مادری زبانیں اور ادبی میلے


گذشتہ چند سالوں سے ادبی میلے منعقد کرنے کا رواج چل پڑا ہے جس نے نا صرف ادبی کانفرنسوں اور سیمیناروں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے مدہم کردیا ہے بلکہ موضوعات کے بجائے شخصیات کو توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ ان میلوں میں ہلہ گلہ کے علاوہ ان لوگوں کو زیادہ نمایاں کیا ہے جو فی البدیہہ بولنے میں مہارت رکھتے ہیں اور عمومی طور پر ان محفلوں میں مواد کے بجائے اندازبیاں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

گزشتہ تین سالوں کی طرح اس سال بھی انڈس کلچرل فورم کے زیر اہتمام لوک ورثہ اور دیگر غیر سرکاری ترقیاتی تیظیموں کے تعاون سے مادری زبانوں کا میلہ 16 اور 17 فروری 2019 کو اسلام آباد میں منعقد کیا گیا۔ اسی طرح پچھلے دو ہفتوں کے دوراں لاہور ادبی میلہ اور کراچی ادبی میلہ بھی برپا کیا گیا۔

مادری زبانوں کے میلے اور دیگر میلوں میں نمایان فرق ایک تو زبانوں کی نمائندگی کا ہے کہ مادری زبانوں کے میلے میں پندرہ کے لگ بھگ زبانوں کی نمائندگی ہوتی ہے اوردیگر میلوں میں دو یا تین زبانوں سے زیادہ کو موقع نہیں ملتا۔ ایک فرق یہ بھی ہے کہ مادری زبانوں کے میلے میں مواد زیادہ اور بہتر ہوتا ہے۔ اس سال کے میلے میں بیس سے زیادہ مختلف زبانوں کی کتابوں کا اجرا کیا گیا۔ موضوعات کی تنوع بھی ایک اہم خصوصیت کے طور پر اس میلے میں سامنے آیا ہے۔

مادری زبانوں کے اس سال کے میلے میں دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ پشتو زبان کی اچھی اور معیاری نمائندگی نظر آئی۔ پشتو ترقی پسند دانش کو بھر پور پذیرائی ملی۔ دوسری زبانوں کے ادیبوں جیسے کشور ناہید، فاطمہ حسن، طارق رحمان، شاہ محمد مری، زبیر توروالی کے ساتھ رحمت شاہ سائل اور درویش درانی جیسے نمائندہ، ترقی پسند اور مزاحمت کار پشتون شعرا کی بھی خصوصی عزت افزائی کی گئی۔ درویش درانی بین اللسانی مشاعرے کے مہمان خصوصی ٹھہرے اور رحمت شاہ سائل نے اختتامی تقریب میں کلیدی خطبہ دیا۔

مادری زبانوں کے اس میلے میں ایسے ادیبوں کو بھی پزیرائی ملی جو ادبی خدمات میں کسی سے کم نہیں لیکن ادبی تقریبات اور میڈیا پر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک مثال قلعہ سیف اللہ بلوچستان سے عبدالقادر مجرم کی شرکت کاہے جس نے دونوں ہاتھوں کی معذوری کے باوجود پشتو ادب کو پندرہ کتابیں دی ہیں جس میں نو ناولز بھی شامل ہیں۔ ایسے توجہ کے حقدار ادیبوں کو انڈس کلچرل فورم جیسی ادب وزبان کی حقیقی تنظیمیں ہی لوگوں کے سامنے لاسکتے ہیں۔ انڈس کلچرل فورم کے میلے کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رحمت شاہ سائل نے بزبان شعر کہا کہ ہمسائے کی ترقی کا دعوہ اس وقت تک جھوٹا ہے جب تک میرا گھر اجڑا ہوا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان جیسے کثیراللسانی ملک میں مختلف ثقافتیں اور مختلف زبانیں معاشرتی سطح پر ایک دوسرے کی ترقی میں مد ومعاون ہیں۔ اس معاونت کو شک کی نگاہ سے دیکھنے اور زبانوں کی اہمیت کو پس پشت ڈالنے سے معاشرتی ترقی کو پہلے ہی بہت نقصان پہنچا ہے۔ مزید نقصان اور روایتی رویے پر اصرار ہمیں اپنی شناخت سے مکمل طور پر محروم کرسکتی ہے۔ اسی لیے تو مادری زبانوں کے اس میلے میں ہر ادیب اور قلمکار کی یہی استدعا تھی کہ زبانوں کو ان کا جائز مقام دینے اور مناسب تکریم ملنے میں مزید کو تاہی سے اجتناب کیا جائے۔

لاہور ادبی میلے میں پشو ادب کی نمائندگی رکھی گئی جبکہ سندھ اورکراچی ادبی میلوں میں پشتو کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ سندھ میں کراچی وہ شہر ہے جس میں پشتونوں کی آبادی دنیا کے ہر شہر سے زیادہ ہے۔ لیکن اتنی بڑی ابادی اور ان کی زبان و ادب کو یکسر نظر انداز کرنا سندھ کے قلمکاروں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔

شہروں کے نام پر ادبی میلے منعقد کرنے والوں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ جس شہر کا میلہ ہو اس شہر کے ادیبوں اور قلمکاروں کو نظر انداز کرکے وہ ادب اور ادیبوں کا استعماری استحصال نہ کریں۔ یہ اگر اس بار ہم نے کراچی میں دیکھا تو پچھلے سال کوئٹہ ادبی میلے میں بھی اس شہر اور صوبے سے زیادہ دیگر لوگ اس کا حصہ تھے۔ پتہ نہیں کیوں بلوچستان والوں کو اب دیگر آداب کے ساتھ شاید ادب پڑھانے کی بھی ذمہ داری لی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).