ہمیں تبدیلی نہیں، نوٹ چاہئیں


کچھ دنوں سے یہ بات بہت زیادہ مشاہدے میں آ رہی تھی کہ پاکستانی میڈیا بہت حد تک وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلا رہا ہے۔ اس تمہید کا مطلب ہر گز عمران خان کا دفاع نہیں لیکن گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پہ ایک تصویر نے بری طرح چونکا دیا۔ وہ اس طرح کہ مسلم لیگ نواز کی ایم پی اے پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ نے ملک کے نامور اینکرز کو عشائیے پر مدعو کیا۔ لیکن اس عشائیے پہ مدعو تمام اینکرز وہ خواتین و حضرات تھے جو ن لیگ کی حمایت میں خون پسینہ ایک کیے دیتے ہیں۔ یہ عام سی تصویر مجھے بہت زیادہ حیرت میں مبتلا کر گئی کیونکہ حیران کن حد تک وہ تمام اینکرز عمران خان کے خلاف ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کا جائز ناجائز دفاع کرتے ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر کچھ باتوں کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ 95 فیصد میڈیا کو ملک سے زیادہ اپنی جیبیں بھرنے کی فکر ہے اور وہ اس مقصد کے لیے کرپٹ سیاستدانوں کو سچا اور مظلوم ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ لالچ اور ہوس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ یہ اینکر حضرات ماہانہ تنخواہ لاکھوں میں وصول کرتے ہیں اس کے باوجود بھی ان کا ضمیر صرف روپے پیسے اور دنیاوی تعلقات کی خاطر سیاہ کو سفید کرنے کی دھن میں لگا رہتا ہے۔

میں بہت سے اینکرز کو ٹویٹر پہ فالو کرتی ہوں اور ان کے خیالات جان کر افسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ ملک میں ہونے والے ہر واقعے کا تعلق براہ راست پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور بالخصوص عمران خان سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر تقریباً دو ماہ قبل کراچی میں ایک نرس کے مبینہ اغوا کا کیس سامنے آیا تو سوشل میڈیا پہ ہمیشہ کی طرح ایک کہرام برپا ہو گیا کہ اب پڑھے لکھے لوگوں کی جان بھی اس ملک میں محفوظ نہیں۔

یقین کریں ان جیسے ضمیر کے سوداگروں یعنی بیشمار اینکرز نے نرس کے مبینہ اغوا کو طنزیہ انداز میں نئے پاکستان کی چند اولین نشانیوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے اسے عمران خان کی قیادت کی ناکامی قرار دیا۔ یہ مسئلہ تقریباً ایک ہفتے تک سوشل میڈیا پر ہاٹ ایشو بنا رہا یہاں تک کہ کیس کی تفتیش کے دوران یہ سامنے آیا کہ نرس کو کسی نے بھی اغوا نہیں کیا تھا بلکہ وہ پسند کی شادی کرنے کہ خاطر ایک لڑکے کے ساتھ گھر سے فرار ہوئی کیونکہ اس کے ماں باپ اس شادی پر تیار نہیں تھے۔

میں اب بھی سوچتی ہوں جب اس کیس کا ڈراپ سین ہوا ہو گا تو ان نام نہاد اینکرز نے ندامت محسوس کی ہو گی یا نہیں؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس قابل نہیں کہ کوئی ہمارے لیے آواز بلند کرے؟ جب ریاست کا چوتھا ستون کہلایا جانے والا میڈیا ہی اپنے ضمیر کی آواز سننے کی بجائے اس کا سودا کرنے پہ تیار ہو گا تو اس ملک کے عام عوام جن کو شعور ہی میڈیا دے رہا ہے وہ کیا کریں؟ اس ملک پہ سالوں سے دو شدید بدعنوان جماعتوں کی حکومت تھی لیکن کسی کو مین سٹریم میڈیا کی جانب سے اس طرح تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا جیسے پاکستان تحریک انصاف کی اس حکومت کو۔ اس کا مطلب ہے کہ لفظ ”تبدیلی“ کو حقیقی معنوں میں عام کرنے والے میڈیا اینکرز کو تبدیلی نہیں نوٹ چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).