چاچے کے بیٹے کی شادی اور او ائی سی


دنیا پوسٹ انڈسٹریل دور میں داخل ہو چکی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ سارے ممالک اپنے فیصلے اپنے مفادات اور کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ کوئی بھی اب اپ کی خوشنودی کی خاطر خام مال بننے کے لئے تیار نہیں۔ ایک طرف اپ امن کا پیغام دینے کے لئے مودی جی کو فون کر رہے ہیں۔ مذاکر ات کے لئے بھی اپ تیار ہیں۔ او آئی سی میں شرکت نہ کرنے کا مقصد؟ وہاں سشما سوراج ہی ا رہیں تھیں۔ شرکت بھی کی تقریر بھی کی اپنا موقف بھی دیا۔

شاہ محمودقریشی اپنے ٹی وی پر بیٹھ کر بھی باتیں کرتے ہیں۔ اپنا موقف دیتے ہیں مدلل بات کرتے ہیں۔ او آئی سی میں جا کر بھی اسی امن کے ہیغام کا اعادہ کرتے۔ وہی موقف سشما سوراج کے سامنے مسلم امہ کے سامنے رکھتے۔ اپ کا پیغام تو امن تھا کون اپ کو برا کہتا۔ ایک بڑے پلیٹ فارم سے اپ کی آواز زیادہ دنیا تک جاتی۔ پلیٹ فارم کی افادیت کتنی ہے الگ موضوع ہے۔ اپ کا وجود تو ہوتا وہاں۔ انڈیا کو موقع ملا اس نے ضایع نہں کیا شرکت کی۔

انڈیا بھی یہ سوچ سکتا تھا اسلامی ممالک کی تنظیم ہے۔ پاکستان وہاں ہو گا۔ ہمارا مخالف ملک ہے جس سے ہم بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔ سشما سواج نے شرکت کی اپنا موقف دیا۔ ان کی بات سنی بھی برداشت بھی کی۔ او آئی سی نے بہت متوازن بیانیہ دیا۔ جس پلیٹ فارم کو ہم نے رد کیا تھا اب اسی کا بیانیہ ہم اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ اگر اپ اس میں موجود ہوتے تو زیادہ وقار کی بات ہوتی۔

اب رہی بات کہ انڈیا نہ تو ممبر ہے نہ ہی مبصر پھر اس کو کیوں مدعو کیا گیا۔ اس وقت انڈیا پاکستان ایشو پر پوری دنیا کی نظریں ہیں۔ ہم اگر تھوڑی دیر کے لئے حسنِ ظن سے کام لے کر سوچتے ہیں۔ انہوں نے اس دفعہ خاص طور پر اپ دونوں فریقین کو مکالمے کا اور اپنا اپنا موقف ساری دنیا کے سامنے رکھنے کا موقع دیا۔ اپ انڈیا کو مدعو کیے جانے پر پر جوش احتجاج کر سکتے تھے۔ یہ اپ کا جائز حق تھا۔ میدان خالی چھوڑ دینا دینا کوئی عقلمندی نہیں تھی۔

مسلم امہ یک طرفہ طور پر کبھی بھی اپ کے ساتھ بغیر اپنا فائدہ نقصان دیکھے کھڑی نہیں ہو سکتی۔ سارے سیکولر ممالک بھی انڈیا کے ساتھ کبھی کھڑے نہیں ہوں گے۔ دونوں ممالک کے ساتھ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ کسی دوسرے کے لیے اپنا گھر کوئی نہیں اجاڑتا۔ عرب ممالک تو اپ کے کسی بندے کو نیشنلٹی تک دینے کے لئے تیار نہیں۔ ہمیشہ سے اپ کے شہریوں کو وہاں اجنبی ہی سمجھا جاتا ہے۔ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے اپ کی شرکت نہ کرنے کی دھمکی کارگر ہوتی نظر نہیں ا رہی تھی۔

پہلے ہمارے دیہاتوں میں رواج ہوتا تھا کہ شادی بیاہ کے موقع پر خاندانی لڑائیاں کھل کر سامنے آ جاتی تھیں۔ اور جو فریق بہتر پوزیشن میں ہوتا وہ اس قسم کی دھمکیاں دیتا تھا۔ اگر اپ نے فلاں رشتے دار کو بلایا تو ہم نہیں ائیں گے۔ اس وقت ایسی چیزیں چل جاتی تھیں۔ اب جب سے لوگ شہروں میں آ گے ایک دوسرے کی محتاجی کم ہو گی ہے۔ اب اگر اپ یہ کہتے ہیں کہ اگر چاچے کے بیٹوں کی شادی میں پھپھو کے خاندان کو بلایا تو ہمارا انکار ہی سمجھیں۔ ایسی صورت میں اب اپ یہی امید رکھ سکتے ہیں کہ پھر پھپھو کا خاندان ہی شرکت کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).