عمران خان کا امتحان اب ہوگا


کسی بے وقوف شخص کی غلطی کی سزا اس کی ذات تک محدود رہتی ہے مگر، ایسا شخص اگر حکمران ہو اور اس سے غلط فعل سر زد ہو جائے تو بسا اوقات اس کی قوم کی عمر بھر کی کمائی اور محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ اس فعل کے مضر اثرات اس طرح جان کو چمٹتے ہیں کہ چھڑانے کی سر توڑ کوشش بھی کامیاب نہیں ہوتی۔ جتنے مرضی ہاتھ پیر مارے جائیں، دلدل سے نکلنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ یہی عمل مخالف قوم کی ناکامی کو کامیابی اور انتشار کو وحدت میں بدلنے کی بنیاد بنتا ہے۔

بشرطیکہ زمام اقتدار کسی صاحب فہم و ذکا شخص کے ہاتھ میں ہو۔ پلوامہ حملہ ہوا، بھارتی وزیراعظم مودی بغیر ثبوت پاکستان کے خلاف شعلہ بدہن ہو گئے۔ بات چیت یا دلیل کے بجائے جنگ اور جارحیت کی دھمکیاں شروع کر دیں۔ حسب معمول پاکستان صفائیاں پیش کرتا رہا، لیکن جنگی جنوں کچھ اس طرح انڈیا کے سر چڑھا ہوا تھا کہ اس کی فضائیہ نے پاکستانی علاقے میں دراندازی کر دی۔ جوابا یہ ممکن نہ رہا کہ پاکستان خاموش رہتا، لہذا اسے بھی اپنی فضائیہ کو حرکت دینا پڑی۔ جس کے نتیجے میں بھارت اپنے دو جنگی جہازوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور تباہ شدہ جہاز کا پائلٹ بھی گرفتار ہو گیا۔

اس میں تو پہلے بھی ابہام نہ تھا، پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر حملے کی شرارت خود مودی سرکار کی اپنی گرتی سیاست کو سہارا دینے اور نوشتہ دیوار شکست ٹالنے کی خاطر تھی۔ لیکن فضائی محاذ پر منہ کی کھانے کے بعد کھلی جنگ سے گھبرا کر بھارتی فوجی افسر کے بیٹے نے بی جے پی کے رہنماؤں راج ناتھ سنگھ اور امیت شا کی آڈیو کال لیک کر کے بھانڈا پھوڑ دیا کہ اپنے جوانوں کی بھینٹ مودی نے انتخابی مفاد کے لیے دی۔ اس منصوبے کی پلاننگ خود حکمران جماعت نے کی اور پیسے دے کر انتخابات سے محظ کچھ عرصہ قبل یہ واردات کرائی۔

تاکہ کسی بہانے جنگ کا ماحول پیدا ہو اور پاکستان کے ساتھ تھوڑی بہت چھیڑ خانی کر کے من پسند نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ ابتدا میں پاکستانی موقف رہا کہ ثبوت ہیں تو فراہم کریں، ہمارا شہری ملوث ہوا تو کارروائی کریں گے۔ اس وقت تک دنیا بھی بھارتی موقف کی حامی تھی اور پاکستان بھی دفاعی پوزیشن پر تھا۔ کلبھوشن کیس میں کمزور ریاستی موقف کے باعث عوام کا مورال بھی ڈاؤن تھا اور وہ انڈیا سے کسی حد تک مرعوب ہو چکے تھے۔

دنیا بھی بھارتی معیشیت کے حجم اور بے پناہ جنگی مشنری کے باعث اسے پاکستان پر حاوی سمجھتی رہی۔ مودی کی حماقت کے باعث انڈیا کا نام نہاد بھرم بھی ٹوٹ گیا اور بیرونی دنیا تو رہی ایک طرف خود اندرونی طور پر پاکستان پر دہشتگردی کے الزام پر اب یقین کرنے کو وہاں کوئی تیار نہیں۔ خجالت سے نکلنے کو جو ڈوزیئر دیا ہے اس کی اہمیت بھی اب صفر۔ سو جوتے اور سو پیاز کھانے سے قبل یہ کام کرتے تو شاید دنیا ہم پر دباؤ بھی ڈالتی۔

پہلے ہی کرپشن اور ناقص کارکردگی کے باعث مودی کی فتح کا امکان محدود تھا لیکن دو طیاروں کی تباہی کی خجالت کے بعد اب یہ دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ اب وہ جان چھڑانے کو کہتے ہیں اگر رافیل طیارے ہوتے تو صورتحال یہ نہ ہوتی۔

ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

بہرحال جتنی ہزیمت ہو چکی، رافیل، ایس یو 35 یا یورو فائیٹر ٹائیفون خرید لیں۔ جلدی سے نہ آپ کی فوج کو مبارزت کی ہمت ہو گی اور نہ دنیا آپ کے الزامات پر یقین کرے گی۔ ویسے بھی مودی کو خبر ہو جنگ کے بعد جو طمانچہ یاد آئے اس کی بہترین جگہ اپنا رخسار ہے۔ امتحان اب پاکستانی قیادت کا ہے دفاعی اور سفارتی محاذ پر ملی کامیابی کو دیرپا کس طرح بناتے ہیں۔ حکومتی بزر جمہر یاد رکھیں کہ اب بھی ہم حالت جنگ سے مکمل نہیں نکلے۔ یہ جو فتح ملی ہے وحدت اور یگانگت کے سوا حاصل نہ ہوتی، اپوزیشن کا کردار بہت مثبت رہا اور یہ کسی پر احسان نہیں۔ قومی مفاد کا تقاضہ تھا۔ لیکن حکومتی جماعت سے جس طرح شعلہ افشانی اور کفریہ کلمات کہے جا رہے ہیں گمان نہیں کہ مفاہمت کی فضا دیرپا ثابت ہو گی۔

اس بحران میں دیکھ لیا، قوموں کی عزت پیسے کے سوا ممکن نہیں۔ یو اے ای اور سعودیہ کے آگے اگر چند روز قبل ہم چند ٹکوں کے عوض بچھے نہ جا رہے ہوتے تو کیا مجال تھی ہمارے مقابلے میں سشما سوراج کی میزبانی ترجیح ہوتی۔ یہ بھی ترکی جیسے ملک کی مہربانی کے او آئی سی کے اعلامیے میں بھارتی وزیر خارجہ کی موجودگی میں کشمیر میں اس کی ریاستی دہشتگردی کی مذمت کی گئی۔ دفاع نا قابل تسخیر بنانا ہے تو معاشی طور پر مضبوط ہونا پڑے گا۔

معاشی ترقی میں رکاوٹ صرف کرپشن نہیں۔ یہ ایک عامل ضرور ہے مگر بہت سی دیگر وجوہات کے ساتھ۔ احتساب بھی کریں، جو چور ڈاکو ہے اسے بیشک پکڑیں لیکن ایسا مضبوط ہاتھ ڈالیں کہ کل وہ ہیرو بن کر رہا نہ ہو بلکہ لوٹی دولت واگزار کرائیں۔ موجودہ طریقہ کار یک طرفہ احتساب بلکہ سیاسی انتقام ہی سمجھا جائے گا اور اس تاثر کے ہوتے ہوئے معیشیت کی حالت بہتر نہیں ہو گی۔

چند ماہ بعد ”دوست ممالک“ سے استعمال نہ کرنے کی شرط پر ملے پیسے بھی واپس کرنے ہوں گے۔ Imf کی قسط پھر سر پر کھڑی ہوگی۔ درآمدات و برآمدات کا خسارہ جوں کا توں موجود ہے۔ فوری طور پر آمدن میں اضافے کے لیے زرعی شعبے میں انقلابی اقدامات اور جدت لانی ہو گی۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث مارچ کے آغاز کے باوجود سردی ختم نہیں ہو رہی جس سے ربیع کی فصل کی کٹائی میں تاخیر ہو گی۔ جب اس کی کٹائی تاخیر سے ہوگی تو لازما خریف کی فصل کی پیداوار پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔

بہرحال قدرت کے آگے تو کوئی زور نہیں مگر، جدید طریقہ کاشت یعنی ڈرپ ایریگیشن سسٹم، لیزر لیولنگ اور ورٹیکل کاشت سے بہت زیادہ آمدن میں اضافہ ممکن ہے۔ ڈنمارک میں سردی ہماری نسبت کہیں زیادہ ہے مگر وہ ڈیری اور فوڈ انڈسٹری کے ذریعے متمول ریاست تصور ہوتا ہے۔ کھمبیوں کی طرح اگنے والی ہاؤسنگ اسکمیز بھی زراعت کے لیے زہر قاتل ہیں۔ وزیراعظم نے بجا طور پر احساس کیا کہ عمودی طرز تعمیر کو زرعی زمین بچانے کے لیے فروغ دینا پڑے گا۔

آمدن میں اضافے کا دوسرا فوری طریقہ ٹیکس کے حصول میں اضافہ ہے۔ موجودہ نظام FBR اور طریقہ کار کی موجودگی میں ٹیکس نیٹ میں اضافہ بالکل ممکن نہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے طبقے کی سمجھ میں FBR کے فارم نہیں آئیں گے، اس پر مستزاد اس میں درج سوالات سن کر بندے کا دماغ چکرا جائے۔ حکومت اگر ٹیکس کا حصول چاہتی ہے تو اسے اشیائے صرف پر ٹیکس لگا کر غریبوں کی زندگی اجیرن کرنے کے بجائے امراء کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ہو گا۔

درج بالا کاموں کے لیے قوانین میں ترمیم کرنا ہو گی جو حزب مخالف کی حمایت کے سوا نا ممکن ہے۔ حکومت بنے تقریبا آٹھ ماہ ہو چکے، کوئی بھی ہنی مون پیریڈ اتنا طویل نہیں ہوتا۔ لہذا اب سنجیدگی سے کام لیں۔ کنٹینر سے اتریں اور اپوزیشن مائنڈ سیٹ سے باہر آئیں۔ یہ پہلی حکومت ہے جسے اداروں کی اتنی حمایت میسر ہے اور حزب اختلاف بھی یک آواز ہے کہ قومی مفاد پر قانون سازی میں حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے گا۔ اب حکومت پر منحصر ہے کہ دفاع کے بعد اقتصادی محاذ پر سرخرو ہوتی ہے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).