جنگ، امن، خیر سگالی کا جذبہ اور نوبل انعام!


ہمارے ایک بذلہ سنج اور شگفتہ مزاج دوست نے ایک بار ایک لطیفہ سنایا تھا جو کچھ یوں تھا کہ کسی محلے میں ایک آدمی کو لوگ جج صاحب جج صاحب کہہ کرمخاطب کرتے تھے۔ جج صاحب کی ظاہری وضع قطع اور حال حلیہ ججوں والا ہرگز نہیں لگتا تھا۔ محلے میں ایک نو وارد یہ صورت حال دیکھ کر بہت سٹپٹایا کرتے۔ آخر ایک دن انہوں نے جج صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ آپ کس عدالت کے جج رہے ہیں۔ جج صاحب نے بے تکلفی اور برجستگی سے جواب دیا کہ حضرت ایک مرتبہ محلے میں مرغوں کی لڑائی ہورہی تھی۔ مجھے تماشائیوں نے اصرار کرکے مرغوں کے مقابلے کاجج مقرر کردیا۔ بس اس دن کے بعد سے محلے بھر میں جج مشہور ہوگیا ہوں۔

یہ لطیفہ ہمیں فاقی وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری اور پی ٹی آئی کے چند دوسرے قائدین کی طرف سے قومی اسمبلی میں جمع کی گئی اس قرارداد کے بابت سن کر یاد آیا جس میں انہوں نے مطالبہ گیا ہے کہ خیر سگالی کے جذبے، امن اور انسانی ہمدردی کے تحت بھارت کے پائلٹ کو اپنے ملک واپس بھیجنے کے کارنامے پر جناب عمران خان کو امن کا نوبل انعام ملنا چاہیے۔ اگر ایک قیدی کو وطن مالوف بھیجنے کا صلہ نوبل انعام ہے تو پھر اندرا گاندھی کو تو امن کے ہزاروں نوبل انعامات ملنا چاہییں تھے جنہوں نے پاکستان کے تقریباً نوے ہزار جنگی قیدی اکہتر کی جنگ کے بعد ہمیں واپس کیے تھے۔

پی ٹی آئی والے اور عمران خان بادشاہ لوگ ہیں۔ کبھی عمران کے ورلڈ کپ جیتنے اور شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر پرانہیں ملک کا وزیر اعظم بنانے کا مطالبہ کیا کرتے تھے تو کبھی اپنے انوکھے لاڈلے کے لیے چاند مانگا کرتے تھے اور اب انڈین پائلٹ چھوڑنے پر نوبل انعام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مؤرخ لکھے گا کہ پی ٹی آئی کے برزجمہروں نے یہ مضحکہ خیز مطالبہ عین اس وقت کیا جب ہماری سرحدوں پر بھارتی سورما بھاری توپ خانے سے گولہ باری کرکے درجنوں باشندوں کو قتل اور زخمی کر رہے تھے۔

گولہ باری اور طوفانی برف باری کا سلسلہ جاری تھا۔ لوگ مررہے تھے۔ چیخ پکار اور نالہ و فریاد ہو رہی تھی۔ مگر اسی دوران وہی وزیر اطلاعات کنٹرول لائن پر بسنے والے کشمیریوں کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک پاشی کررہا تھا کہ ایل او سی پر معمول کی جھڑپیں ہو رہی ہیں کوئی بڑی گولہ باری نہیں ہو رہی، لوگ جھوٹی خبروں پر کان نہ دھریں۔

عمران خان کے لیے امن کے نوبل پرائز کے مطالبے پر ہمیں یاد آیا کہ اگر نوبل پرائز کمیٹی اسی طرح تھوک کے حساب سے پرائزز بانٹنے لگی تو پھراسے ہمارے بہت سے دوسرے ہیروز اور نابغہء روز گار ہستیوں کو بھی اس عظیم ایوارڈ سے نوازنا ہوگا۔ مثلاً چند سال قبل پولیس کے محکمے کے ایک سٹینو گرافر نے پولیس سے قبل از وقت ستعفا دے کر پانی پر گاڑی چلانے کا ہوش ربا تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تب ہمارے ”اصول پرست“ اور ”صادق و امین“ الیکٹرانک میڈیا نے اپنے پروگراموں کی شان بڑھانے کے لیے آغا وقار صاحب کو ہر پروگرام خاص مہمان کے طور پر بلانا شروع کردیا تھا۔

ستم ظریفوں نے تو کچھ پروگراموں میں مشہور و معروف سائنسدان اور پروفیسر جناب ہود بھائی کو بھی اس کے سامنے لا بٹھایا تھا۔ اگر عمران خان کے لیے محض ایک پائلٹ کی واپسی انہیں امن کے نوبل انعام کا مستحق قرار دلوا سکتی ہے تو ہم ببانگ دہل آغا وقار کے لیے فزکس کے شعبے میں نوبل انعام کا مطالبہ کریں گے۔ آغا صاحب ہی کیوں پھر ہم اپنے نڈر، بے باک اور کمال جواں مردی کا مظاہرہ کرنے والے جناب فیصل واؤڈا کے لیے نشان حیدر کے ساتھ ساتھ بہادری و شجاعت کے نوبل انعام کا جائز اور برحق مطالبہ کرنے سے بھی نہیں چوکیں گے جو دہشت گردی کے چھوٹے موٹے واقعات کے کئی گھنٹوں بعد رتن ناتھ سرشار کے مشہور کردار خوجی کی طرح اپنا پستول لے کر پہنچ جاتے ہیں۔

خوجی اپنی قرولی حریف کے پیٹ میں بھونکنے کی دھمکی دیتا تھا مگر ہرجگہ سے پٹ کر آتا تھا۔ فیصل واؤڈا کو ان کی خدمات کے عوض ضرور نوبل پرائز ملے گا۔ نوبل پرائز کا سلسلہ چل ہی نکلا ہے کہ تو اپنے شیخ چلی۔ سوری شیخ رشید صاحب پیچھے کیوں رہیں جو روزانہ بھارت کو صفحہء ہستی سے مٹا نے اور اس کی چتا جلانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وارث خان میں پولیس کی آمد کی خبرسن کر موٹر سائکل پر بیٹھ کر تنگ گلیوں میں گواچی گاں کی طرح بھاگتے پھر رہے تھے اور کسی ٹی وی چینل کی ڈی ایس ایل کی چھت کو اپنی جائے پناہ بنایا تھا۔

ان کا یہ کارنامہ ہی اتنا عظیم ہے کہ کئی نوبل پرائزز پر بھاری ہے۔ دونوں وزیر اطلاعات اس دوڑ میں کیوں پیچھے رہیں جنہوں نے گالم گلوچ اور سب و شتم کے نرالے اسلوب مروج کیے ہیں اور ہاں اپوزیشن میں رہ کر مبلغ چھالیس روپے فی لٹر پٹرول بیچنے والے اور ڈالر سو روپے پر لانے والے نابغہء روزگار اسد عمر صاحب کو لوگ کیسے بھول سکتے ہیں۔ اگر بنگلہ دیش کے بینکار یونس گرامین کو نوبل پرائز مل سکتا ہے تو پاکستانی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے والے اسد عمر کو کیوں نہیں؟ اور قارئین! یہ فہرست شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوتی جائے گی۔ آپ اپنی پسند سے اس فہرست میں اضافہ کرتے چلے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).