کیا محبت میں جنگ جائز ہے؟
پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر پر پچھلے ستر سالوں سے ایک دوسرے پر بندوقیں تانے کھڑے ہیں۔ اوراس ہفتے ایک بار پھر یہ خطہ اس مسئلے کو لے کر پُرآشوب ہے۔
اس تنازعے پر دونوں ممالک کے درمیان دوجنگیں 1947 اور 1965 میں ہوچکی ہیں اور 1989 سے لیکرآج تک مستقل ہونے والے تشدد میں ایک اندازے کے مطابق 47,000 لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ یاد رہے کہ اس اعداد و شمار میں گمشدہ افراد اور انسانی حوق کی تنظیموں کے نمائندے و رضاکار شامل نہیں ہیں۔ ھم سب ہی نے بچپن سے کشمیر کے بے مثال حُسن اور مسئلہ کشمیر کے قصے بہت سُنے ہیں۔ میرے والد پاکستان آرمی میں تھے۔ جن کا انتقال آرمی کی سروس کے دوران اُس وقت ہوا جب میں دو سال کی اور میرا چھوٹا بھائی صرف چھ مہینے کا تھا۔ پاپا کے جانے کے صدمے کو میں نے پتا نہیں کس وقت اور کس طرح ہندوستاں کی دشمنی سے جوڑ لیا اور بچپن سے ہی حُب الوطنی کا مطلب ہندوستاں کو ناپسند کرنا لے لیا تھا۔
البتہ نوجوانی میں بین الاقوامی سیاست کے بارے میں مطالعے سے کچھ معلومات حاصل ہوئی اور بین الاقوامی سیاست میں ہندوستان اور پاکستان کا کردار سمجھ میں آیا تو میں نے ہندوستان سے ذاتی دشمنی ختم کر دی۔ 2001 میں جب پاکستان سے امریکہ منتقل ہوئی تو میری ملاقات میری پڑوسن سپنا چوپڑہ سے ہوئی۔ جس کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ ہندوستانی فلمیں پاکستان میں بہت مقبول تھیں اور میں ہندوستان کے کلچر کے بارے میں پہلے سے بہت کچھ جانتی تھی مگر سپنا کی دوستی نے مجھے ہندوستانی لوگوں سے محبت کرنا سکھائی۔ ھم دونوں کے مزاجوں اور حالات میں اتنی ہم آھنگی تھی کہ کچھ ہی دنوں میں ہم اپنے ہندوستانی اور پاکستانی ہونے کا فرق بھول گئے۔
ہماری دوستی ان دنوں میں ہوئی جب ہم دونوں ہی امریکہ میں بالکل نئے امیگرنٹ تھے اور دیارغیرمیں قدم جمانے کے لئے شدید جدوجہد کررہے تھے۔ غریب الوطنی میں دُکھ اور پریشانیوں کو ساتھ ساتھ جھیلتے ہوئے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے بہت اپنائیت ملی اور ہم میں اتنی محبت ہو گئی کہ ہمارے مختلف مُلکوں، مذاہب اور زبانوں سے تعلق بھی ہماری دوستی کے بیچ میں کبھی دراڑ نہیں پیدا کرسکے۔ ھم دونوں پچھلے 20 سال سے بہت قریبی دوست ہیں بلکہ یوں کہیں کے ایک دوسرے کے لئے سگی بہنوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ۔
2006 میں جب میں امریکہ سے کینڈا منتقل ہوئی تو ہم دونوں کے درمیان پھر سے ایک سرحد آگئی۔ مگر اس بار یہ سرحد اور فاصلے صرف زمینی تھے دلوں کے نہیں۔ ہم سال میں میں کم از کم ایک بار کچھ دنوں کے لئے ضرور ملتے ہیں اور ٹیلیفون اور فیس بُک پرمستقل رابطے میں ہیں۔
کینڈا میں میری ملازمت اسکول بورڈ میں ہے۔ اور یہاں موسم بہار کی آمد پر اسکول ہر سال مارچ میں دس دن کے لیے بند کردیے جاتے ہیں۔ اس بار میں نے بھی مارچ بریک میں پاکستان جانے کا ارادہ کیا اور خوشی خوشی یہ خبر فون کرکے سپنا کو سُنائی۔ سپنا اور میں اکثر ایک دوسرے سے اپنے دلی اور کراچی ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیں کہ اکثر خوابوں میں ایک ساتھ بارہا کراچی میں طارق روڈ کی مشہور چاٹ کھائی اور اور دلی کی مارکیٹ چاندنی چوک پر شاپنگ بھی کری ہے۔
سپنا نے میرے پاکستان جانے کی خبر پر تشویش کا اظہار کیا اور بتایا کہ انڈیا اور پاکستان کے حالات پھر سے بہت خراب ہیں اور شاید جنگ چھڑ جائے۔ میں نے جنگ کی بات کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا اوردُکھ سے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے حالات اچھے ہی کب ہوئے تھے جو خراب ہوجائیں گے۔
لیکن دوسرے ہی دن ایئر لائن والوں نے خبر دے دی کہ پاکستان نے اپنے ہوائی اڈے اور فضائی حدود کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کردیا ہے اس لیے پاکستان جانے والی ساری پروازیں منسوخ کردی گئی ہیں۔ چھٹیوں پر جانے اور اپنی فیملی سے ملنے کا پروگرام منسوخ ہونے پر اچھا نہیں لگا مگر اس سے بھی کہیں زیادہ بُرا لگا سوشل میڈیا پر پاکستانی اور ہندوستانی عوام کو ایک دوسرے پر نفرت سے بھرپور الفاظ کی گولہ باری کرتے اور جنگ کے حق میں نعرے لگاتے دیکھ کر۔
سرحدوں پر کشیدگی ہے اور دونوں طرف سے الیکٹرونک میڈیا پر سنسنی پھیلاتے اینکرز، شائستہ مگرزہر میں بُجھے الفاظ سے عوام کے جذبات سے سے خوب کھیل رہے ہیں۔ دونوں طرف کی عوام غربت، جہالت اور بیماری سے ہر دن لڑ لڑ کر تھکی اور مستقبل سے نا اُمید سی تھی کہ سرحدوں پرتناؤ نے سب کو چوکس کر دیا۔ اچانک دونوں ممالک کی عوام کو اپنے اوپر فخر کرنے کے لئے کوئی چیز مل گئی۔ جس سے اُن کی توجہ تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی اپنے ذاتی دُکھوں یعنی بھوک، بیماری اور بے روزگاری سے ہٹ گئی۔ جیسی کیفیت اکثر دونوں مُلکوں میں عوام کی ایک دوسرے کے خلاف اپنی کرکٹ ٹیم کو میچ کھیلتے دیکھ کر ہو جاتی ہے۔ لوگ یہ سوچے سمجھے بغیرجنگ کی ہمایت کرنے لگے کہ اس ایٹمی جنگ میں تباہ کاری کی مقدار کیا ہوگی اوراس سے نقصان کس کا ہوگا۔
اس صورتحال پر مجھے چھوٹا سا واقعہ یاد آگیا کہ کچھ دنوں پہلے میرے 12 سالہ بیٹے دانیال نے مجھ سے سوشل اسٹڈیز کا ہوم ورک کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ امی آپ حُب الوطن ہیں یا قوم پرست؟ میں نے اُس سے پوچھا کے پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ ان دونوں میں کیا فرق ہوتا ہے اور تم کیا ہو؟ اُس نے وضاحت کچھ اس طرح کی کہ میں حُب الوطن ہوں کیونکہ حُب الوطنی میں ہم اپنے وطن کی اچھی کارکردگی پرفخر کرتے ہیں جبکہ قوم پرستی میں ہم اپنے وطن کی ہر چیز اور ہر بات پر فخر کرتے ہیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو جیسے کہ نفرت اور جنگ کی پالیسی پر مُلک کی ہمایت کرنا۔ میں نے دانیال کے سامنے جلدی سے اقرار کیا کہ ”بھائی پھر تو میں بھی حُب الوطن ہوں“۔
کشمیر کا مسئلہ پچھلے ستر سال سے حل نہیں کیا گیا۔ اس تنازعے پر کشمیریوں کی حالت اُس بچے کی سی ہے جس کے والدین علیحدگی کے بعد بچے کی کسٹڈی اپنے پاس رکھنے کے لئے لڑ لڑ کر لہولہان ہورہے ہیں اور بچے کی ذہنی اور جسمانی صحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مگر بچے سے کوی نہیں پوچھ رہا کے اخر بچہ کیا چاہتا ہے؟ عالمی برادری بھی اپنے ہتھیاروں کی مارکیٹ بنائے رکھنے کے لئے اس مسئلے کے مستقل حل کی کوشیش نہیں کرتی۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ پتا نہیں کب تک۔ ہم دونوں پڑوسی مُلک اپنی اپنی باری پر بندوقوں کی سلامی میں فتح کا جشن اور خاموش سسکیوں میں ہار کا سوگ مناتے رہیں گے؟
پتا نہیں کب تک میں اور سپنا ساتھ مل کر دلی اور کراچی گھومنے کا خواب دیکھتے رہیں گے اور نجانے کب تک ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات پرہمارے دل یونہی ٹوٹتے رہے گے۔ پتا نہیں کب تک۔ ایسے میں گلزار صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ۔
سرحد پر کل رات، سُنا ہے، چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات، سُنا ہے،
کچھ خوابوں کا خون ہوا ہے!
- لڑکے روتے نہیں ہیں، تم لڑکی ہو کیا؟ مرد بنو - 09/05/2021
- کیا بچے کے آٹیزم سے لڑنا ہے یا اسے قبول کرنا ہے؟ - 08/05/2021
- بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد - 31/12/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).