کوا مرا طبعی موت خدا، خدا کر کے


پرندوں میں اْلو اور کوے کو سب سے سیانا مانا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اْلو کی دانش کا راز اس کے تیز دماغ اور کوے کا اس کی عمرِدراز میں پوشیدہ ہے۔ جہاں تک بات اْلو کی ہے تو بھائی ہمیں زیادہ جانکاری نہیں، کہ کم بخت رات میں نمودار ہوتا ہے اور ہمیں جلدی سونے کی عادت ہے (یعنی نہ صرف ابھی تک کنوارے ہیں بلکہ سنگل بھی ہیں ) ۔ ہاں! مگر کوے کی بات الگ ہے۔ کوے سے ہماری واقفیت تب سے ہے جب سے اس نے ہمیں پہلی بار ’ٹھونگا‘ مارا تھا۔

بڑے بوڑھوں سے سنتے آئے ہیں کہ کوے کی عمر قریب قریب 300 سال ہوتی ہے۔ اب اس بات میں کس قدر سچائی ہے اس کا علم تو خدا کوہی ہے مگر ہم کوے کی حادثاتی موت کا احوال بخوبی جانتے ہیں۔ ہم ہی کیا، پاکستان میں موجود بچہ بچہ جانتا ہے۔ خدا بھلا کرے واپڈا والوں کا کہ ان کی محنت کے نتیجے میں کووں کی آبادی کافی کنٹرول میں ہے۔ آپ نے یہ روح پرور نظارہ تو ضرور دیکھا ہو گا کہ جب بھی کوئی کوا حادثاتی طور پر اپنی جان سے ہاتھ دھوتا ہے تو نہ جانے کیسے اس کے سبھی رشتہ داروں، دوستوں، ہم شجروں اور موجودہ و سابقہ بیگمات کو اس کی خبر مل جاتی ہے۔

سب اکٹھے ہو کر کچھ یوں آسمان سر پر اٹھاتے ہیں کہ قیامت کا گماں ہونے لگتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ انسانوں کو اور بلخصوص واپڈا والو کو ماؤں بہنوں کی گندی گالیں نکال رہے ہوں، کہ صاف ستھری گالیاں انتہائی شفیق اور دھیمی آواز میں ہی دی جا سکتی ہیں۔ کوے کی طبعی موت برحال ابھی تک سائنسدانوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ مگراب ہمیں یوں لگتا ہے کہ اگر محترم ’حامد میر صاحب‘ اور محترم جناب ’جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب‘ تھوڑی سی کرم نوازی فرمائیں تو ہم یہ گتھی سلجھا سکتے ہیں۔

جناب حامد میر صاحب کا ہنگامی حالات میں ’جنگل‘ کے اس خاص مقام پر کیا جانے والا پروگرام نظروں سے گزرا کہ جہاں پر منگل کی رات کو بھارت کے بوکھلائے ہوے جنگی طیاروں نے اپنا ’پے لوڈ‘ گرایا تھا۔ اس پروگرام کی ایک خاص بلکہ چونکا دینے والی انتہائی اہم بات یہ تھی کہ اس سارے بھارتی حملے میں ایک کوا بچارہ بھی شہید ہوا دکھایا گیا تھا۔ چونکنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے خیال میں اس کوے کی موت کا بھارتی حملے سے تعلق بس اس قدر ہی ہے کہ وہ عین اسی جگہ اپنی طبعی موت مرا جہاں ’پے لوڈ‘ گرا تھا اور میر صاحب کو اس کا پتہ نہیں چلا وگرنہ اگر وہ تھوڑا سا غور فرماتے تو ان کے کان بھی کھڑے ہوتے کہ اردگرد اس قدر خموشی کیوں کر ہے اور ’جان بحق‘ ہونے والے کے رشتہ دار کیوں کر نہیں پہنچے؟

خیر اگر میرا شک صحیح ہے اور کوا طبعی موت ہی مرا ہے توپھر بھی میر صاحب کی کوے کی ’ڈیڈ باڈی‘ کی ’ڈسکوری‘ اپنی جگہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ آج تک کوے کی طبعی موت کی وجوہات کی جانکاری نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ان کی باڈی کا نہ ملنا ہے۔ طب کی دنیا میں ایسے نادر لمحے بار بار نہیں آتے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ’جائے وقوعہ‘ پر موجود تمام تر ’ثبوت‘ نہایت احتیاط کے ساتھ محفوظ مقام پر منتقل کیے گیے ہوں گے۔ اس لیے اگر ہمیں کوے کی ڈیتھ باڈی کی ’آٹاپسی‘ کرنے کی اجازت مل جاے تو ہم نہایت یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس بارطب کا ’نوبل پرائز‘ وطنِ عزیز کے حصے میں ہی آئے گا۔ برحال اگرحکومت کا پلان ’ماحولیاتی دہشتگردی‘ کے ساتھ ساتھ ’اقوام متحدہ‘ میں پرندوں کے ’قتل عام‘ کی دفعہ بھی شامل کرنے کا ہے تو بات الگ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).