رتی گلی کی لڑکی


دو تین گہری سانسیں لے کر میں نے پھیپھڑوں کو تازہ ہوا سے بھرا۔ پیڑوں اور پودوں سے آتی ہوئی مہک سانسوں کو معطر کر رہی تھی۔ مارننگ واک کرتے کرتے میں کافی دور نکل آیا تھا۔ اس جگہ سے دور تک درخت اور پہاڑ دکھائی دیتے تھے۔ سورج کی روشنی میں نکھرے ہوئے مناظر بڑے دلکش تھے لیکن بھوک کے احساس نے واپسی پر مجبور کر دیا۔ ابھی میں بنگلے سے کچھ دور ہی تھا جب پہلی بار اس کی جھلک دیکھی۔ چہرہ تو ٹھیک سے دیکھ نہیں پایا تھا بس ایک ثانیے کو نیلے لباس میں کسی نسوانی وجود کا احساس ہوا پھر شاید پیڑ پودوں نے اسے چھپا لیا۔

جب میں اس مقام تک پہنچا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ شاید وہ بھی میری طرح واک پر نکلی ہو، مگر ہو سکتا ہے اکیلی نہ ہو اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہو۔ میں خواہ مخواہ اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ بنگلے میں پہنچا تو ادھیڑ عمر ملازم ظفر ناشتہ بنا چکا تھا۔ ناشتے کے بعد اپنا پسندیدہ ناول لے کر لان میں آ گیا اور ناول جہاں سے چھوڑا تھا وہاں سے آگے پڑھنا شروع کیا۔ مارچ کا پہلا ہفتہ تھا اور دھوپ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ آرام دہ کرسی پر دھوپ سینکتے ہوئے ناول پڑھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔

شاید دو تین گھنٹے گزر گئے۔ ظفر چائے لے کر آیا تو میری محویت ٹوٹی۔ ”صاحب آپ دوپہر کے کھانے کا بتا دیں، کیا بناؤں آپ کے لئے؟ “ اس نے پوچھا۔

”ہوں ایسا کرو کہ میرے لئے کچھ نہ بناؤ، میرا ارادہ ہے کہ آج ایوبیہ جاؤں، ابھی تھوڑی دیر میں نکلوں گا۔ شام کا کھانا بھی کھا کر ہی آؤں گا۔ “ میں نے کہا اور ظفر سر ہلاتے ہوئے چلا گیا۔ چائے پی کر میں نے ناول بند کیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے سفر کا آغاز کیا۔ ایوبیہ یوں تو کئی بار دیکھا تھا لیکن ایک بار پھر جانے پہچانے راستوں پر گھومتے پھرتے ہوئے وقت گزارنا چاہتا تھا۔ دوپہر سے شام تک اچھا وقت گزرا۔ آسمان پرگہرے بادلوں نے ڈیرے ڈال دیے تھے بہرحال میں غروبِ آفتاب کے بعد واپسی کے سفر پر رواں دواں تھا کہ ونڈ سکرین پر پڑنے والی پھوار نے بارش کی آمد کا اعلان کر دیا۔ جب میں نے گاڑی مین روڈ سے اتار کر بنگلے کی طرف جانے والی ضمنی سڑک پر موڑی تو اچانک گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں مجھے نیلے لباس کی جھلک دکھائی دی۔

شاید یہ وہی لڑکی ہے۔ میں نے سوچا۔ لڑکی نے کار دیکھ کر ہاتھ ہلا کر رکنے کا اشارہ کیا۔ غیر ارادی طور پر میرا پاؤں بریک پر آ گیا۔ لڑکی دروازہ کھول کر میرے برابر بیٹھ گئی۔ ”شکریہ! مجھے بس تھوڑی دور تک جانا ہے، یہاں کی بارش کا کچھ بھروسہ نہیں۔ “ اس نے اپنے دوپٹے سے اپنی پیشانی اور گالوں سے بارش کے قطروں کو پونچھتے ہوئے کہا۔ میں نے سر ہلاتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔ آگے دوراہا تھا۔ ”کس طرف جانا ہے؟ “ میں نے اس سے پوچھا۔

”آپ میری فکر مت کریں اپنے بنگلے تک چلیں، وہاں سے میں اپنے گھر چلی جاؤں گی، میں وہاں سے قریب ہی رہتی ہوں۔ “ لڑکی نے فوراً کہا۔

”کوئی بات نہیں میں آُپ کو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں۔ ویسے آپ کو کیا پتا کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ “ میں نے حیرت ظاہر کی۔

”آپ لال بنگلے میں دو دن پہلے ہی آئے ہیں یہ مجھے معلوم ہے، میں نے بتایا ناں میں یہاں پاس میں ہی رہتی ہوں۔ “ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”پھر تو آپ کو یہ بھی پتا ہو گا کہ میں مارننگ واک بھی کرتا ہوں۔ “ میں نے پر خیال لہجے میں کہا۔ ”غالباً آپ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ صبح آپ نے مجھے دیکھا تھا۔ بس میری عادت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ “ وہ بولی۔

لڑکی دلچسپ تھی میں اس کے بارے میں کچھ اور بھی جاننا چاہتا تھا لیکن گاڑی بنگلے تک پہنچ گئی تھی۔ میں نے بریک لگائی تو لڑکی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ اور پھر ہاتھ ہلاتے ہوئے تیز تیز قدموں سے آگے بڑھتی چلی گئی۔ میں کار پارک کر کے بیڈ روم میں آ گیا۔ پھوار ابھی جاری تھی۔ ظفر غالباً اپنے کوارٹر میں تھا۔ اتنا بڑا بنگلہ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ ٹی وی آن کیا اور بیڈ پر لیٹ کر خبریں سننے لگا لیکن دھیان کہیں اور ہی تھا۔

میں ابھی تک اس لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ عجیب لڑکی تھی میرے بارے میں معلومات بھی رکھتی تھی لیکن اپنے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں اور یوں جلدی سے چلی گئی۔ پھر میں نے سوچا کہ شاید بارش کی وجہ سے اسے جلدی ہو۔ سوچتے سوچتے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ صبح اٹھا تو باہر چمکیلی دھوپ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ظفر کو بلایا کہ ناشتہ بنا دے۔ میں منہ ہاتھ دھو کر باہر لان میں ہی بیٹھ گیا۔ ظفر شاید میرے موڈ کو سمجھ گیا تھا اسی لئے وہیں ناشتہ لے آیا۔

ناشتے کے بعد میرے پاس دوآپشن تھے ناول پڑھوں یا گھومنے نکلوں، میں نے سیکنڈ آپشن پر عمل کیا اور باہر نکل آیا۔ ایسے موسم میں باہر ہی نکلنا چاہیے تھا۔ بنگلے سے کچھ فاصلے پر دیودار کا بڑا سا درخت تھا۔ ادھر نگاہ پڑی تو میں چونک اٹھا، وجہ وہ درخت نہیں تھا۔ اس درخت کو تو میں نے آتے جاتے کئی بار دیکھا تھا۔ چونکنے کی وجہ وہ لڑکی تھی۔ وہ آنکھیں بندکیے ہوئے درخت کے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ میں چند لمحوں تک ساکت کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگا۔ میں اس کے بالکل قریب کھڑا تھا لیکن وہ جیسے کسی خیال میں گم تھی۔ میں سمجھا کہ اسے میری آمد کا پتا ہی نہیں چلا لیکن میرا خیال غلط تھا۔ جب میں اس کے حسین سراپے کا جائزہ لے رہا تھا اس نے اسی طرح آنکھیں بند رکھتے ہوئے اپنے لبوں کو جنبش دی۔ ”رک کیوں گئے؟ آئیں ناں! آپ بھی یہیں بیٹھ جائیں۔ “

”تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ “ میں نے شاید خفت مٹانے کے لئے کہا۔ ”بس ایسے ہی گھومنے نکلی تھی تو یہاں بیٹھ گئی، کیوں اس میں کوئی حرج ہے کیا؟ “ اس نے فوراً کہا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5