کشمیر اٹوٹ انگ سے عمران خان کے لئے نوبل امن انعام تک کا سفر


اسلامی تعاون تنظیم نے ہفتہ کو پاکستان پر دہشت گردی کا سارا بار ڈالنے والی بھارتی وزیر خارجہ کی تقریر سننے کے بعد اتوار کو متعدد قرارد ادوں میں عملی طور سے بھارتی مؤقف کو مسترد کیا ہے۔ ان میں سے ایک قرارداد میں مقبوضہ کشمیر میں مظالم ختم کرنے کی بات کی گئی ہے تو دوسری میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر دراصل پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل تنازعہ ہے۔ اس معاملہ کو حلکیے بغیر برصغیر میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

او آئی سی ایک علیحدہ قرارداد میں پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کو بھی مسترد کیا گیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کی امن کے لئے کوششوں کو سراہا گیا ہے۔ پاکستان کی مخالفت کے باوجود میزبان متحدہ عرب امارات کی وجہ سے سوشما سوراج کو مہمان خصوصی کے طور پر کانفرنس میں شریک ہونے اور تقریر کرنے سے روکا نہیں گیا تھا۔ جس پر ناراض ہو کر شاہ محمود قریشی نے او آئی سی وزرائے خارجہ کے 46 ویں اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ تاہم بھارت کی یہ سفارتی جیت دور رس نتائج کی حامل ہونے کے باوجود فی الوقت عارضی اور بے سود ثابت ہوئی ہے۔ او آئی سی نے پاکستان کی تجویز کردہ قرار دادیں منظور کرکے بھارتی مؤقف کے برعکس کشمیریوں کے حق خود ارادی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

نئی دہلی سے وزارت خارجہ نے ایک بیان میں ان قراردادوں کو مسترد کرتے ہوئے کشمیر کو ایک بار پھر بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہاں کی صورت حال بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور وہ جیسے مناسب سمجھے گا اسے حل کرے گا۔ ہفتہ گزشتہ کے دوران پاکستان کے ساتھ فضائی چپقلش کے بعد بھارت میں نریندر مودی سرکار کو سخت ہزیمت کا سامنا ہے۔ وہ کبھی اپوزیشن پر پاکستان اور دہشت گردوں کے ایجنٹ ہونے کی پھبتی کستے ہیں اور کبھی یہ کہہ کر منگل کو بالاکوٹ میں کی جانے والی کارروائی کے ثبوت دینے سے انکار کیا جاتا ہے کہ یہ انتہائی خفیہ معاملات ہیں اور دہشت گرد کیمپ تباہ کرنے اور وہاں سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کرنے کے ثبوت مانگنے والے لوگ ’سسٹم کو سمجھنے سے قاصر‘ ہیں۔

اس وقت یہ سسٹم چونکہ نریندر مودی کی انتخابی مہم میں کامیابی کے نعرے لگانے کا موقع فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے، اس لئے اسے ’خفیہ‘ رکھنا اور ثبوت کی بات کو ملک دشمنی قرار دینا بھارتی حکومت کی مجبوری بن چکی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی برقرار ہے اور دونوں طرف افواج چوکس کھڑی ہیں۔ کیوں کہ ابھی کوئی بھی یقین سے کہنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تصادم کا موجودہ سلسلہ اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ عالمی طاقتوں اور دونوں ملکوں کے عوام کو امید ہے کہ اب مزید جھڑپیں نہیں ہوں گی۔ تاہم مبصرین اس بات پر ضرور بے چین ہیں کہ انتخابات سے عین پہلے پاکستان سے ہزیمت اٹھانے والے نیندر مودی کسی بھی حد تک جانے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔

2016 کی ’کامیاب سرجیکل اسٹرائیک‘ کے مقابلے میں اس بار مودی کے جھوٹ کا جادو سر چڑھ کر نہیں بول سکا۔ کیوں کہ اس بار سرجیکل اسٹرائیک کے اڑھائی برس پرانے دعوے کے مقابلے میں فضائیہ کو استعمال کیا گیا جسے پاک فضائیہ نے چیلنج کیا۔ بھارتی طیارے پاکستانی علاقے میں بم تو گرا گئے لیکن وہ ایک پہاڑی پر داغے گئے جس سے خوش قسمتی سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہؤا۔ بین الاقوامی صحافیوں یا اس شعبہ کے تکنیکی ماہرین کو بھی ساڑھے تین سو افراد کو ہلاک کرنے کے کوئی شواہد نہیں مل سکے۔

یہ جھوٹ اس قدر بھونڈا ثابت ہؤا کہ اب نریندر مودی اور ان کی حکومت کو اس پر پردہ ڈالنے میں سخت مشکل کا سامنا ہے۔ مودی اینڈ کمپنی کی اسی بدحواسی اور خجالت کی وجہ سے یہ اندیشہ ہے کہ بھارتی حکومت اپنی فوج کو ایک بار پھر کسی نئے ایڈونچر پر آمادہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اگرچہ یہ امکان بھی موجود ہے کہ بھارت کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اب حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دے۔ اس طرح بھارت میں ہونے والے عام انتخاب کے بعد مذاکرات کی پاکستانی پیش کش کو قبول کرنے کاراستہ ہموار ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں بھارتی فضائیہ کی ناکامی اور پاک فضائیہ کے جوابی وار کے کاری ہونے کا جشن منانے کے علاوہ امن کے لئے وزیر اعظم کے اصرار کو سراہا جارہا ہے۔ عمران خان کے پرجوش حامیوں نے اب سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دستخطی مہم چلائی ہے جس میں ناروے کی نوبل کمیٹی سے کہا جائے گا کہ عمران خان کو بھارتی جارحیت کے مقابلے میں امن کی بات کرنے اور بھارتی پائیلٹ ابھے نندن کو فوری طور خیرسگالی کے تحت رہا کرنے کے اقدام کے صلے میں سال رواں کا نوبل امن انعام دیا جائے۔ اب یہ تحریک اس قدر تیز ہوگئی ہے کہ پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ ایک قومی انگریزی روزنامہ نے اطلاع دی ہے کہ بھارتی ایڈمنسٹریٹو سروسز کے سابق افسر شاہ فیصل جن کا تعلق کشمیر سے ہے، نے بھی عمران خان کو نوبل انعام دینے کی حمایت کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق انہوں نے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا کہ ’عمران خان کو نوبل انعام دینے سے جنوبی ایشیا میں پاکستان کی حکمت عملی تبدیل ہوسکتی ہے۔ انہوں نے علاقے میں قیادت کا معیار بلند کردیا ہے۔ انہیں اگر نوبل انعام ملتا ہے تو پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں ان کی حوصلہ افزائی ہوگی‘ ۔ رپورٹ کے مطابق ایک بھارتی صحافی برکھا دت نے اس تجویز کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو نوبل انعام دینے کی حکمت واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے جواب میں شاہ فیصل نے لکھا کہ ’ایک ایسے وقت ونگ کمانڈر ابھے نندن کو رہا کرنے کا اعلان کوئی معمولی بات نہیں تھی جب خطے میں ایٹمی تصادم کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا۔ عمران خان کا یہ اعلان انسانیت کی اعلیٰ سطح کو چھوتا ہے۔ ہمیں برصغیر میں خیر سگالی کا ایسا اظہار پہلے دیکھنے کو نہیں ملتا‘ ۔

اگرچہ اس بات کا فیصلہ تو اکتوبر تک نارویجین نوبل کمیٹی کو کرنا ہے کہ وہ سال رواں کے امن انعام کا کس کو مستحق سمجھتی ہے۔ کمیٹی کے پاس الفرڈ نوبل کی وصیت کی صورت میں رہنما اصول موجود ہے کہ دنیا میں مسلح تصادم کی روک تھام میں کردار ادا کرنے والے لیڈر کو یہ انعام دیا جائے۔ اب عمران خان کی کوششیں اور اعلانات کمیٹی کے خیال میں اس معیار پر پورے اترتے یا نہیں، اس کا فیصلہ ہوتے تو وقت لگے گا لیکن پاکستان میں عمران خان کے حامیوں کے علاوہ پاکستان کا نام دنیا میں سرفراز دیکھنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے یہ تجویز اور اور اس پر ہونے والی بحث دلچسپی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر چلائی گئی اسی مہم کا نتیجہ ہے کہ ملک کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو حق نمک ادا کرنے کے لئے فوری طور سے اس حوالے سے قومی اسمبلی سے قرارداد منظور کروانے کا نادر روزگار خیال بھی آگیا۔ اب ان کی طرف سے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں قرارداد کا مسودہ قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے جمع کروا دیا گیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2770 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali