23 بدقسمت جزیرے


عہد نامۂ قدیم کی رُو سے زمین پر پہلا قتل ہابیل نے کیا۔ پتھر سے کیے جانے والے اس کاروبارِ قتل کا سلسلہ پھیلتا ہی چلا گیا ، یہاں تک کہ انسانوں نے ہلاکت کو ایک نفع بخش پیشہ بنا لیا۔ لڑائیاں لڑی جانے لگیں۔ اپنی ریاست اور اپنی حکمرانی کے پھیلاؤ کا انسانوں کو اس سے بہتر طریقہ نظر نہ آیا۔

عیاری اور مکاری میں انسان نے جب ترقی کی تو ہر جنگ کے اختتام پر اس نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم نئے ہتھیار اس لیے بناتے ہیں کہ ہم دنیا میں امن چاہتے ہیں۔ عام لوگوں کو فریب دینے کا یہ طریقہ ہزاروں برس سے چلا آرہا ہے۔ جب بھی طبلِ جنگ پر چوٹ پڑتی ہے، یہی کہا جاتا ہے کہ یہ دراصل امن کی کوششوں کو فروغ دینے کی کوشش ہے ۔ ہم یہ آخری جنگ اس لیے لڑ رہے ہیں تاکہ آیندہ کوئی جنگ نہ لڑی جائے اور دنیا میں امن کا دور دورہ ہو ۔

اس وقت یہ باتیں اس لیے ذہن کو مضطرب کر رہی ہیں کہ سب سے پہلے تو ہمارا اپنا خطہ جنگ کے دہانے پرکھڑا ہے اور دونوں طرف کے کار پرداز وہ باتیں کر رہے ہیں جن سے عام آدمی کے مسائل میں کوئی کمی نہیں آتی۔

دوسرے یہ کہ چند دنوں پہلے یکم مارچ کی صبح طلوع ہوئی تو غیر ملکی اخباروں کے علاوہ بی بی سی ، ڈوشے ولے ، سی این این اور فوکس نیوز میں مونگے سے بنی ہوئی ان چٹانوں کا ذکر ہونے لگا جو دراصل چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں اور بحرالکاہل کی فراخ وسعتوں میں بکھرے ہوئے ہیں ۔

یہ ان حسین جزائر کی بد بختی تھی کہ امریکی محکمۂ دفاع کی نظر ان پر پڑی اور انھیں ہیروشیما اور ناگاساکی سے زیادہ طاقتور جوہری بموں کی تجربہ گاہ کے طور پر منتخب کرلیا گیا۔ یہ مونگے کی چٹانوں پر مشتمل 23 چھوٹے چھوٹے جزیرے تھے جو بحرالکاہل کے دور دراز علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے۔
امریکی بحریہ نے اپنے ہولناک تجربے کے لیے منتخب توکرلیا لیکن مشکل یہ تھی کہ ان پر مقامی لوگ آباد تھے ۔ یہ لوگ ہزاروں برس سے ان جزائر میں رہتے تھے ، ان کی اپنی ثقافت اور اپنی زبان تھی۔ ان کے رسم و رواج قدیم تھے اور انھیں اپنی ثقافت کی قدامت پر ناز تھا ۔

دوسری جنگ عظیم کروڑوں انسانوں کو نوالہ بناکر ختم ہوچکی تھی لیکن امریکا اور سوویت یونین کے درمیان ہلاکت کے نئے عفریت جنم دینے کی دوڑ لگ چکی تھی۔ امریکی صدرکو اس بات کی خواہش تھی کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے جنگی بحری جہازوں پر زیادہ طاقتور ایٹمی دھماکوں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ تھا کہ ان جزائر میں 167مقامی باشندے رہتے تھے۔ان کے بادشاہ سے گفت و شنید ہوئی اور جب اسے یہ سمجھایا گیا کہ ’’انسانی فلاح ‘‘ کے لیے اور آیندہ دنیا میں تمام جنگوں کے خاتمے اور ہمیشہ کے لیے امن قائم کرنے کی خاطر یہ ضروری ہے کہ ان جنت نما سرسبز و شاداب جزیروں پر رہنے والے کچھ دنوں کے لیے امریکا کی بنائی ہوئی عارضی خیمہ بستیوں میں منتقل ہوجائیں، انسانیت کے لیے اس سے بڑی بھلائی کوئی اور نہیں ہوسکتی۔

ان خوبصورت وعدوں کی چھاؤں میں یہ 167سادہ لوح اور امن کی خواہش رکھنے والے لوگ اپنی عارضی بستیوں میں رہنے کے لیے چلے گئے اور یہاں سے وہ کہانی شروع ہوئی جو 1954ء میں مکمل ہوئی ۔

مونگے کے بنے ہوئے یہ جزائر جو مارشل جزائر کا ایک حصہ تھے ان پر ہیروشیما سے ایک ہزارگنا زیادہ طاقتورہائیڈروجن بم کا دھماکا کیا گیا اور بحرالکاہل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی مہیب لہریں مونگے کی ان چٹانوں کو ریزہ ریزہ کرگئیں جو ایک قدیم انسانی تہذیب کی امین تھیں ۔

یہ کوئی ایک نہیں 23 جوہری دھماکے تھے جو 12برس کے دوران ان جزائرکی فضا میں ، سمندرکے اندر اور مونگے کی چٹانوں پرکیے گئے ۔ ان دھماکوں کے نتائج جاننے کے لیے ان جزائر کے اردگرد امریکی بحریہ کے جہاز کھڑے کیے گئے تھے ، یہ جہاز ان جوہری دھماکوں سے بری طرح تباہ ہوئے۔

ان جزائر کی زمین زراعت کے لیے اور ان کا پانی مچھلی ، جھینگوں اور دوسری آبی حیات کے لیے زہر بن گیا ۔ بکنی جزائر کے باشندوں سے امریکی حکومت نے جتنے وعدے و عید کیے تھے ، وہ پانی کا بلبلہ ثابت ہوئے۔

ان باشندوں کو زر تلافی کے طورپر 125 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ بھی وعدۂ فروا ثابت ہوا اور اس وقت بھی وہاں کی زمین اور پانی انسانوں کے لیے زہر ہلاہل ہیں۔ اس دوران 2017ء میں امریکی یونیورسٹی اسٹین فورڈ کے تحقیقی ماہرین کے لیے یہ نہایت حیرت کی بات ہے کہ ان جزائر کے پانیوں میں مچھلیاں ، جھینگے اور دوسری آبی حیات وافر مقدار میں پھل پھول رہی ہیں اور ان پر تابکاری کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے ۔

ان جزائر کو بحری جہازوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے جہاں 292 جہاز لائے گئے ۔ ان پر 42 ہزار افراد تعینات تھے ۔ ان کے لیے کلب بنائے گئے اور تفریحی سہولتیں مہیا کی گئیں تاکہ انسانی آبادی سے دور دراز زندگی بسر کرنے والے بحری کارکنوں پر بیزاری حملہ نہ کرے۔ ان پر بیزاری نے حملہ کیا یا نہیں ، اس سے قطع نظر ان پر تابکاری کے کیا اثرات رونما ہوئے۔

اس دوران کئی حادثے ہوئے جن میں چند امریکی سپاہیوں کی جانیں گئیں اور کئی تابکاری کا نوالہ بنے ۔ ہوا تابکار ذرات کو اڑا کر آسٹریلیا ، ہندوستان اور جاپان تک لے گئی اور وہاں انسانوں اور مویشیوں پر اثر انداز ہوئی۔ مچھلیاں پکڑنے والی ایک جاپانی کشتی جس میں 23 مچھیرے موجود تھے وہ 1946ء میں ہونے والے امن جوہری دھماکے سے بے حد متاثر ہوئے اور اذیت ناک موت ان کا مقدر ہوئی ۔

انسانوں کی اس سوچی سمجھی اور سفاکانہ موت اور ماحولیات کی بھیانک تباہی پر کتابیں لکھی گئیں ، ناول تحریر ہوئے ، فلمیں بنیں۔ ان فلموں میں سے ایک گاڈ زیلا ہے جو اکثر ایچ بی او پر دکھائی جاتی ہے ۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ گاڈزیلا دراصل ایک ڈائنوسار تھا جسے ان جوہری تجربات نے زندہ کر دیا اور وہ انسانوں کے لیے ایک عفریت کا روپ دھار گیا۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ بحری جہاز جو تجربے کے لیے استعمال کیے گئے۔ ان میں سے 90 پر زندہ جانور جیسے بھیڑ ، بکریاں ، گائے ، خرگوش ، چوہے اور اسی نوعیت کے دوسرے جانور رکھے گئے تھے تاکہ ان پر اس نئے جوہری بم کے اثرات کا کھوج لگایا جاسکے جو ’’ہائیڈروجن بم‘‘ کہلایا ۔

ان تمام تلخ حقائق سے آگاہی کے ساتھ ہی ہمیں اس فریب کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا کے ملک پہلے سے بہتر ہتھیاروں کی تیاری میں اس لیے مصروف ہیں کہ دنیا میں ہمیشہ کے لیے امن قائم کرسکیں ۔ اسی طرح جنگ کے اگلے میدان کو سجاتے ہوئے اور طبل جنگ بجاتے ہوئے بھی وہ نہایت ’’ انکسار‘‘ سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ وہ اس لیے کر رہے ہیں تاکہ دنیا میں پھر کوئی جنگ نہ ہوسکے اور ابد الآباد تک امن قائم رہے ، انسان اپنی نسلوں کے ساتھ پُر امن اور پُرسکون زندگی گزاریں ۔

1946ء میں بحرالکاہل کے دور افتادہ جزائرکو بدترین عسکری تجربات کے لیے استعمال کرنے کی خاطر اس وقت کے صدر امریکا نے ان سادہ لوح اور سادہ دل انسانوں سے یہ کہہ کر جھوٹ بولا تھا کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے تاکہ آنے والے دنوں میں جنگیں نہ ہوں ، دنیا امن کا گہوارہ بن جائے اور انسان چین کی نیند سوئیں ۔

اس کے بعد سے آج تک امریکا اور دوسرے طاقت ور ملکوں نے کتنے ملکوں پر لڑائیاں مسلط کیں ، یہ ہم سب جانتے ہیں ۔ خوفناک اسلحے کی دوڑ آج تک چل رہی ہے اور ہم اس دوڑ کے سامنے بے بس ہیں ۔

یہ درست ہے کہ 1996ء میں امریکی سرکار نے اس جزیرے کو سیاحت کی اجازت دی اور ہر ہفتے 11 سیاح مونگے کی ان چٹانوں کی سیر کر سکتے ہیں ۔ 2010ء میں یونیسکو نے مونگے کی ان چٹانوں کو دنیا کے ثقافتی ورثے کی حیثیت دے دی ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے جزیروں پر تابکاری کی سطح مسلسل کم ہورہی ہے لیکن ان پر رہنے والے اپنے ہزاروں برس پرانے ثقافتی ورثے کو ترستے ہیں جو امریکی جنگی جنون کی بھینٹ چڑھ گیا ۔

ان  سے کہا گیا تھا کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ دنیا میں مکمل امن قائم ہوسکے اور آیندہ کوئی لڑائی یا جنگ نہ ہو ۔ اس سے بڑا دھوکا اورکیا ہوسکتا تھا ؟

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).