کیا سب کو چھوڑ دیں؟


پاکستان میں جب بھی کچھ اچھا کام ہوتا ہے لوگوں کو دس کام وہ یاد آجاتے ہیں جو ابھی نہیں ہوئے۔

انڈین پائلٹ کو چائے پلا کر، وڈیو بنا کر چھوڑ دیا، سب نے کہا بہت اچھا کیا۔ انٹرٹیٹ پر بیٹھے کچھ سورما جو ہر روز کشتوں کے پشتے لگاتے رہتے ہیں، ان کو چھوڑ کر سب نے کہا کہ بہت اچھا کیا۔ ہماری اس سے دنیا میں بہت نیک نامی ہوئی ہمیں بھی من الحیث القوم اپنے اوپر پیار سا آ گیا کہ دیکھو ہم بھلے لوگ ہیں دنیا ہمیں جو بھی کہے ہم بھلے لوگ ہیں۔

لیکن ساتھ کچھ دبی دبی کچھ تلملاتی ہوئی آوازیں آنا شروع ہوئیں کہ انڈین پائلٹ کو چوڑ دیا اچھا کیا لیکن جو اپنے پکڑے ہوئے ہیں انھیں کیوں نہیں چھوڑتے۔

ہمارے ہاں کج بحثی کا ایک عام انداز یہ ہے کہ آپ کہیں گے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا میں کہوں گا کہ پوری دنیا میں جو مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس پر آپ بات کیوں نہیں کرتے۔

میں کہوں گا کہ برما کے بھکشو روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ آپ کہیں گے وہ جو چین کے ایک صوبے میں مسلمان ہیں وہ آپ کو مسلمان نہیں لگتے۔

(چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے آپ اور میں اپنا لہجہ دھیما کر لیں گے۔)

میں کہوں گا چند نیم ریٹائرڈ جہادی بزرگوں کی وجہ سے پوری دنیا ہمیں دہشتگرد کہتی ہے۔ آپ مجھے کوئی سروے نکال کر دکھائیں گے اور ثابت کریں گے کہ پوری دنیا تو امریکہ کو سب سے بڑا دہشتگرد مانتی ہے۔

بھارتی پائلٹ کی بھی باعزت گھر واپسی پر آوازیں اٹھنے لگیں کہ یہ تو اچھا کیا لیکن وہ جو بلوچ نوجوانوں کو کہیں بند کر کے بھول گئے ہیں وہ انھیں کیوں رہا نہیں کرتے۔ وہ تو جنگی جہازوں میں بیٹھ کر ہم پر حملہ آور نہیں ہوئے تھے۔

وہ جو پشتون خاندان اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے کب سے مارے مارے پھر رہے ہیں ان کی فریاد کیوں نہیں سنتے۔ وہ جو مہاجر اور سندھی سیاسی کارکن لاپتہ کر دیے گئے ان کا پتہ کون دے گا۔

ان جائز لیکن معصومانہ مطالبات کا ایک سادہ سا جواب یہ ہے کہ ریاست اگر سب کو ہی رہا کر دے تو اس کے پاس کرنے کو کیا بچے گا۔ ریاست کی مجبوری ہے کہ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے زندان خانے آباد رکھے۔ ان زندان خانوں سے اٹھتے ہوئے نعرے اور چیخیں ریاست کو اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔

کبھی بڑی اور ابھرتی ہوئی طاقتوں کو دیکھا ہے، امریکہ، چین، روس اور ترکی میں قیدیوں کی آبادی کا اندازہ ہے کچھ۔ اب پاکستان سعودی عرب تو ہے نہیں جہاں شہزادے کا موڈ اچھا ہو تو وہ ایک سہ پہر کے لیے قید خانوں کے دروازے کھول دے۔

لیکن پاکستانی ریاست کی مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے بھی ایک قیدی ایسا ہے جسے چھوڑنے پر غور کرنا چاہیے۔

اس لیے بھی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت قیدی کو معصوم قرار دے چکی ہے۔ قیدی کی رہائی کا پروانہ کب کا جاری ہوچکا۔ قیدی کی بریت کے خلاف ریاست سے بغاوت کرنے والوں کا مکو بھی راتوں رات ٹھپ دیا گیا۔

تو اب آسیہ بی بی آزاد کیوں نہیں ہے۔ اس کے بچے باہر ہیں اور وہ یقیناً ان کے پاس جانا چاہتی ہو گی۔ ہم نے کیوں اسے کال کوٹھڑی سے نکال کر کہیں اور بند کر دیا ہے؟

ریاست کو شاید خدشہ ہے کہ وہ ملک سے باہر جائے گی تو بولے گی، ہمارے خلاف زہر اگلے گی، ہماری بدنامی کا باعث بنے گی۔ لیکن ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ آسیہ بی بی باہر جا کر کیا کہے گی کہ اس کے ساتھ ظلم ہوا، کہ اسے ایک جھوٹے الزام پر سزائے موت سنائی گئی اور پھر دس سال تک کال کوٹھڑی میں رکھا گیا، کہ جب وہ کال کوٹھڑی میں تھی تو پاکستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں نے اس ظلم پر کوئی آواز نہ اٹھائی۔ جس نے اٹھائی اس کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ کیا کہے گی آسیہ بی بی جو پہلے نہیں معلوم دنیا کو؟

وہ جو بھی کہے گی آخر میں اس کو کہنا پڑے گا کہ اس کے ساتھ عظیم ظلم ہوا لیکن اسے انصاف بھی آخر میں اسی ملک کی عدالت عظمیٰ سے ملا۔

اگر ریاست کو پھر بھی بدنامی کا خدشہ ہے تو آسیہ بی بی کے ساتھ بھی وہی کرے جو انڈین پائلٹ کے ساتھ کیا۔ یعنی اسے چائے پلائے اور ایک ویڈیو ریکارڈ کرائے جس میں آسیہ بی بی کہے کہ پاکستان ایک عظیم قوم ہے اور اس کے بعد اگر وہ ملک سے باہر جاکر ہماری شان میں کوئی گستاخی کرے تو ہم سب یک زبان ہوکر کہہ سکتے ہیں، مگر پوری دنیا میں مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).