او آئی سی: پاکستان کے لئے معاشی اور سفارتی چیلنج


او آئی سی کے اجلاس کا بائیکاٹ اور بھارتی پائلٹ کی رہائی دونوں فیصلے درست ہیں۔ بھارت جو بھی کہتا رہے، عالمی برادری پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا۔ اپنا دفاع کرنا تو بہرحال ہر ملک کا حق ہے۔ او آئی سی کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کو مہمان خصوصی کے طور پر نہ صرف مدعوکیا گیا بلکہ خلیجی ممالک نے والہانہ پذیرائی بھی کی۔ کوئی شک نہیں کہ سفارتی حوالے سے یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پچھلے ماہ پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد ایک روز ریاض میں رہ کر پھر نئی دہلی پہنچے تو بڑے پیمانے پر تجارتی معاہدے کیے گئے۔ سعودی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد بھی ولی عہد کے ہمراہ بھارت آئی تھی۔ اس دورے کے اختتام پر بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے جو وزیر اعظم نریندر مودی کے بعد حکومت کا اہم ترین ستون سمجھے جاتے ہیں، نے ایک ٹویٹ کیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے او آئی سی کے ا جلاس میں شرکت کے لئے بھارت کی درخواست منظور کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ ابوظہبی میں ہونے والے اگلے ہی اجلاس میں مدعو کیا جائے گا۔

 ارون جیٹلی نے ٹویٹ میں لکھا کہ تجارتی معاہدے اپنی جگہ، لیکن اس دورے کی سب سے بڑی کامیابی او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کے لئے ہمارا دیرینہ مطالبہ منظورہونا ہے۔ یہ ریکارڈ پرہے کہ بھارت او آئی سی کے قیام کے بعد سے ہی ممبر یا مبصر بننے کی کوششیں کرتا آ رہاہے۔ جنرل یحییٰ کے دور میں تو ایک بار او آئی سی حکام نے بھارت کومدعو بھی کرلیا تھا مگر اجلاس کے بائیکاٹ کے لئے پاکستان کی دھمکی کام کر گئی۔ اس مرتبہ بھی حکومت پاکستان نے جائز طور پر مطالبہ کیا کہ بھارت کوشرکت سے روکا جائے۔

ابو ظہبی نے اس حوالے سے پاکستان کا مطالبہ واضح طور پر مسترد کردیا۔ اب کوئی اور چارہ نہ تھا۔ او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو مدعو کرنا جہاں بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے، وہیں اس کا ایک دفاعی پہلو بھی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ واضح ہو کر سامنے آ سکتا ہے۔ یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ مسلم ممالک کی تنظیم میں بھارت کو کوئی بھی حیثیت دینا پاکستان کے حوالے سے ہرگز پسندیدہ نہیں۔ یقیناً سفارتی روابط کا سلسلہ برقرار رکھنے بلکہ بہتر بنانے کے لئے تنظیم کے آئندہ ہونے والے اجلاسوں میں جایا جا سکتا ہے لیکن پہلے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے اپنی ناراضی اور احتجاج رجسٹرڈ کرانا ضروری تھا۔

ابوظہبی میں ہونے والے اجلاس میں نوٹ کیا گیا کہ ممبر ممالک بھارتی وزیر خارجہ کو غیر معموملی اہمیت دیتے نظر آئے۔ سشما سوراج نے اس پلیٹ فارم پر بھی پاکستان کا نام لیے بغیر کھل کر تنقید کی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جواب دینے کے لئے پاکستان کوموجود ہونا چاہیے تھا۔ انہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ ایسی کسی صورتحال میں تنظیم کے رکن ممالک کا رد عمل کیا ہوتا۔ کسی تلخی کی صورت میں انہیں بھی اجلاس کے دوران کوئی پوزیشن لینا پڑتی تو وہ کیا ہوتی؟

پاکستان نے اجلاس میں شرکت نہ کر کے برادر مسلم ممالک کو کسی امتحان میں ڈالنے سے بچا لیا۔ پاکستان کے ہاتھ آئے بھارتی پائلٹ کی رہائی، پاکستان کے اس موقف کی عکاسی ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اس حوالے سے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کھل کر اظہار خیال کر چکے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، چین اور دیگر با اثر ممالک کے فوجی سربراہوں اور سفیروں سے رابطوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے کسی بھی جارحیت کے تاثر کا امکان باقی نہ رہے۔

ہاں مگر کوئی اور حملہ کرے گا تو اس کے اندازے سے بھی زیادہ طاقت سے جواب ضرور دیا جائے گا۔ پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی اور درختوں پر بمباری کے جواب میں دشمن کے دو طیارے تباہ اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا کر منہ توڑ جواب دیا گیا۔ بھارتی فوج نے اپنی قوم کو بے وقوف بنانے کے لئے اپنی کارروائی کے حوالے سے کئی جھوٹے دعوے کیے مگر ایک بھی ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ پاکستان نے دو طیاروں کومار گرایا اور اپنی حدودمیں گرانے والے طیارے کا ملبہ پوری دنیا کو دکھایا۔

 پیراشوٹ سے کودے ہوئے پائلٹ کو زندہ گرفتار کرنے کے بعد بھارت کے حوالے کرکے اپنی اخلاقی اور دفاعی دونوں طرح کی برتری ثابت کر دی۔ بھارت کی مودی حکومت سے پاکستان کو خطرات درپیش ہیں کیونکہ الیکشن جیتنے کے لئے اسے کوئی نہ کوئی غلط حرکت کرتے رہنا ہے۔ مکمل جنگ تو بھارت بھی نہیں چاہتا لیکن چھوٹی موٹی جھڑپوں کے دوران اس بات کا خدشہ موجود رہتا ہے کہ لڑائی پھیل کر بڑی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے، بیشتر مبصرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بھارتی حکومت جھڑپوں کے ذریعے جہاں ایک طرف الیکشن کے حوالے سے اپنی مہم کو آگے بڑھا رہی ہے وہیں یہ سازش بھی کر رہی ہے کہ پاکستان کی ڈولتی معیشت کو سنبھالا نہ مل جائے۔

کسی بھی خود مختار ملک کی جانب سے جارحیت کا جواب دینا بلکہ فوری طور پر دینا مسلمہ اصول ہے۔ بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے بعد یہ ممکن نہیں تھا کہ جواب نہ دیا جاتا۔ پاکستانی عوام کا غصہ اپنی آخری حدود کو چھو رہا تھا۔ کوئی بھی حکومت ہوتی اسے دشمن کو سبق سکھانے اور اپنے عوام کومطمین کرنے کے لئے جوابی کارروائی کرنا ہی کرنا تھی۔ پاکستان نے یہ سب نہایت پیشہ ورانہ طریقے کے ساتھ عمدگی سے کر دکھایا۔

 ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ ہمارایک اور پڑوسی ملک یہ دھمکی دے چکا تھا کہ اس کی فوج پاکستانی علاقے میں گھس کر دہشتگردوں کے بعض ٹھکانوں پر حملہ کر دے گی۔ ایسی مصدقہ اطلاعات موجود تھیں کہ وہ ملک بھی اپنے جنگی طیارے سرحدوں پر لے آیا تھا۔ پاکستانی افواج نے بھارتی جارحیت کے خلاف زبردست ردعمل دے کر ایسے احمقانہ خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر بمباری پر سامنے آنے والا ردعمل ہمیں بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔

دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی بھارت کی مذمت نہیں کی۔ امریکہ، فرانس، آسٹریلیا نے تو الٹا پاکستانی حدود میں گھس کر بم باری کی حمایت کردی۔ باقی ممالک کا کہنا یہی تھا کہ دونوں ممالک تحمل سے کام لیں۔ چین نے بھی سخت احتیاط برتی۔ بہت کوششوں کے بعد ترکی کی حکومت سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک بیان جاری کرایا گیا لیکن اس میں بھارتی جارحیت کی مذمت شامل نہیں تھی۔ اس عرصہ کے دوران او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شمولیت نے ہماری ساری سفارتی پوزیشن کو کھول کر رکھ دیا۔

 مہنگائی اور معاشی حوالے سے غلط فیصلوں پر وزارت خزانہ کو ہی سب سے زیادہ کوسا جا رہا تھا۔ اب پتہ چلا کہ وزارت خارجہ کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں چند غیر محتاط باتیں کہہ کر سب کو حیران کردیا۔ وزیر اعظم نے جہاں یہ کہہ کرسب کو حیران کردیا کہ 20 سال پہلے بھارت گیا تو کوئی علیحدگی نہیں چاہتا تھا۔ حالانکہ اس وقت معرکہ کارگل اسی معاملے پر برپا تھا۔ 1990ء سے جاری تحریک آزادی کے لئے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی جا چکی ہیں۔ کشمیری کبھی بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے۔ 1947 ءکی پاک بھارت جنگ اسی معاملے پر ہوئی۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کے مطالبے کا اور مطلب ہی کیا ہے۔ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ مودی سے رابطے کی کوشش کررہے ہیں مگر نہیں ہو رہا۔ ان باتوں پر زیادہ تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔ وزارت عظمیٰ کا منصب گہری سنجیدگی اور احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ لگتا ہے اس کا موجودہ حکمرانوں کو زیادہ علم نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پارٹی کے اندر کسی کی جرات نہیں کہ خان صاحب کو ان کی بے احتیاطی پر توجہ دلا سکے۔ ایسے میں عمران خان کے حقیقی سرپرستوں ہی سے عرض کیا جا سکتا ہے کہ اور کچھ نہیں تو اہم موقع پر ہی صرف لکھی ہوئی تقریریں پڑھی جانا چاہئیں۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر جہاں ہمیں اپنی معیشت کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہیں، وہیں سفارتی محاذ پر بھی جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، ہرگز نہیں چاہتے۔ لیکن اگر لڑائی مسلط کی گئی تو پوری طاقت سے جواب دیں گے اور کوئی راستہ ہی نہ ہوگا۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ اپنے بچاو اوردفاع کے لیے ہی تو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).