کشمیر پر ہمارا رویہ معذرت خواہانہ کیوں ہے؟


پچھلے کئی سالوں سے خارجہ محاذ پر ہندوستان کی مسلسل پیش قدمی نے کشمیر کے معاملے پر ہمیں دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا تھا۔ کشمیر کا مسئلہ کبھی ہندوستان کے گلے کی ہڈی ہوا کرتا تھا، اور بھارت کے پاس کمیشر میں اس کی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے دفاع میں کہنے کے لئے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا، مگر پھر بھارت کی معاشی ترقی نے جہاں دنیا بھر کے سرکردہ ممالک کے معاشی مفادات بھارت سے منسلک کر دیے، وہیں عالمی حالات خاص کر 9 / 11 کے بعد سے امریکہ کی سربراہی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے غلغلے نے بھارت کو بھی اس مشکل صورتحال سے بتدریج نکال باہر کیا۔

بھارت نے آہستہ آہستہ کشمیر میں چلنے والی آزادی کی جدوجہد کو پہلے اسلامی انتہا پسندی اور بعد ازاں بین الاقوامی دہشت گردی سے جوڑ دیا۔ اس دوران بھارت پوری کوشش سے کشمیر میں چلنے والی جدوجہد آزادی کو پاکستان کی طرف سے کی جانے والی گڑبڑ قرار دینے پر اصرار کرتا رہا، جبکہ پاکستان ان بھارتی الزامات سے ہمیشہ انکار کرتا رہا۔ آنجہانی واجپائی اور بعد میں کانگریسی حکمران من موہن سنگھ نے اگرچہ یہی پالیسی جاری رکھی لیکن، کشمیریوں کے تئیں ان کا رویہ قدرے نرم رہا۔

واجپائی جی نے تو کشمیریوں اور پاکستان کو بات چیت میں مصروف رکھا، اور کشمیر میں کوئی بھی سخت کارروائی کرنے سے اجتناب برتا۔ ان کی اس پالیسی کا فائدہ من موہن سرکار کو بھی ہوا، اور اسی نرم پالیسی کا نتیجہ تھا کہ 2004 سے لے کر 2013 تک کشمیر میں خونریزی نہ ہونے کے برابر رہ گئی، اور اس طرح کشمیر ایک بھولی بسری داستان بن کر رہ گیا۔ 2013 کے بعد ہندتوا کے پرچارک نریندر مودی اقتدار میں آگئے۔ بزعم خود چھپن انچ کی چوڑی چھاتی والے مودی جی کو شروع ہی سے مسلمانوں، کشمیریوں اور پاکستان کو سبق سکھانے والے ہندو قوم کے مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا۔

مودی نے دراصل ایک ہی باری میں کئی محاذ کھول لئے تھے۔ ایک طرف تو بھارت کے آئین میں کشمیریوں کو آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی بحث چلائی گئی، تو دوسری جانب کشمیریوں کی جانب سے اپنے حقوق کے لئے اٹھائی جانے والی آوازوں کو تشدد کے ذریعے سے دبانے کی پالیسی شروع کی گئی۔ کشمیری بچے بھارتی فوجوں پر جب نفرت سے پتھر پھینکنے لگے توجواب میں انہیں پیلٹ گنوں سے اندھا اور معذور بنایا جانے لگا۔ سینکڑوں کشمیری نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مودی کی یہ حکمت عملی بظاہر اسرائیلی بربریت کی نقل دکھائی دیتی تھی، جس سے وہ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کو دبانے میں کامیاب رہا تھا۔

مودی کی کشمیر اور پاکستان کے بارے معاندانہ اور جارحانہ پالیسی نے کشمیر کے اندر خوابیدہ بے چینی کو بڑھایا، اور ان کو طاقت اور جبر سے دبانے کی پالیسی نے کشمیریوں کو ایک بار پھر ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا، تیسری طرف مودی نے ایک قدم آگے بڑھ کر بھارت کی پہلے سے پاکستانی صوبہ بلوچستان میں جاری مداخلت کو سرعام اپنانا اور بڑھانا شروع کیا۔

بین الاقوامی طور پر امریکی سر پرستی میں اسلامی دہشت گردی کا بیانیہ کامیابی سے بیچا جا رہا تھا، مودی بھی بڑی آسانی سے دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ کشمیر میں چلنے والی تحریک آزادی دراصل پاکستانی پشت پناہی سے چلنے والی اسلامی دہشت گردی ہے۔ مودی کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر بلوچستان میں چلنے والی مسلح تحریکوں کی حمایت کرنے لگا۔ اسی دوران بھارتی خفیہ ایجنسی کا اہلکار نیول افسر کلبھوشن یادو بلوچستان میں دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے دوران پکڑا گیا۔

اس دوران ہم مسلسل اچھا بچہ بننے کی مشق لاحاصل میں ہلکان ہوتے رہے۔ بھارت ہمیشہ ہم پر دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کا الزام لگاتا رہا۔ اور ہم اپنے دفاع میں اس الزام سے انکار کرتے رہے۔ حالانکہ بلوچستان اور اس سے پہلے کراچی میں بھارتی خفیہ ادارے را کی دہشت گردی کے ثبوت وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے، لیکن ہم بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے لانے میں ناکام رہے۔ بد قسمتی سے سابقہ حکومت خارجہ پالیسی کے محاذ پر مکمل طور پر ناکام رہی۔

نواز شریف کے چار سالہ دور حکومت میں ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا، اور سابقہ وزیراعظم نواز شریف کلبھوشن کا نام لینے سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ موجودہ حکومت کے بر سراقتدار آتے ہی سفارتی محاذ پر ہمیں کچھ کامیابیاں ملیں۔ لیکن اس حکومت کی بھی خارجہ محاذ پر پالیسی محض دفاعی ہی رہی۔ بھارت ہم پر غیر ریاستی عناصر کے ذریعے سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں میں دہشت گردی کروانے کا الزام لگاتا ہے، جس کا کوئی ٹھوس ثبوت وہ پیش نہیں کر سکا، لیکن ہمارے پاس تو بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا ثبوت ہے، پھر بھی ہمارا رویہ دفاعی اور معذرت خواہانہ کیوں ہے۔

بھارت ہم پر کشمیر کے اندر مداخلت کا الزام لگاتا ہے۔ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایک منتنازعہ علاقہ ہے جو بھارت کا قانونی حصہ نہیں ہے۔ اور پاکستان اس تنازعے کا ایک اہم فریق ہے، اور اس میں مداخلت کرنے کا پورا حق رکھتا ہے۔ جبکہ بھارت ہمارے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صوبے میں باقاعدہ فوجی مداخلت کر رہا ہے، جس کا اسے کوئی حق نہیں ہے۔ کشمیر اس وقت ایک کانفلیکٹ زون ہے، اور کانفلیکٹ زون میں بیرونی قابض افواج کے خلاف اپنے حق خودارادیت کے لئے لڑنے والے فریڈم فائیٹر ہوتے ہیں۔ ان کو دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔ حالیہ پاکستانی جوابی حملے کے بعد پکڑے جانے والے ہندوستانی پائلٹ کے لئے بھارتی ذرائع ابلاغ میں جب جینیوا کنوینشن کے تحت اس سے سلوک کرنے کی بات ہوئی، تو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر میں بیرونی قابض افواج کے خلاف لڑنے والوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جن کا مطالبہ بھارتی پائلٹ کے لئے کیا جا رہا تھا۔ آخر پاکستان کشمیریوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے وقت پوری سچائی اور اعتماد سے سامنے کیوں نہیں آتا۔

وہ جھوٹے ہونے باوجود بڑی ڈھٹائی سے ہمیں وہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ درحقیقت وہ خود ہیں۔ وہ دن رات کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بتاتے ہیں اور پاکستانی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اپنا حصہ بتاتے ہیں جس پر پاکستان نے زبردستی قبضہ کر رکھا ہے، اور وہ اسے بھی واپس لینے کی بات کرتے ہیں۔ تو پاکستان کو چاہیے، ان سے کہے کہ آو جس طرح سے پاکستان سے ہونے والی ان کے بقول مداخلت اوردہشت گردی پر دنیا کے سامنے روتے پیٹتے ہو، اسی طرح یہ معاملہ بھی دنیا کے سامنے اٹھاؤ کہ پاکستان نے ہمارے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔

دیکھتے ہیں پھر کتنی سچائی ہے ان کے دعوے میں۔ اس وقت بین الاقوامی حالات بدل رہے ہیں۔ امریکہ جیسی سپر پاور بھی جن افغان طالبان کو اسلامی دہشت گرد قرار دے کر سترہ سال ان پر طاقت کا بے تحاشا استعمال کرتی رہی، وہ بھی اب انہی طالبان کو افغان قوم کے حقیقی نمائیندے تسلیم کر کے ان سے امن مذاکرات کر رہی ہے۔ اسی لئے تو پلوامہ حملے کے بعد زور و شور سے بھارت کے چیخنے چلانے کے باوجود دنیا نے بھارتی آوازوں پرکچھ زیادہ کان نہیں دھرے۔

مودی آخر کب تک کشمیری نوجوانوں کی خالص اندرونی طور پر شروع کی گئی جدوجہد آزادی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی ناکام کوششیں کرتا رہے گا۔ پلوامہ حملے کے بعد مودی نے بڑے اعتماد سے پاکستانی علاقے بالاکوٹ پر نام نہاد ائیر سٹرائیک کروا کر پاکستان اور کشمیریوں پر اپنی طاقت کی ڈھاک بٹھانے کی کوشش کی، مگر پاکستان کے جوابی مکے کے بعد مودی اب اپنی سوجی ہوئی ناک لے کر بہت مشکلوں سے آمدہ الیکشن کا سامنا کرے گا۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان بھارت کی طرف سے اپنے اوپر لگایا جانے والا دہشت گردی کا ٹیگ اتار پھینکے، اور دنیا کو کشمیریوں کی اندرونی طور پر اپنے حق خودارادیت کے لئے لڑی جانے والی آزادی کی جنگ سے پورے اعتماد سے روشناس کروائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).