھ ہے جن میں صرف گیارہ پاکستان میں اڑ رہے ہیں۔ صرف گیارہ۔ ستر ہزار جانوں کی قربانی دے کے دہشت گردی پے تو ہم نے قابو پا لیا ہے لیکن ساتھ ہی ہم احتسابی دہشت گردی کے چنگل میں پھنس گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).