پاک بھارت کشیدگی اور مودی


جنگیں دراصل دوصورتوں میں لڑی جاتی ہیں۔ پہلی صورت میں لڑنے والی جنگوں کو ہم ناگزیر صورتحال سے جنم لینے والی جنگیں کہہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پرحالات اضطراری بن جاتے ہیں اوردشمن کے اقدام سے نمٹنے کی خاطر ایک ملک کو چاروناچار جنگ کی آگ میں کھودناپڑتاہے۔ جبکہ دوسری صورت میں لڑنے والی جنگوں کاسبب ناگزیر حالات نہیں ہوتے بلکہ اس کے پیچھے مطلق رعونت اور عیاشی کارفرما ہوتی ہے۔ ایسی جنگوں کی نوبت جب آتی ہے تو پھر طبل جنگ بجانے والے کسی معقول دلیل کوخاطرمیں لاتے ہیں، نہ ہی کسی کی مشاورت کاسہارالیتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے بیچ چھڑنے والی حالیہ جنگ بھی عیاشانہ جنگ کی ایک بین مثال ہے جس کاسہرانریندر مودی حکومت کو جاتا ہے۔ مودی نے ایک عیاشانہ جنگ کی ابتداء تو کردی لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ آگے چل کر اس کے نتائج تباہی، بربادی اور انسانی جانوں کی ضیاع پر منتج ہو گا۔ نریندرمودی نے ایک غیرمعقول جنگ کا دروازہ تو کھول دیا لیکن ڈیڑھ ارب آبادی کے اس انتہا پسند حکمران کہ یہ معلوم نہیں تھاکہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ملکوں کے درمیان یہ جنگ کسی بھی وقت جوہری ہتھیاروں کی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی بہت سی پالیسیوں سے اختلاف ہوسکتاہے لیکن اس معاملے میں انہوں نے بڑا معقول بلکہ ایک حدتک معذرت خواہانہ موقف اپنایا۔ پلوامہ حملے کے بعد عمران خان نے مودی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھاکہ ”ہم آج ہندوستان کی حکومت کو آفر کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی آپ تحقیقات کرواناچاہتے ہیں، ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستان کے پاس اس حوالے سے کوئی انٹیلی جنس معلومات موجودہیں کہ پاکستان اس میں ملوث ہے، براہ مہربانی وہ ہم سے شیئرکردیں، ہم آپ کو ان ذمہ دار وں کے خلاف ایکشن لینے کی گارنٹی دیتے ہیں“۔

اس پرمستزاد یہ کہ اس حملے کے بارے میں خودبھارتی ریٹائرڈ افسر ز یہاں تک کہتے رہے کہ خودکش حملہ آور کی جیکٹ میں استعمال ہونے والی بارود بھارتی ساختہ ہے۔ راج ٹھاکرے جیسے راسخ العقیدہ ہندو بھی بھول اٹھے کہ ”پلوامہ حملہ مودی سرکار کا سیاسی ڈرامہ ہے جس کا ہدایت کار اجیت دوول ہے“۔ اسی طرح بھارت کے ممتاز سماجی رہنما ومن مشرام نے بھی اس حدتک دعویٰ کرلیاکہ ”بھارت سرکار کو پلوامہ حملے کے بارے میں آٹھ دن پہلے جانکاری تھی اور اس بابت حکومت کے پاس آئی بی کی رپورٹ بھی تھی لیکن اس کے باوجود وہ مودی حکومت نے حملہ ہونے دیا“۔

گوکہ ان سب کچھ کے باوجود نریندرمودی اپنی ذہنی عیاشی کے اظہار پرتلے ہوئے تھے۔ یاد رہیے کہ مودی حکومت اپنی مدت پوری کررہی ہیں۔ چناوکودو ڈھائی مہینے رہ گئے ہیں اورقوم کے ساتھ کیے گئے وعدے مودی صاحب سے اس طرح نبھائے نہیں گئے جس طرح سے ان سے توقع کی جاتی تھی۔ یوں اپنی قوم کی حمایت حاصل کرنے کے لئے وزیراعظم مودی کے لئے یہی ایک راستہ بچاتھا کہ ”عوام کے لئے دودھ اور شہدکی نہریں نکالنا اگرچہ مودی حکومت کی بس کی بات نہیں۔

کم ازکم اپنے دشمنوں کو سبق توسکھاسکتی ہے۔ اور پھر ایک رات انہوں نے بین الاقوامی اور اخلاقی قوانین کو پامال کرتے ہوئے اپنے جنگی طیارے بھیج کربالاکوٹ کے جنگلات پر بم پھینک کرواپس ہوئے۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ حملے میں جیش محمد کی فیکٹری تباہ کردی گئی اور اس میں ساڑھے تین سو دہشتگرد مارڈالے ہیں۔ اور حال یہ ہے کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس حملے میں وہاں پر ایک معصوم کوا ہلاک، کئی درخت تباہ، ایک آدھ مکان متاثر اور ایک رہائشی جزوی طورپر ضرور زخمی ہواہے لیکن ابھی تک کسی آزاد میڈیا نے کسی قسم کے دہشتگرد ٹریننگ سنٹر اور دہشتگردوں کی ہلاکت کی گواہی نہیں دی ہے۔ مودی حکومت کی جنونیت کے بارے میں خودبھارتی صحافی اروندھتی رائے اپنے حالیہ کالم میں لکھتی ہیں۔

۔ ”المیہ یہ ہوا کہ پلواماحملے نے نریندر مودی کو تماش بینی کا ایک بہترین موقع فراہم کیاجس کے وہ ماہر بھی ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے کئی ماہ پہلے ہی پیش گوئی کی تھی کہ بی جے پی، جو اپنی سیاسی اہمیت کھورہی ہے، انتخابات سے قبل آسمانوں سے گولے برسائے گی، جس سے خوف وہراس پھیلے گا۔ ہماری پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکمران جماعت پلواما واقعے کوسیاسی مفاد کے طور پراستعمال کررہی ہے۔ پلواما حملے کے فوری بعد ایک مشتعل ہجوم نے بھارت میں کام کرنے والے اور تعلیم حاصل کرنے والے کشمیریوں پرحملہ کیا جس پر مودی نے ایک لفظ تک نہ کہا اور ردعمل دیابھی اس وقت جب سپریم کورٹ نے کہا کہ ان کشمیریوں کوتحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

لیکن فضائی حملے کے فوری بعد وہ ٹی وی پرآئے تاکہ اس کاکریڈٹ حاصل کرسکیں اور ایسی بڑھکیں ماریں کہ جیسے وہ خود طیارے اڑا رہے اور بم برسارہے تھے۔ اس کے فوری بعد بھارت کے تقریباً چارسو نیوز چینلوں (جن کی اکثریت جانبدار تھی ) نے چوبیس گھنٹے تک اس کارکردگی کوبڑھا چڑھا کرپیش کیا۔ پرانی ویڈیوز اور جعلی باتیں پھیلا کر اینکرزچیختے چلاتے اور محاذ پر موجود کمانڈوز بننے کی کوشش کرتے رہے، ایک جنونیت کا ماحول پیداکیاگیا اور قوم پرستی کو ابھارا گیا۔ (اروندھتی رائے، ہفنگٹن پوسٹ )

بھارتی کارروائی کے جواب میں اگلے دن پاکستان نے کشمیر کے علاقے میں بھارت کے دوجنگی طیارے مار گرائے اور ”ابھینندن“ نام کا ایک پائلٹ بھی گرفتار کرلیا۔ ابھینندن کو دو دن کے اندر ہی بھارت کے حوالے کرناعمران خان حکومت کا ایک اور قابل مدح اقدام تھا۔ اگرچہ خان کے اس فیصلے کو اپنے ہی ملک میں سیاسی جماعتوں سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے تنقید کانشانہ بنایا لیکن علاقائی امن کی خاطر ان کا یہ ایک صائب فیصلہ تھا۔ بھارت میں بھی بے شمار لوگوں نے پاکستانی وزیراعظم کے اس اقدام کو گھٹنے ٹیکنے سے تعبیر کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہاں کے دانشور طبقے اوراہل بصیرت لوگوں نے ان کے اس قدام کو عمران خان کی جیت اور مودی کاہار قرار دیا۔ پلواما حملے کے بعد پاکستان کی طرف سے بھارت کو مسلسل مذاکرات کی دعوت اور خیرسگالی کے پیغامات یقیناً نئے پاکستان کی غماز پالیسی ہے جس کا دنیا کو اب اعتراف کرنا پڑے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ کشیدگی پر خاصا باوقار اور معقول موقف اپناکر پاکستان نے خارجہ محاذ پر بہت حد کامیابی حاصل کرلی ہے تاہم اس کو پھر بھی پوری کامیابی اور سب ٹھیک ”سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ پوری کامیابی اس ریاست کی تب ہوگی جب یہ اندرونی محاذات پر بھی پائیدار اصلاحات پر توجہ مرکوز کرسکے۔ مثال کے طور پر انسانی حقوق کی پامالیوں کاخاتمہ ہو، پیہم ماورائے عدالتی قتلوں اور پکڑ دھکڑ کا انسداد اور بچے کچے نان سٹیٹ ایکٹرز کی سرپرستی سے بیزاری وغیرہ تمام وہ عوامل ہیں جن کی موجودگی اب انتہائی حدتک ناقابل برداشت اور خاتمہ بہرصورت ناگزیر ہوچکاہے۔

یہاں یہ بات پھر عرض کرتاچلوں کہ جنگ مطلق تباہی اور بربادی کا منحوس نام ہے جو انسانیت کے فائدے میں تو کُجا، روئے زمیں کی کسی بھی ذی روح مخلوق کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ بھارت سے قطع نظر، پاکستان کو اب پوری قوم اورعلاقائی امن کے ساتھ ساتھ اپنی کمزورمعیشت کے مفاد میں خطے کے تمام ہمسایہ ملکوں خصوصاً افغانستان کے ساتھ چائنا جیسے تعلقات استوار کرنا چاہیے اور مستقبل کے لئے ایک نیا بیانیہ تشکیل دینا چاہیے۔ اسی طرح بھارت کے معاملے میں آگے بھی پاکستان کو جارحیت کی بجائے عدم تشدد کا باوقارموقف اپنانا چاہیے تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جاسکے کہ جارحیت اب اس ملک کا طرہ امتیاز بنتا جارہاہے جس کی نام نہاد جمہوریت کے دنیا گیت گاتی ہے۔ آخر میں امن کے حوالے سے شاعر ِامن پیرگوہر کا ایک شعر،

زار دی امریکا لہ روس او روس دی زار لہ چینہ شی

غواڑمہ چی ٹولہ دنیا مینہ مینہ مینہ شی،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).